سیرت نبوی کا تجارتی پہلو

 

از: محمد حذیفہ ہردے پوری          

مدرس مدرسہ قاسم العلوم تیوڑہ، مظفرنگر

 

جزیرہٴ عرب ایک بالکل بے آب وگیاہ علاقہ ہے جہاں کھیتی باڑی کرنے یا مویشی پالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور چونکہ اس دور میں اہلِ عرب علم و ہنر اور فنون سے بھی نا آشنا تھے؛ اس لیے ان کے لیے معاش کے طور پر ایک پیشہ تجارت ہی بہترین قرار پاسکتا تھا ویسے بھی جزیرہٴ نما عرب دنیا کے عین وسط میں ہونے کی بنا پر مختلف ملکوں کے درمیان ایک بہترین مقام اتصال تھا؛ اس لیے یہاں کے باشندوں کا عام پیشہ تجارت تھا اور وہ تجارت کے سلسلے میں دور دراز کے ممالک کی طرف سیاحی کرتے رہتے تھے۔ ان کے تجارتی قافلے ایک جانب تو بحر ہند سے لے کر بحیرہٴ روم تک اور دوسری جانب جنوبِ عرب میں عمان و یمن سے لے کر شمال میں فلسطین و شام تک چلتے رہتے تھے۔ اس طرح یہ بڑی بڑی تجارتی شاہراہیں انھیں کے قبضے میں تھیں اور ان کے بڑے بڑے تجارتی کارواں مال و اسباب سے لدے ہوئے آتے جاتے رہتے تھے۔ موسم گرما میں ان کے سفر شمال میں شام کی طرف ہوتے اور موسم سرما میں جنوب میں عمان و یمن کی طرف۔ آبادی کا بیشتر حصہ اسی تجارت پر گذر بسر کرتا اپنا بیشتر سرمایہ تجارتی کاموں میں لگائے رکھتا قا فلوں کی واپسی پر منافع آپس میں تقسیم ہوتے۔

    یہ تاجر پیشہ لوگ دوسرے باشندوں کی بہ نسبت آسودہ تھے، ان میں سے قبیلہٴ قریش کا تجارتی مقام تو بہت بلند تھا؛ بل کہ وہ عرب کی پوری تجارت پر حاوی تھے جس کی شہادت خود اللہ جل شانہ نے اپنے کلام مقدس میں دی ہے: لإیلافِ قریشٍ إیْلَافِہِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّیْفِ (القریش آیت: ۱،۲)

    ماضی قریب کے مشہور محقق ڈاکٹر محمد حمیداللہ اپنی تصنیف ”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی“ میں لکھتے ہیں ”چین و عرب کی تجارت عرب سے ہوکر یورپ جاتی تھی قریش کا عرب کی تجارت پر حاوی رہنا ،مصر و شام، عراق و ایران، یمن و عمان، حبش و سندھ وغیرہ سے انھوں جو تجارتی معاہدے کر رکھے تھے اور رحلةَ الشتاء والصیف کے باعث شمال و جنوب کے جس طرح قلابے ملاتے رہتے تھے وہ سب جانتے ہیں“ (ص: ۳۷)

    حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خانوادہٴ قریش میں ہی آنکھیں کھولیں اور اسی تجارتی ماحول میں نشوو نما پائی لہٰذا آپ تجارت جیسے مقدس پیشے سے الگ کیسے رہ سکتے تھے آپ کے چچا ابو طالب بھی تاجر تھے اور تجارت کے لیے دور دراز کے سفر اختیار کیا کرتے تھے دادا کی وفات کے بعد انھوں نے آپ کی پرورش کا ذمہ اپنے کندھوں پر اٹھایا اور آپ کو اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب رکھا اسی محبت کی بنا پر آپ کو اپنے ساتھ سفر پر بھی لے جانے لگے ۔

آپ کا پہلا تجارتی سفر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک ۱۲سال دو ماہ ہوچکی تھی کہ آپ کے چچا ابو طالب نے قریش کے قافلہٴ تجارت کے ساتھ شام کا ارادہ کیا مصائبِ سفر کے خیال سے ابو طالب کا ارادہ آپ کو ہمراہ لے جانے کا نہ تھا، عین روانگی کے وقت آپ کے چہرے پر حزن وملال کے آثار دیکھے؛ اس لیے آپ کو اپنے ہمراہ لے لیا اور روانہ ہوئے جب شہر بُصریٰ کے قریب پہونچے تو وہاں ایک نصرانی (بقول بعض یہودی) راہب تھا جس کا نام جرجیس تھا اور بحیرا راہب کے نام سے مشہور تھا۔ بحیرا کی آپ سے ملاقات ہوئی، اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پر نور و چہرے پر علاماتِ نبوت دیکھیں اور آپ کو آنے والے نبی کی پیشین گوئی کا مصداق پایا تو حضرت ابو طالب کو تاکید کی کہ یہ لڑکا بڑا ہوکر عظیم الشان بنے گا، لہٰذا اسے شام کے یہودی دشمنوں سے بچایا جائے؛ چنانچہ حضرت ابو طالب نے فی الفور آپ کو مکہ واپس بھیج دیا ۔

