ماہِ رمضان المبارک تقویٰ کے حصول کا بہترین ذریعہ

 

 

از: ابوجندل قاسمی                  

 مدرسہ قاسم العلوم تیوڑہ ضلع مظفرنگر  

 

رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بڑی عظیم نعمت ہے، اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انوار وبرکات کا سیلاب آتا ہے اور اس کی رحمتیں موسلادھار بارش کی طرح برستی ہیں، مگر ہم لوگ اس مبارک مہینے کی قدرومنزلت سے واقف نہیں، کیونکہ ہماری ساری فکر اور جدوجہد مادّیت اور دنیاوی کاروبار کے لیے ہے، اس مبارک مہینے کی قدردانی وہ لوگ کرتے ہیں جن کی فکر آخرت کے لیے اور جن کا محور مابعد الموت ہو۔ آپ حضرات نے یہ حدیث شریف سنی ہوگی، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ آتا تو حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وبَلِّغْنَا رَمَضَانَ، (شعب الایمان۳/۳۷۵، تخصیص شہر رجب بالذکر) ترجمہ: اے اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچادیجیے، یعنی ہماری عمر اتنی دراز کردیجیے کہ ہمیں رمضان کا مہینہ نصیب ہوجائے۔

آپ غور فرمائیں کہ رمضان المبارک آنے سے دو ماہ پہلے ہی رمضان کا انتظار اوراشتیاق ہورہا ہے، اوراس کے حاصل ہونے کی دعا کی جارہی ہے، یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جس کے دل میں رمضان کی صحیح قدروقیمت ہو۔

رمضان کے معنی

”رمضان“ عربی زبان کالفظ ہے، جس کے معنی ہیں ”جھُلسادینے والا“ اس مہینے کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ اسلام میں جب سب سے پہلے یہ مہینہ آیا تو سخت اور جھلسادینے والی گرمی میں آیا تھا۔ لیکن بعض علماء کہتے ہیں کہ اس مہینے میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی خاص رحمت سے روزے دار بندوں کے گناہوں کو جھلسادیتے ہیں اورمعاف فرمادیتے ہیں، اس لیے اس مہینے کو ”رمضان“ کہتے ہیں۔ (شرح ابی داؤد للعینی۵/۲۷۳)

رمضان رحمت کا خاص مہینہ

اللہ تعالیٰ نے یہ مبارک مہینہ اس لیے عطا فرمایا کہ گیارہ مہینے انسان دنیا کے دھندوں میں منہمک رہتا ہے جس کی وجہ سے دلوں میں غفلت پیدا ہوجاتی ہے، روحانیت اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں کمی واقع ہوجاتی ہے، تو رمضان المبارک میںآ دمی اللہ کی عبادت کرکے اس کمی کو دور کرسکتا ہے، دلوں کی غفلت اور زنگ کو ختم کرسکتا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرکے زندگی کا ایک نیادور شروع ہوجائے، جس طرح کسی مشین کو کچھ عرصہ استعمال کرنے کے بعداس کی سروس اور صفائی کرانی پڑتی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی صفائی اور سروس کے لیے یہ مبارک مہینہ مقرر فرمایا۔

روزے کا مقصد

روزے کی ریاضت کا بھی خاص مقصد اور موضوع یہی ہے کہ اس کے ذریعے انسان کی حیوانیت اور بہیمیت کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی اورایمانی وروحانی تقاضوں کی تابعداری وفرماں برداری کا خوگر بنایاجائے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں نفس کی خواہشات اور پیٹ اور شہوتوں کے تقاضوں کو دبانے کی عادت ڈالی جائے اور چوں کہ یہ چیز نبوت اور شریعت کے خاص مقاصد میں سے ہے اس لیے پہلی تمام شریعتوں میں بھی روزے کا حکم رہا ہے، اگرچہ روزوں کی مدت اور بعض دوسرے تفصیلی احکام میں ان امتوں کے خاص حالات اور ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، قرآنِ کریم میں اس امت کو روزے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایاگیا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (سورة البقرہ آیت ۱۸۳) ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے (روزوں کا یہ حکم تم کو اس لیے دیا گیا ہے) تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔

