ایمان، اعمال اوراخلاق

 

از: محمد ضمیر رشیدی     

وارث پورہ، کامٹی، ضلع ناگپور

 

انڈادو چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے، ایک باہری سفید خول اور دوسرا اندرونی مادّہ گیروی۔ انڈے کو جب مرغی کے پَروں کے نیچے بیس یا اکیس دنوں کے لیے چھوڑدیا جاتا ہے تو اُس کے اندرون میں ایک چوزہ بن جاتا ہے۔ انڈے کے اندرون میں یہ صفت ہے کہ وہ ایک جاندار چوزہ میں مبدّل ہوجائے جبکہ اُس کے خول میں یہ صفت نہیں ہے؛ چونکہ اندرونی بے جان سیّال مادّہ نشوونما پاکر ایک جاندار چُوزہ میں تبدیل ہوجاتا ہے اور بے جان خول اندر بنے ہوئے جاندار چُوزے کی راہ میں رکاوٹ اور آڑ بنتا ہے، لہٰذا جان دار چُوزہ اُس بے جان خول کو توڑ کر باہر آجاتا ہے؛ تاہم اگر کسی انڈے کو سینے میں کچھ کسر باقی رہ جائے تو وہ گندا ہوجاتا ہے اور چونکہ وہ آس پاس کے دوسرے انڈوں کی خرابی کا باعث بن سکتا ہے ، لہٰذا ایسے گندے انڈے کو کوڑا دان میں پھینک دیا جاتا ہے؛ مگر انسانوں کا معاملہ مختلف ہے۔ مالکِ کائنات نے ہر انسان کے اندر کا میاب ہونے کی صلاحیّت و استعدادرکھی ہے۔ ایک حدیث میں انسانوں کو سونے چاندی کے کانوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔

”لوگ کانوں کی طرح ہیں، جس طرح سونے چاندی کی کانیں ہوتی ہیں۔“(مسند احمد ۲/۵۳۹)

مزید یہ کہ قرآن مجید میں صاف اعلان کردیا گیا ہے کہ انسان کو وہ ضرور مل جائے گا جس کے لیے وہ کوشش کرے۔

”اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے؛ مگروہ جس کی اُس نے سعی کی ہے۔“ (سورة البخم:۳۹)

اس کے ساتھ ہی انسانوں کی کامیابی وترقی کے لیے ظاہر وباطن میں ہدا یت کا زبر دست انتظام کیا گیاہے۔ظاہری و بیرونی انتظام میں آسمانی کتاب ”قرآن مجید “کی ہدایت ،نبی رحمت ”حضرت محمد “ کی سیرت ، ہر دور میں صدیقین ، شہداء و صالحین کی صحبت وغیرہ شامل ہیں؛ جبکہ اندرونی و باطنی انتظام میں انسان کو دینِ فطرت پر پیدا کیا جانا، نیکی و بدی کی تمیز اُس کی سرشت میں رکھنا، حق کی طلب کافطری طور پر متلاشی ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ رب تعالیٰ کا کس قدر منصفانہ اور کریمانہ معاملہ ہے کہ اُس نے دین کے نام پر بندوں سے کسی مشکل چیز کا مطالبہ نہیں کیا؛ بلکہ جس فطرت یعنی ”فطرت اللہ“ پر اُن کو پیدا کیا ہے، اُسی دین فطرت ، دینِ حنیف اور دینِ قیّم کی طرف اپنا رخ سیدھا رکھتے ہوئے اپنی زندگی کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ کے مطابق تعمیر وتشکیل کرنے کا حکم بھی دے دیا۔

”اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔“ (سورة الحج : ۷۸)۔

”پس تم یکسو ہوکر اپنا رخ اس دینِ حنیف کی طرف رکھو، اللہ کی فطرت جس پر اس نے لوگوں کو بنایا ہے۔“ (سورة الروم :۳۰)

”پس اپنا رخ دینِ قیّم کی طرف سیدھارکھو۔“ (سور ة الروم:۴۳)

”یقینا تمہارے لیے ہے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ۔“ (سورةاحزاب : ۲۱)

آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں انذارو تبشیر کے ذریعہ اپنے دعوتی مہم کا آغاز کیا۔ قوم کو فرداً فرداً اور اجتماعی طور پر دعوت پیش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عرب ایسے ہی مردہ تھے، جیسے کوئی بے جان انڈا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زبردست محنت اور تربیت نے مردوں کو زندہ کردیا اور جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے اعراض کیا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار صجابہ کی راہ میں رکاوٹ اور آڑ بنتے رہے ، اللہ تعالیٰ نے ۸ھ میں انھیں فیصلہ کُن شکست سے دوچار کیا۔ یوں مکہ میں کفروشرک کا عظیم قلعہ اس طرح ٹوٹ کرپارہ پارہ ہوگیا، جیسے انڈے کا چھلکا ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے، جبکہ وہ اندر بنے ہوئے چوزہ کی راہ میں رکاوٹ اور آڑ بنتا ہے۔

اہلِ ایمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علماء حق، حکماء امّت، صلحاء و اکابرین اور بزرگانِ دین کی رہبری ، قیادت، امامت و صحبت میں اپنی زندگی کو اللہ کے مطلوب ایمان ، اعمال اور صفات سے مُزین کرتے ہوئے انھیں مرتبہٴ کمال تک پہنچائیں کہ یہی اُن کا اصل نشانہ ہے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو نصرتِ ایزدی کے مستحق قرار پائیں گے؛ کیونکہ اسی گروہ ”حزب اللہ“ کے لیے غلبہ اور فلاح موعود ہے، اگر چہ وہ عددی اقلیت میں ہوں۔

”اللہ کا گروہ ہی غالب رہنے والا ہے۔“ (سورة المائدہ:۵۶)

”اللہ کا گروہ ہی فلاح پانے والا ہے۔ “ (سورة الحشر:۲۲)

”بارہاایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔“ (سورة البقرة:۲۴۹)

$ $ $

 

--------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ4، جلد:100 ‏، جمادی الاخری1437 ہجری مطابق اپریل 2016ء