کاروباری مشاغل

    جیسا کہ اوپر گذرا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا اصلی خاندانی پیشہ تجارت تھا اور آپ بچپن ہی میں ابوطالب کے ساتھ کئی بار تجارتی سفر فرماچکے تھے، جس سے آپ کو تجارتی لین دین کا کافی تجربہ بھی حاصل ہوچکا تھا؛ اس لیے آپ کو تجارت سے بڑی دلچسپی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیارے چچا ابوطالب کے کندھوں کو جو پہلے سے ہی کثیر العیال تھے مزید گراں بار کرنا نہیں چاہتے تھے؛ اس لیے آپ نے تجارت کو جاری رکھتے ہوئے ذریعہٴ معاش کے لیے اسی پیشہ کو اختیار فرمایا اور تجارت کی غرض سے شام و بصری اور یمن کا سفر فرمایا اور ایسی راست بازی اور امانت و دیانت کے ساتھ آپ نے تجارت کا کاروبار کیا کہ آپ کے شرکا اور تمام اہل بازار آپ کو امین کے لقب سے پکارنے لگے۔ ایک کامیاب تاجر کے لیے امانت، سچائی ، وعدے کی پابندی اور خوش اخلاقی تجارت کی جان ہیں، ان خصوصیات میں مکہ کے تاجر امین نے جو تاریخی شاہکار پیش کیا ہے، اس کی مثال تاریخِ عالم میں نادرِ روزگار ہے۔ آپ جلد ہی اپنے ان اوصاف کی وجہ سے مکہ کے کامیاب ترین تاجر ثابت ہوگئے اور پوری قوم میں آپ کا نام صادق اور امین مشہور ہوگیا، آپ کی راست بازی اور حسنِ کردار کا سکہ ہر فردِ بشر کے دل پر بیٹھ گیا اور مکہ کے بڑے بڑے تاجر اور مال دار یہ خواہش کرنے لگے کہ آپ ان کے سرمایہ اپنے ہاتھ میں لے کر ان کے کاروبار چمکائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دنوں تک سائب بن قیس مخزومی کے سرمایہ سے تجارت کرتے رہے؛ بل کہ انھوں نے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تاجرِ امین کے لقب سے نوازا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاروبار کا طریقہٴ کار

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ہر معاملہ سچائی اور امانت داری سے کرتے اور ہر معاملے میں سچا وعدہ کرتے اور جو وعدہ کرتے اس کو پورا ہی کرتے۔ آپ کے تجارتی ساتھی عبد اللہ بن ابی الحمساء بیان کرتے ہیں کہ میں نے بعثت سے پہلے ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک معاملہ کیا میرے ذمے کچھ دینا باقی تھا میں نے عرض کیا کہ میں ابھی لے کر آتا ہوں اتفاق سے گھر جانے کے بعد اپنا وعدہ بھول گیا، تین روز بعد یاد آیا کہ میں آپ سے واپسی کا وعدہ کرکے آیا تھا، یاد آتے ہی فورا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر پہونچا معلوم ہوا کہ دو روز گذرگئے، آج تیسرا دن ہے وہ مکان پر نہیں آئے، گھر والے خود پریشان ہیں، میں یہاں سے روانہ ہوا اور جہاں جہاں خیال تھا، سب جگہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کیا کہیں نہیں ملے تو احتیاطا وعدہ گاہ پر پہونچا میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب دیکھا کہ آپ اسی مقام پر موجود ہیں اور میرا انتظار کررہے ہیں اور زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ مسلسل تین دن انتظار کی زحمت اٹھانے کے بعد بھی جب میں نے معذرت کی تو آپ نہ ناراض ہوئے، نہ لڑائی جھگڑا کیا او رنہ ڈانٹ ڈپٹ کی صرف اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے اور وہ بھی دھیمی آواز میں ”یَا فَتٰی! لَقَدْ شَقَقْتَ عَلَيَّ أَنَا ھٰھُنَا مُنْذُ ثَلَاثٍ أَنْتَظِرُکَ“(سنن أبي داود رقم الحدیث: ۴۹۹۶)کہ ارے بھائی! تونے مجھے زحمت دی میں تین دن سے اسی جگہ تمہارا انتظار کررہاہوں۔(ماخوذ از سیرة المصطفیٰ ۱/۹۶، سیرة النبی ۱/۱۲۹)