کیوں کہ یہ بات یقینی ہے کہ نفس انسانی انسان کو گناہ، نافرمانی اور حیوانی تقاضوں میں اسی وقت مبتلاکرتا ہے جب کہ وہ سیراور چھکاہوا ہو، اس کے برخلاف اگر بھوکا ہوتو وہ مضمحل پڑا رہتا ہے اور پھر اس کو معصیت کی نہیں سوجھتی، روزے کا مقصد یہی ہے کہ نفس کو بھوکا رکھ کر مادّی وشہوانی تقاضوں کو بروئے کار لانے سے اس کو روکا جائے تاکہ گناہ پر اقدام کرنے کا داعیہ اور جذبہ سُسْت پڑجائے اور یہی ”تقویٰ“ ہے۔

اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ عالم بالا کی پاکیزہ مخلوق (فرشتے) نہ کھاتے ہیں، نہ پیتے ہیں اورنہ بیوی رکھتے ہیں، جبکہ روزہ (صبح صادق سے غروب آفتاب تک) انہی تین چیزوں (کھانا، پینا اور جماع) سے رکنے کا نام ہے، تو گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو روزے کا حکم دے کر ارشاد فرمایا ہے کہ اے میرے بندو! اگر تم ان تینوں چیزوں سے پرہیز کرکے ہماری پاکیزہ مخلوق کی مشابہت اختیار کروگے تو ہماری اس پاکیزہ مخلوق کی پاکیزہ صفت بھی تمہارے اندر پیدا ہوجائے گی اور وہ صفت ہے: لاَیَعْصُوْنَ اللہَ مَا اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُوٴْمَرُوْنَ۔ (سورئہ تحریم) ترجمہ: وہ (فرشتے) خداکی نافرمانی نہیں کرتے کسی بات میں جو ان کو حکم دیتا ہے اور جو کچھ ان کو حکم دیاجاتا ہے اس کو فوراً بجالاتے ہیں۔ (بیان القرآن) اور اسی کاحاصل ”تقویٰ“ ہے۔

تقریباً اسی بات کو اس حدیث شریف میں بھی فرمایاگیاہے جو ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لِکُلِّ شَیْءٍ زَکوٰةٌ وَزَکوٰةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ۔ (ابن ماجہ ص۱۲۵) ہر چیز کے لیے کوئی نہ کوئی صفائی ستھرائی کا ذریعہ ہے اور بدن کی صفائی ستھرائی کا ذریعہ ”روزہ“ ہے۔

بہرحال روزے کا مقصد تقویٰ ہے، اسی تقویٰ کے حصول کے لیے اس آخری امت پر سال میں ایک مہینے کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک رکھا گیا اور یہ زمانہ اِس دور کے عام انسانوں کے حالات کے لحاظ سے ریاضت وتربیت کے مقصد کے لیے بالکل مناسب اورنہایت معتدل مدت اور وقت ہے۔ پھر اس کے لیے مہینہ وہ مقرر کیاگیا جس میں قرآن کریم کا نزول ہوا اور جس میں بے حساب برکتوں اور رحمتوں والی رات (شبِ قدر) ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ یہی مبارک مہینہ اس کے لیے سب سے زیادہ مناسب اور موزوں زمانہ ہوسکتاتھا، اسی کے ساتھ ساتھ اس مہینے میں دن کے روزوں کے علاوہ رات میں بھی ایک خاص عبادت کا عمومی اور اجتماعی نظام قائم کیاگیا جس کو ”تراویح“ کہا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس مبارک مہینے کی نورانیت اور تاثیر میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور ان دونوں عبادتوں کے احادیث شریفہ میں بہت زیادہ فضائل ارشاد فرمائے گئے ہیں، چنانچہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہ وَمَنْ قَامَ رَمضَانَ اِیْمَانًا وَّ احتِسَابًا غُفِرَ لَہٗ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہ (صحیح بخاری ۱/۲۷۰، صحیح مسلم۱/۲۵۹) ترجمہ: جو شخص ماہِ رمضان کے روزے رکھے بحالت ایمان اور بامید ثواب تو اس کے گذشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے اور جو شخص ماہِ رمضان میں کھڑاہو یعنی نوافل (تراویح وتہجد وغیرہ) پڑھے بحالت ایمان اور بامید ثواب اس کے بھی گذشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔

