حرفِ آغاز

دہشت گردی

 

مولانا حبیب الرحمن اعظمی

 

۱۳/نومبر ۲۰۱۵/ کو پیرس پر نام نہاد ”داعش“ کے حملوں سے فرانس ہی نہیں پوری دنیائے انسانیت لرزگئی، آج سے تقریباً ڈیڑھ دہائی قبل ۱۱/ستمبر کو امریکہ میں واقع دہشت گردی کے سانحہ کے بعد ایک بار پھر بین الاقوامی برادری بالخصوص امریکہ اور یورپ میں دہشت کے انسانیت کُش مسئلہ پر بڑی شد ومند اور تیز وتند بحث چھڑگئی، ظاہر ہے اس طرح کے خونریز حملوں کو کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے؛ اس لیے اس انسانیت کش مسئلہ پر پوری سنجیدگی اور دردمندی کے ساتھ بحث ہونی چاہیے۔

اگرچہ اس پندرہ سالہ وقفہ کے دوران ایشیا، افریقہ وغیرہ کے مختلف ممالک اور شہروں میں دہشت گردی اور ناحق قتل و خوں ریزی کے بڑے بڑے روح فرسا حادثے رونما ہوئے، ہندوستان کے عروس البلاد ممبئی میں ۲۶/نومبر ۲۰۰۸/ کے حملہ کی دہشت ناکی پیرس میں واقع حالیہ حادثہ سے کم نہیں تھی، پھر بھی امریکہ اور یورپ نے اس پر اس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی توقع کی جارہی تھی اور اسے خطہ کی دو حریف طاقتوں کی کش مکش کا شاخسانہ قرار دے کر نظر انداز کردیا؛ بہرحال اب وقت آگیا ہے کہ اقوامِ عالم سرجوڑ کر بیٹھیں اور سچے دل سے انسانیت کے گلے کا پھندا بنی اس بلا کو نیست ونابود کرنے کے لیے متفقہ طریقہٴ کار طے کریں۔

یہ کس قدر تعجب خیز اور حیرت ناک امر ہے کہ آج تک عالمی برادری کا اس پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے کہ دہشت گردی ہے کیا؟ ہر ملک، حکومت، سیاسی وغیرسیاسی پارٹیاں اور تنظیمیں، اپنے اپنے حالات، گردوپیش کے ماحول اور ذہنی تحفظات کے تحت الگ الگ تعریفیں بیان کررہی ہیں، اب سے تقریباً گیارہ سال پہلے اس وقت کے اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری نے دہشت گردی کی تعریف و تشریح یوں کی تھی: ”کوئی مسلح گروہ کسی ملک کی حکومت، یا کسی قوم کی رعیت سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے، یا کسی بین الاقوامی ادارے کو اس کے فرائض کی انجام دہی سے روکنے کے لیے جب نہتے عوام اور بے قصور شہریوں کی جانیں لے، یا ان کوجسمانی نقصان پہنچائے تو اس کو دہشت گردی کہا جائے گا“۔

اقوام متحدہ کی اس تعریف میں گوریلا جنگ اختیار کرنے، یا فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے یا فوجی قافلوں پر شب خون مارنے کو دہشت گردی میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اسی طرح اس رپورٹ میں سرکاری دہشت گردی کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے؛ حالاں کہ آج کی دنیا میں ہٹلر کی پہچان ایک سرکاری دہشت گرد کی حیثیت سے ہی ہوتی ہے۔

۱۱/۹ سانحہ کے بعد اسی سرکاری وسیاسی دہشت گردی کے ذریعہ افغانستان کو تہس نہس کردیا گیا، تباہ کن ہتھیاروں کے مبینہ ذخائر کے بہانے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور اس کے قومی صدر کو تختہٴ دار پر چڑھا دیاگیا، امریکہ اور مغرب کی بیجا دخل اندازیوں کی بنا پر تیونس اوریمن سربراہوں کو جلاوطنی اختیار کرنی پڑی، لیبیا کے کرنل قذافی کو بے رحمی سے قتل کردیا گیا، ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکی اور ناٹو کی بمباریوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد دس لاکھ سے زائد ہے۔ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیر نے (جو عراق کی تباہی میں امریکہ کے رفیق اور شریک کار تھے) عراق پر حملے کے لیے معافی مانگ کر داعش کے فروغ کے لیے امریکہ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے، واقعہ بھی یہی ہے کہ ایک ملک اپنے مفاد میں دوسرے ملک کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے کے لیے جاں بازوں کی تربیت کرتا ہے، جو انجام کار دہشت گرد بن جاتے ہیں، افغانستان، پاکستان، عراق، یمن، شام کے حالات اس کے شاہد ہیں۔

آخر یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ امریکہ اور یورپ کی چیرہ دستیوں اور دہشت گردیوں سے ایک عالم نالاں وہراساں ہے پھر بھی وہ حقوقِ انسانی کے محافظ اور پاسبان کہلاتے ہیں!