تجارت کے کاروبار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا معاملہ ہمیشہ صاف رکھتے تھے۔ عبد اللہ بن سائب فرماتے ہیں کہ میں زمانہٴ جاہلیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شریکِ تجارت تھا، جب مدینہ منورہ حاضرہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو پہچانتے بھی ہو؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں! کُنْتُ شَرِیْکِيْ فَنِعْمَ الشَّرِیْکُ لاَتُدَارِيْ وَلاَ تُمَارِيْآپ تو میرے شریک تجارت تھے اور کیا ہی اچھے شریک نہ کسی بات کو ٹالتے تھے اور نہ کسی بات پر جھگڑتے تھے۔ (سیرة المصطفیٰ ۱/۹۶)

قیس بن سائب مخزومی فرماتے ہیں کہ زمانہٴ جاہلیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے شریک تجارت تھے ”وَکَانَ خَیْرَ شَرِیْکٍ لَایُمَارِيْ وَلَایُشَارِيْ“ آپ بہترین شریکِ تجارت تھے، نہ جھگڑتے تھے اور نہ کسی قسم کا مناقشہ کرتے تھے۔ (حوالہ بالا)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاروبار کے ایک ساتھی کا نام ابو بکر بھی تھا، وہ بھی مکہ ہی میں قریش کے ایک سوداگر تھے، وہ کبھی کبھی سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔(سیرة النبی ۱/۱۲۶)

عرب میں ہر سال جو مشہور تجارتی میلے منعقد ہوتے تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنا سامانِ تجارت ان میلوں میں لے جایا کرتے، آپ کی دیانت داری کی بنا پر آپ کا سامان میلے میں آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتا ۔ ایک دفعہ ایک میلے میں آپ بیس اونٹ لائے؛ مگر اسی وقت کسی کام سے باہر جانا پڑ گیا تو اپنے غلام کو تاکید کرگئے کہ ان اونٹوں میں سے ایک لنگڑا ہے، اس کی نصف قیمت وصول کی جائے ۔ فارغ ہوکر آپ واپس تشریف لائے تو اونٹ فروخت ہوچکے تھے ۔ غلام سے دریافت کیا تو اس نے معذرت کی کہ مجھے خریداروں کو لنگڑے اونٹ کی بابت بتانا یاد نہ رہا اور میں نے اس کی بھی پوری قیمت وصول کرلی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خریداروں کاپَتا دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ یمن کی طرف سے آئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے پر بڑا ملال تھا، فوراً غلام کو ساتھ لیا اور گھوڑے پر سوار ہوکر ان کی تلاش میں چل دیے ایک دن اور ایک رات کی مسافت طے کرنے کے بعد ان کو پالیا اور ان سے پوچھا کہ تم نے یہ اونٹ کہاں سے خریدے ہیں، وہ بولے کہ ہمارے مالک نے ہمیں یمن سے میلے میں محمد بن عبد اللہ کے تمام اونٹ خریدنے کے لیے بھیجا تھا اور تاکید کی تھی کہ اس کے سوا کسی اور سے کچھ سامان نہ خریدنا، ہم وہاں تین دن تک محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے مال کو تلاش کرتے رہے، آخر تین دن کے بعد ان کا مال منڈی میں آیا تو ہم نے اطلاع پاتے ہی خرید لیا، آپ نے فرمایا بھائیو ! ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ لنگڑا ہے، سوادا کرتے ہوئے میرا ملازم بتانا بھول گیا، اب وہ اونٹ مجھے دے دو اور اس کی قیمت واپس لے لو، یا پھر اس کی آدھی قیمت مجھ سے وصول کر لو۔ اتفاق سے ابھی تک انھیں اونٹ کے لنگڑے پن کا علم نہ ہوا تھا؛ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اونٹ دیکھتے ہی فورا پہچان لیا او روہ اونٹ ان سے لے کر اس کی قیمت واپس کردی۔ بعد میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانِ نبوت فرمایا تو انھوں نے کہا ہم تو پہلے ہی سوچتے تھے کہ ایسا شخص کوئی معمولی آدمی نہیں ہوسکتا، فوراً خدمتِ اقدس میں پہنچے اور شرفِ اسلام سے بہرہ مند ہوگئے۔ (محدث میگزین رسول مقبول نمبرص: ۱۸۸)