تقویٰ کے حصول میں معاون چیزیں

لیکن صرف روزہ رکھنے اور تراویح پڑھنے کی حد تک بات ختم نہیں ہوتی بلکہ اس ماہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ غفلت کے پردوں کو دل سے دور کیاجائے، اصل مقصدِ تخلیق کی طرف رجوع کیاجائے، گزشتہ گیارہ مہینوں میں جو گناہ ہوئے ان کو معاف کراکر آئندہ گیارہ مہینوں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کے استحضار اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کے ساتھ گناہ نہ کرنے کا داعیہ اور جذبہ دل میں پیدا کیا جائے، جس کو ”تقویٰ“ کہا جاتا ہے۔ اس طرح رمضان المبارک کی صحیح روح اوراس کے انوار وبرکات حاصل ہوں گے، ورنہ یہ ہوگا کہ رمضان المبارک آئے گا اور چلا جائے گا اور اس سے صحیح طور پر ہم فائدہ نہیں اٹھاپائیں گے، بلکہ جس طرح ہم پہلے خالی تھے ویسے ہی خالی رہ جائیں گے، اس لیے چند ایسی چیزوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جن پر عمل کرکے ہمیں روزے کا مقصد (تقویٰ) اور رمضان المبارک کے انوار وبرکات حاصل ہوں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

(۱) عبادت کی مقدار میں اضافہ

رمضان المبارک کی برکتوں کو حاصل کرنے کے لیے اپنی عبادت کی مقدار میں اضافہ کرنا ہے، دوسرے ایام میں جن نوافل کو پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی ان کو اس مبارک ماہ میں پڑھنے کی کوشش کریں، مثلاً: مغرب کے بعد سنتوں سے الگ یا کم از کم سنتوں کے ساتھ چھ (۶) رکعت اوّابین پڑھیں۔ (جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ اوّابین افطار کی نذر ہوجاتی ہیں) عشاء کی نماز سے چند منٹ پہلے آکر چار رکعت یادو رکعت نفل پڑھیں۔ سحری کھانے کے لیے اٹھنا ہی ہے تو چند منٹ پہلے اٹھ کر کم از کم چار رکعت تہجد پڑھ لیں۔ اسی طرح اشراق کی نماز اور اگراشراق کے وقت نیند کا غلبہ ہوتو چاشت کی چند رکعتیں تو پڑھ ہی لیں۔ ظہر کے بعد دو سنتوں کے ساتھ دو رکعت نفل اور عصر سے پہلے چار رکعت نفل پڑھ لیں۔ کیوں کہ نماز کا خاصہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کا رشتہ جوڑتی ہے اوراس کے ساتھ تعلق قائم کراتی ہے، جس کے نتیجے میں انسان کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے، جیساکہ حضرت ابوہریرہ سے مروی حدیث شریف میں ہے: اَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَّبِّہ وَھُوَ سَاجِدٌ (مسلم شریف حدیث ۱۱۱۱، باب ما یقال فی الرکوع والسجود) یعنی بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتاہے، تو گویا نماز کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم تحفہ عطا کیاہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے، آمین!