اسرائیل اپنے وجود کے روزِ اوّل سے دہشت گردی میں ملوث ہے؛ بلکہ دنیا میں باقاعدہ دہشت گردی اسرائیلی صہیونیوں کے بطن ہی سے پیدا ہوئی ہے جس کے نتیجے میں آج فلسطین کا چپہ چپہ مظلوم فلسطینیوں کے خون سے رنگین ہے، اور یہ دریائے خون بڑھتے بڑھتے مشرق وسطیٰ کے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے؛ مگر امریکہ اور یورپ کو اسرائیل کی یہ دہشت گردی نظر نہیں آرہی ہے؛ بلکہ اپنے حقوق کے لیے ظالم اسرائیل کی مزاحمت کرنے والے مجبور ومظلوم فلسطینیوں کو الٹے دہشت گرد بناکر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ خود اپنے ملک ہندوستان میں نام زد دہشت گردوں اور آتنگ وادیوں نے پندرہ سال کی مدت میں اتنا خون نہیں بہایا ہوگا جتنا خون امن وسلامتی کے نگہبانوں نے گجرات میں پندرہ دنوں میں بہادیا۔ فسادات کی تحقیقات سے متعلق رپورٹیں شاہد ہیں کہ جبل پور، بھیونڈی، ممبئی، بھاگلپور وغیرہ شہروں میں ایک خاص طبقہ کی نسل کُشی میں سیاسی دہشت گردی کا ہاتھ تھا۔

واقعات ومشاہدات اور زمینی حقائق یہی ہیں جو اوپر مذکور ہوئے، مگر مشہور مثل کے مطابق ”نزلہ بر عضوِ ضعیف می ریزد“ ایشیا ہو یا یورپ، امریکہ ہو یا مشرقِ وسطیٰ، کہیں بھی برپا تشدد کو مسلمانوں سے جوڑدیا جاتا ہے؛ چنانچہ پیرس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد (جوکہ قابلِ صد مذمت اور انسانیت سوز ہیں) کوئی اور نہیں؛ بلکہ اپنے آپ کو سب سے بڑا روادار جتلانے والے امریکی صدر براک اوبامہ نے اسی بات کو دوہرایا کہ ”مسلمانوں اور اسلامی ملکوں کے سربراہوں نے کھل کر حملوں کی مذمت نہیں کی“ داعش جیسے دہشت گردوں کے خلاف مسلمانوں کو اٹھ کھڑا ہونا ہوگا، مسلمانوں کو اپنے گریبان میں جھانکھنا ہوگا۔

خود احتسابی تو مسلمانوں کا مذہبی شیوہ ہے، وہ ایک بار نہیں سوبار اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں اور جھانکتے رہیں گے؛ البتہ کیا صدر امریکہ کے لیے یہ زیب نہیں ہے کہ وہ قوم مسلم کو نصیحت دینے کے بجائے خود اپنے گریبان میں جھانکیں؟، امریکہ کی اسلام مخالف پالیسیوں کے طرف دار وشریکِ کار برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیر نے صاف لفظوں میں دنیا پر ظاہر کردیا ہے کہ داعش کے فروغ میں امریکہ کا ہاتھ ہے، علاوہ ازیں یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ”طالبان، اور القاعدہ“ کی نشو ونما میں بھی امریکہ ہی ملوث ہے۔

اس لیے صدر امریکہ ہی نہیں؛ بلکہ بین الاقوامی برادری سے ہم مخلصانہ طور پر کہتے ہیں کہ اگر وہ واقعی طور پر دنیا کو دہشت گردی کی بلا سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو اپنے فکر وعمل کے نہج میں تبدیلی پیدا کریں اور اسلام مخالف نظریہ کے بجائے عدل وانصاف کی راہ اختیار کریں، اپنے اور پرائے کی تفریق کو پس انداز کرکے حق وباطل، ظالم ومظلوم کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں، ورنہ دنیا کے ایک بڑے حصے کو احساسِ مظلومی میں مبتلا رکھتے ہوئے اس بلا سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ساری کوششیں رائگاں جائیں گی۔

یہ آگ سلگتی ہے جتنی اتنا ہی دھواں کم دیتی ہے

احساسِ ستم بڑھ جاتا ہے تو شورِ فغاں کم ہوتا ہے

$ $ $

 

------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ1، جلد:100 ‏، ربیع الاول1437 ہجری مطابق جنوری 2016ء