ان واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ نے بیرون تجارت میں بھی حصہ لیا اور آپ مکہ میں گھوم پھرکر بھی کاروبار کیا کرتے تھے۔

الغرض ابو طالب کے ساتھ آپ بچپن ہی میں بعض تجارتی سفر کرچکے تھے۔ ہر قسم کا تجربہ حاصل ہوچکا تھا اور آپ کے حسنِ معاملہ کی شہرت ہر طرف پھیل چکی تھی۔ نوخیز و نوجوان محمد صلی اللہ علیہ وسلم گلہ بانی سے آگے بڑھ کر میدانِ تجارت میں آئے تو آپ کے تعلقات وسیع ہوئے۔ لوگوں کو آپ کو آزمانے اور پرکھنے کا موقع ملا؛ مگر یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے آپ کو زیادہ قریب سے دیکھا وہی آپ کے سب سے زیادہ گرویدہ ہوئے اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ صرف دس بارہ سال کے عرصے میں آپ کی غیر معمولی امانت داری، راست بازی اور سچائی نے سب ہی مکہ والوں کو یہاں تک موہ لیا کہ وہ آپ کا نام لینا بے ادبی سمجھنے لگے، یہی مکہ کے بڑے بڑے تاجر اور سیٹھ جن کو اپنی دولت پرناز تھا، جن کو اپنے بین الاقوامی تعلقات پر فخر تھا کہ ان کے تجارتی قافلے شام، یمن اور فارس وغیرہ جاتے ہیں افریقہ کے بازاروں میں ان کا لین دین ہوتا ہے، ان ملکوں کے امیروں اور بادشاہوں سے ان کی راہ و رسم ہے، ان سے اپنی بات منواسکتے ہیں، یہی روٴسائے قریش جو اپنے سوا کسی کو نظر میں نہیں لاتے تھے، جو دوسروں کی گردنیں اپنے سامنے جھکوانا چاہتے تھے، جن کے مشاعروں کی جان ان کے وہ فخریہ قصیدے ہوا کرتے تھے، جن میں وہ اپنی عظمت اور بڑائی کے ترانے گاتے اور کوئی ان کا توڑ کرتا تو لڑ پڑتے تھے، یہاں تک کہ خوں ریز جنگ کی نوبت آجاتی تھی۔ دنیا جانتی ہے، تاریخ شاہد ہے کہ یتیمِ عبد اللہ کی غیر معمولی سچائی اور امانت داری نے ان سیٹھوں اور رئیسوں کو اس حد تک متاثر اور گرویدہ بنادیا تھا کہ وہ آپ کو ”الصادق یا الامین“ ہی کہتے تھے، نام لینا بے ادبی سمجھتے تھے، یہ دو لفظ یہاں تک زبانوں پر چڑھ گئے کہ انھوں نے قومی لقب کی حیثیت اختیار کرلی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شام کا دوسرا سفر؛ نیز حضرت خدیجہ سے نکاح