(۲) تلاوتِ قرآنِ کریم کی کثرت

دوسرا کام یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت کا خاص اہتمام کرنا ہے، کیوں کہ رمضان المبارک کے مہینے کو قرآن کریم کے ساتھ خاص مناسبت اور تعلق ہے، اسی مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا، ارشادِ مبارک ہے: شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ، (سورہٴ بقرہ آیت ۱۸۵) خود نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم بھی رمضان المبارک میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن مجید کا دور فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری شریف۱/۳، حدیث۶) تمام بزرگانِ دین کی زندگیوں میں یوں تو قرآنِ کریم میں اشتغال بہت زیادہ نظر آتاہے، لیکن رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی تلاوت کے معمول میں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتا ، چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس مبارک مہینے میں ایک قرآنِ کریم دن میں، ایک رات میں اور ایک تراویح میں، اس طرح اکسٹھ (۶۱) قرآن کریم ختم فرماتے تھے۔ ماضی کے ہمارے تمام اکابر (حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا محمد قاسم نانوتوی،مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا شاہ عبدالرحیم رائپوری، شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا یحییٰ کاندھلوی، مولانا محمد الیاس کاندھلوی، شاہ عبدالقادر رائپوری، شیخ الحدیث مولانا زکریا مہاجر مدنی، فقیہ الامت مولانا مفتی محمودحسن گنگوہی، مولانا قاری سید صدیق احمد باندوی، مولانا شاہ ابرارالحق ہردوئی، فدائے ملت مولانا سیداسعدمدنی وغیرہم) کا رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن کریم کا معمول دیدنی ہوتا تھا۔ لہٰذا ہم کو بھی اس مبارک ماہ میں عام دنوں کے مقابلے میں تلاوت کی مقدار زیادہ کرنی ہے، عام آدمی کو بھی روزانہ کم از کم تین پارے پڑھنے چاہئیں، تاکہ پورے مہینے میں کم از کم تین قرآنِ کریم ختم ہوجائیں۔

(۳) تراویح میں قرآنِ کریم صحیح پڑھنے اور سننے کا اہتمام

اس مبارک مہینے میں ہرموٴمن کو اس بات کی بھی فکر کرنی ضروری ہے کہ تراویح میں قرآنِ مجید صحیح اور صاف صاف پڑھا جائے، جلدی جلدی اور حروف کو کاٹ کاٹ کر پڑھنے سے پرہیز کیا جائے، کیوں کہ اس طرح قرآنِ کریم پڑھنا اللہ کے کلام کی عظمت کے خلاف ہے، نیز پڑھنے والے کو خود قرآنِ کریم بددعا دیتا ہے۔ (احیاء العلوم عن انس۱/۲۷۴، فی ذمّ تلاوة الغافلین) اس طرح قرآن کریم پڑھنے والا اور سننے والے سب گنہگار ہوتے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ حافظ صاحب نہایت تیزگامی کے ساتھ حروف کو کاٹ کاٹ کر پڑھتے چلے جارہے ہیں، ایک سانس میں سورہٴ فاتحہ کو ختم کردیا جاتا ہے ، صحیح طریقے سے رکوع، سجدہ اور تشہد ادا نہیں ہورہا ہے، چالیس پینتالیس منٹ میں پوری نماز ختم، اب گھنٹوں مجلسوں میں بیٹھ کر گپ شپ ہورہا ہے اورحافظ صاحب وسامعین میں سے کسی کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم نے قرآنِ کریم کی توہین میں کتنا حصہ لیا اور رمضان کی مبارک ساعتوں میں کتنی بے برکتی اور قرآن کریم کی کتنی بددعا لی؟ خدا را اس صورتِ حال سے بچئے اور اس مبارک مہینے میں برکتوں اور رحمتوں کے دروازے کو اپنے اوپر بند نہ کیجیے اور صاف صحیح قرآن کریم پڑھنے اور سننے کا اہتمام کرکے دارین کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔

(۴) استغفار کی کثرت

چوتھا کام یہ کرنا ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرنی ہے، حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی مشہور حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر کی پہلی، دوسری اور تیسری سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے ”آمین“ فرمایا، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے پوچھنے پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جبرئیل امین علیہ الصلاة والسلام میرے سامنے آئے تھے اورجب میں نے منبر کے پہلے زینے پر قدم رکھا تو انھوں نے کہا: ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی، میں نے کہا آمین، الیٰ آخر الحدیث (مستدرک حاکم ۴/۱۷۰، کتاب البر والصلة، الترغیب والترہیب ۲/۵۶)

ظاہر ہے کہ اس شخص کی ہلاکت میں کیا شبہ ہے جس کے لیے حضرت جبرئیل علیہ السلام بددعا کریں اورحضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم آمین کہیں، اس لیے اس مبارک مہینے میں نہایت کثرت کے ساتھ گڑگڑا کر اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کرے۔

