مولانا عبدالرحیم بستوی بھی چل بسے

 

 

 

۲۴/ذی قعدہ ۱۴۳۶ھ = ۹/ستمبر ۲۰۱۵/ یوم چہارشنبہ کو تقریباً ۹/بجے دن میں دارالعلوم دیوبند کے قدیم استاذ مولانا عبدالرحیم بستوی کا لگ بھگ ۸۰ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ ”انا للہ وإنا إلیہ راجعون“ مولانا مرحوم ادھر کئی مہینوں سے بیمار چل رہے تھے، نقاہت اور کمزوری بھی بڑھ گئی تھی، قیام گاہ سے درس گاہ تک پیدل چل کر آنے کی سکت نہیں تھی پھر بھی رکشا کے ذریعہ آتے اور بشاشت کے ساتھ درس دیتے، یہ سلسلہ ماہ رجب تک جاری رہا، شعبان میں امتحان سالانہ کی تکمیل کے بعد زمانہٴ تعطیل میں مرض اور ضعف بتدریج بڑھتا گیا، دیوبند، حیدرآباد، پھر چنڈی گڑھ وغیرہ مقامات میں معقول علاج ہوتا رہا؛ مگر مرض میں نشیب وفراز جاری رہا، بالآخر چنڈی گڑھ سے جہاں آخری مرحلہ میں زیرعلاج تھے ڈاکٹروں کے مشورہ سے گھر دیوبند آگئے تھے اور یہیں یہ حادثہٴ فاجعہ پیش آیا۔

مرحوم دارالعلوم دیوبند کے ان چند مخصوص اساتذہ میں سے ایک تھے، جنھیں حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی قُدِّسَ سِرُّہ سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔ اپنی مادرعلمی دارالعلوم دیوبند سے مولانا مرحوم کو غایت درجہ محبت تھی اوراس کی خدمت کو سعادت باور کرتے تھے۔ آج سے ۳۲-۳۳ سال پہلے دارالعلوم اپنی تاریخ کے نہایت سنگین حالات میں گرفتار تھا اوراسے مردانِ کار کی ضرورت تھی، اس وقت مولانا بنگلور، کرناٹک کی ایک جامع مسجد میں امامت وخطابت کے بلند منصب پر فائز تھے اور وہاں مولانا کے عقیدت مندوں کا ایک وسیع حلقہ تھا، دینی سیادت کے ساتھ دنیوی منافع بھی حاصل تھے؛ مگر ان سب کو نظر انداز کرکے رضاکارانہ طور پر دارالعلوم دیوبند کو اپنی خدمات پیش کردی، اس دورِ مصلحت اندیش میں ایسے مخلصین کم ہی ملیں گے۔

مولانا مرحوم ایک اچھے معلّم ومدرس کے ساتھ، بہترین خطیب ومقرر بھی تھے، شروع میں دینی جلسوں میں کثرت سے شرکت کرتے تھے؛ لیکن ادھر چند سالوں سے بہ تقاضائے عمر اور تدریسی مصروفیت کی بنا پر اس سلسلے میں کمی کردی تھی؛ البتہ معمول کے ساتھ رمضان کی تعطیل میں لندن کا دعوتی سفر جاری تھا، بس اس رواں سال کے رمضان المبارک میں بیماری کی بنا پر یہ سفر نہیں ہوسکا؛ حالاں کہ ویزا وغیرہ کی کارروائی پہلے ہی ہوچکی تھی، مولانا کا یہ سفر دینی اعتبار سے نہایت مفید تھا اور وہاں مقیم مسلمانوں کی اصلاح وہدایت کا ایک موٴثر ذریعہ تھا، لندن کے ان اسفار میں بیان کیے گئے مواعظ کو ”خطباتِ لندن“ کے نام سے شائع بھی کردیا تھا، جسے دینی حلقوں میں بہ نظرِ استحسان دیکھا گیا۔

مولانا موصوف نہایت نرم گفتار اور بُردبار شخصیت کے حامل تھے، اپنے چھوٹوں کے ساتھ بڑی شفقت وعنایت کا معاملہ کرتے تھے، اپنی اس صفت میں وہ دارالعلوم دیوبند کے احاطہ میں بطور خاص معروف ومشہور تھے، ان کے تعلقات دارالعلوم کے جملہ اساتذہ سے بہت اچھے تھے، میرے خیال میں ان سے کسی کو بھی شکایت نہیں تھی۔ بالخصوص حضرت مولانا ریاست علی بجنوری دامت برکاتہم سے ان کا گہرا تعلق تھا، بعد نماز عصر ان کے ساتھ بیٹھنے کا معمول تھا اور اس معمول کو بڑی خوش اسلوبی سے زندگی بھر نباہا، اس طرح کے وضع دار لوگ کہاں ملتے ہیں۔ ع

خدا بخشے بہت ہی خوبیاں تھیں جانے والے میں!

$ $ $

 

-----------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10، جلد: 99 ‏، ذی الحجہ1436 ہجری مطابق اکتوبر 2015ء