ان دنوں مکہ میں سب سے زیادہ مال دار ایک معزز خاتون سیدہ خدیجہ بنت خویلد تھیں، جو دو بار بیوہ ہوچکی تھیں، انھوں نے باپ سے کثیر جائداد پائی تھی اور اب تمام تر توجہ تجارت کی طرف مبذول کر رکھی تھی او راپنی تجارت کو باقی رکھنے کے لیے انھیں کسی ایسے امانت دار شخص کی ضرورت تھی جو کاروباری سلیقہ اور تجارتی تجربہ بھی رکھتا ہو۔ آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر اگرچہ تقریبا ۲۳سال تھی؛ مگر آپ کے اوصافِ حمیدہ کے چرچے شروع ہوگئے تھے، کاروباری سلیقے کی بھی شہرت ہو چکی تھی اور تجارتی قافلے کے ساتھ شام جاکر بیرونی تجارت کا بھی آپ کو تجربہ ہوچکاتھا تو انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کا سامانِ تجارت سرزمینِ شام کی طرف لے جائیں او رمعاملہ یہ طے ہوا کہ وہ آپ کو دوسرے لوگوں کی بہ نسبت دو گنا منافع دیں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب سے مشورہ کرنے کے بعد یہ پیش کش قبول فرمالی او ر۲۳ یا ۲۴ برس کی عمر میں دوسری بار شام کی طرف روانہ ہوئے، واپسی پر آپ نے ایسا مال تلاش کیا جس کا مکہ میں فوراً نکاس ہوجائے، آپ نے شام سے یہ مال لاکر مکہ معظمہ میں فروخت کیا تو کافی نفع ہوا۔ حضرت خدیجہ نے شام جاتے وقت جب مال سپرد کیا تو اپنے بھروسے مند غلام میسرہ کو بھی ساتھ کردیا۔ بہانہ یہ تھا کہ وہ خدمت کرتے رہیں گے اور مقصد یہ تھا کہ مال کی نگرانی بھی رکھیں او رحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات واخلاق کا بھی گہرائی سے مطالعہ کرتے رہیں۔ سفر شام سے واپسی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کا نفع حضرت خدیجہ کے سپرد کیا اور میسرہ نے نہ صرف امانت داری؛ بل کہ آپ کے عام اخلاق کی بھی ایسی تعریف کی کہ خدیجہ جو اپنی زندگی کا یہ آخری دور کسی راست باز کے حوالے کرنا چاہتی تھیں دامانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کو گوہرِ مراد نظر آنے لگا؛ چنانچہ سفرِ شام سے واپسی کے دو ماہ پچیس روز بعد حضرت خدیجہ نے آپ کو نکاح کا پیام دیا، آپ نے اپنے چچا کے مشورے سے اس کو قبول فرمایا اورپچیس برس کی عمر میں اپنے سے پندرہ برس بڑی اور دو بار بیوہ ہوچکی خاتون کے ساتھ نکاح کیا۔

نکاح کے بعد حضرت خدیجہ نے اپنا مال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر نچھاور کردیا؛ مگر آپ نے ان کا سارا مال غریبوں، بیواوٴں اور یتیموں کی امداد پر صرف کردیا او راپنی معاش تجارت کو باقی رکھا اسی سے اپنے کنبے کی گزر بسر کرتے۔

تجارت کی خاطر آپ نے بصری اور مدینہ کی جانب کئی تجارتی سفر کیے او رانھیں سفروں کے درمیان آپ نے قریش کی تجارتی شاہراہوں کے ہر پیچ و خم سے آگاہ ہوگئے، خصوصا مدینہ کی سیاسی او رجغرافیائی حیثیت اچھی طرح سمجھ لی۔

 چند ارشادات نبوی او رنقل کردینا مناسب سمجھتا ہوں جن سے تجارت او رتجارت پیشہ لوگوں کی عظمت واضح ہو ؛ نیز تجارت میں امت کے لیے آپ کا مقرر کردہ اصول بھی سامنے آسکے:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بار سوال کیا گیا کہ کون سی کمائی پاکیزہ ترین ہے؟ فرمایا: اپنے ہاتھوں سے کام کرنا او رہر حلال وجائز خرید وفروخت۔(السنن الکبری للبیہقی ۵/۲۶۳)

تجارت میں حسنِ معاملہ، صداقت ودیانت او رراست بازی کی ہردم تاکید ی نصیحت فرماتے رہے، فرمایا: قیامت کے روز تاجر فجار کی حیثیت سے اٹھائے جائیں گے بجز اس تاجر کے جو اپنے معاملات میں خداترس رہا ہو، لوگوں سے حسنِ سلوک کیا ہو اور ہرمعاملے میں سچائی کا دامت تھامے رکھاہو۔ (ترمذی شریف حدیث: ۱۲۱۰)

اسی طرح فرمایا: امانت دار اور راست باز تاجر قیامت کے دن صدیقوں او رشہیدوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ (ترمذی شریف حدیث: ۱۲۰۹)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع میں زیادہ قسمیں کھانے سے منع فرمایا : بیع میں زیادہ قسمیں کھانے سے احتیاط برتو؛ کیونکہ اس طرح مال تو بک جاتا ہے؛ مگر برکت جاتی رہتی ہے۔ (مسلم شریف حدیث: ۴۱۲۳)

آخری بات یہ ہے کہ بیع کرنے والوں کا سب سے پہلے آپ نے ”تاجر“ نام رکھا پہلے انھیں ”سماسِر“ کہا جاتا تھا اور اس نئے نام کو تمام لوگوں نے بہت پسند کیا۔

$ $ $

 

-------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ4، جلد:100 ‏، جمادی الاخری1437 ہجری مطابق اپریل 2016ء