(۵) دعا کا اہتمام

رمضان المبارک کی برکات کو حاصل کرنے کے لیے دعاؤں کا اہتمام بھی لازم ہے، بہت سی روایات میں روزے دار کی دعا کے قبول ہونے کی بشارت دی گئی ہے، حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ثَلٰثَةٌ لاَ تُرَدُّ دَعْوَتُھُمْ اَلصَّائِمُ حَتّٰی یُفْطِرَ، الحدیث۔ (ترمذی شریف ۲/۲۰۰، حدیث ۳۵۹۸، مسند احمد حدیث ۹۷۴۳) ترجمہ: تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی (ضرور قبول ہوتی ہے) ایک روزے دار کی افظار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی، تیسرے مظلوم کی بددعاء، اس کو اللہ تعالیٰ بادلوں سے اوپر اٹھالیتے ہیں اورآسمان کے دروازے اس کے لیے کھول دیے جاتے ہیں اورارشاد ہوتا ہے کہ میں تیری ضرور مدد کروں گا گو(کسی مصلحت سے) کچھ دیر ہوجائے۔

بہرحال یہ مانگنے کا مہینہ ہے، اس لیے جتنا ہوسکے دعا کا اہتمام کیا جائے، اپنے لیے، اپنے اعزہ واحباب اور رشتے داروں کے لیے، اپنے متعلقین کے لیے، ملک وملت کے لیے اور عالم اسلام کے لیے خوب دعائیں مانگنی چاہئیں، اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرمائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

(۶) صدقات کی کثرت

رمضان المبارک میں نفلی صدقات بھی زیادہ سے زیادہ دینے کی کوشش کرنی چاہیے، حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا دریا پورے سال ہی موجزن رہتا تھا، لیکن ماہِ رمضان المبارک میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت ایسی ہوتی تھی جیسے جھونکے مارتی ہوئی ہوائیں چلتی ہیں (بخاری شریف ۱/۳) جو شخص بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا اس کو ضرور نوازتے۔ لہٰذا ہم کو بھی اس بابرکت مہینے میں اس سنت پر عمل کرتے ہوئے صدقات کی کثرت کرنی چاہیے۔

(۷) کھانے کی مقدار میں کمی

ساتویں چیز جس کالحاظ رمضان المبارک کے مقصد کو حاصل کرنے میں معاون ہے ”کھانے کی مقدار میں کمی کرنا“ ہے، کیوں کہ روزے کا مقصد قوتِ شہوانیہ وبہیمیہ کا کم کرنا اور قوتِ ملکیہ ونورانیہ کا بڑھانا ہے، جب کہ زیادہ کھانے سے یہ غرض فوت ہوجاتی ہے، بقول شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب ہم لوگوں کا حال یہ ہے کہ افظار کے وقت تلافیٴ مافات میں (کہ پورے دن بھوکا رہا)اور سحر کے وقت حفظ ماتقدم میں (کہ پورے دن بھوکا رہناہے) اتنی زیادہ مقدار میں کھالیتے ہیں کہ بغیر رمضان کے بھی اتنی مقدار کھانے کی نوبت نہیں آتی جس کی وجہ سے کھٹی ڈکاریں آنے لگتی ہیں، حقیقتاً ہم لوگ صرف کھانے کے اوقات بدلتے ہیں یعنی افظار میں، تراویح کے بعد اور پھر سحری میں، اس کے علاوہ کچھ بھی کمی نہیں کرتے، بلکہ مختلف قسم کی زیادتی ہی ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے قوتِ شہوانیہ و بہیمیہ کم ہونے کے بجائے اور بڑھ جاتی ہے اورمقصد کے خلاف ہوجاتاہے۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَا مَلَأ اٰدَمِیٌّ وِعَاءً شَرَّا مِنْ بَطْنٍ بِحَسْبِ ابْنِ اٰدَمَ اُکُلَاتٌ یُقِمْنَ صُلْبَہ فَاِنْ کَانَ لاَ مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِہ وَثُلُثٌ لِشَرَابِہ وَثُلُثٌ لِنَفسِہ۔ (ترمذی شریف ۲/۶۰) یعنی اللہ تعالیٰ کو کسی برتن کا بھرنا اتنا ناپسند نہیں جتنا پیٹ کا بھرنا ناپسند ہے،ابن آدم کے لیے چند لقمے کافی ہیں جن سے کمرسیدھی رہے، اگر زیادہ ہی کھانا ہے تو ایک تہائی پیٹ کھانے کے لیے رکھے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے رکھے۔ البتہ اتنا کم نہ کھائے کہ عبادات کے انجام دینے میں اور دوسرے دینی کاموں میں خلل واقع ہو۔

(۸) گناہوں سے پرہیز

رمضان المبارک میں خاص طور پر گناہوں سے پرہیز کرنا نہایت ضروری ہے، ہر موٴمن کو یہ طے کرلینا چاہیے کہ اس برکت ورحمت اورمغفرت کے مہینے میں آنکھ، کان اور زبان غلط استعمال نہیں ہوگی، جھوٹ، غیبت، چغل خوری اور فضول باتوں سے مکمل پرہیز کرے، یہ کیا روزہ ہوا کہ روزہ رکھ کر ٹیلی ویژن کھول کر بیٹھ گئے اور فحش وگندی فلموں سے وقت گزاری ہورہی ہے، کھانا، پینا اورجماع جو حلال تھیں ان سے تو اجتناب کرلیا لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر کسی کی غیبت ہورہی ہے، چغل خوری ہورہی ہے، جھوٹے لطیفے بیان ہورہے ہیں، اس طرح روزے کی برکات جاتی رہتی ہیں۔

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلہِ حَاجَةٌ فِیْ اَن یَّدَعَ طَعَامَہ وَشَرَابَہ۔ (صحیح بخاری ۱/۲۵۵) ترجمہ: جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کام اور باطل کلام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یعنی روزے کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات ومنکرات سے بھی زبان ودہن اور دوسرے اعضاء کی حفاظت کرے، اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور گناہ کی باتیں اور گناہ والے اعمال کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے روزے کی کوئی پروا نہیں۔ (معارف الحدیث۴/۰۰۰۰)

ایک اور حدیث شریف میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رُبَّ صَائِمٍ لَیْسَ لَہ مِنْ صِیَامِہ اِلَّا الْجُوْعُ وَرُبَّ قَائِمٍ لَیْسَ لَہ مِنْ قِیَامِہ اِلَّا السَّھْرُ۔ (سنن ابن ماجہ حدیث ۱۶۹۰۔ سنن نسائی حدیث ۳۳۳۳) ترجمہ: بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزے کے ثمرات میں سے بھوکا رہنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی اگر گناہوں (غیبت وریا وغیرہ) سے نہ بچے تو روزہ، تراویح اور تہجد وغیرہ سب بیکار ہے۔

حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مَالَمْ یَخْرِقْھَا۔ (نسائی شریف حدیث ۲۲۳۳، مسند احمد حدیث ۱۶۹۰) ترجمہ: روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔ یعنی روزہ آدمی کے لیے شیطان سے، جہنم سے اور اللہ کے عذاب سے حفاظت کا ذریعہ ہے، جب تک گناہوں (جھوٹ وغیبت وغیرہ) کا ارتکاب کرکے روزے کو خراب نہ کرے۔

حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ایک حدیث شریف میں ہے کہ اگر روزے دار سے کوئی شخص بدکلامی اور جھگڑا وغیرہ کرنے کی کوشش کرے تو روزے دار کہہ دے کہ میرا روزہ ہے۔ یعنی میں ایسی لغویات میں پڑکر روزے کی برکات سے محروم ہونا نہیں چاہتا۔ (صحیح بخاری ۱/۲۵۴، حدیث ۱۸۹۴، صحیح مسلم حدیث ۱۱۵۱)

ان تمام احادیث شریفہ کا مدعا یہ ہے کہ روزے کے مقصد (تقویٰ) اور رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں کے حصول کے لیے معصیات ومنکرات سے پرہیز نہایت ضروری ہے، اس کے بغیر تقوے کی سعادت سے متمتع نہیں ہوسکتا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت سے ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، رمضان المبارک کی قدردانی کی توفیق بخشے اور اس بابرکت مہینے کے اوقات کو صحیح طور پر خرچ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین!

$ $ $

 

-------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ7‏-8 ، جلد: 99 ‏، رمضان - شوال 1436 ہجری مطابق  جولائی -اگست  2015ء