”مشکاة شریف“ کے شارحِ اوّل

علامہ طیبی اور ان کی شرح کا تعارف

(۱/۲)

 

از: مفتی عبدالغنی                                

استاذ ورفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف، جامعہ فاروقیہ کراچی

 

روز اول سے اسلام کی حفاظت کے لیے تائید ایزدی سے جو صورتیں پیدا ہوتی رہیں اور ابنائے اسلام نے اس دینِ متین کی جس طرح خدمت وحفاظت کی ہے؛ تاریخِ انسانی میں کسی اور دین ومذہب کی اس طرح خدمت وحفاظت نہیں کی گئی، اس” شجرہٴ طیبہ“ کی آب یاری اور اس کے برگ وبار کے تحفظ کی سعادت دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والی مختلف مقدس ہستیوں کو حاصل ہوئی، ان میں سے ایک مبارک ہستی قرآن وسنت کے شارح اور مختلف علوم وفنون میں دست رس رکھنے والے آٹھویں صدی ہجری کے معروف عالم وفاضل امام شرف الدین طیبی کی بھی ہے، جنہیں حدیث شریف کی مقبول ومستند اور معتبر ومتداول کتاب” مشکاة شریف “کی سب سے پہلی شرح لکھنے کا ہی صرف شرف حاصل نہیں، بلکہ مشکاة شریف کی ترتیب وتالیف بھی آپ کے مشورے سے وجود میں آئی ہے۔ صاحبِ مشکاة موصوف کے شاگرد ہیں۔ ذیل میں ان کے احوال زندگی، مقام و مرتبہ اور ”الکاشف عن حقائق السنن“ (شرح طیبی) کے نام سے” مشکاة شریف “کی مشہور ومعروف شرح کا قدرے تفصیلی اور دیگر علمی کارناموں کا اجمالی تذکرہ کیا جاتا ہے۔

علامہ طیبی کا نام ونسب

علامہ طیبی کا لقب” شرف الدین“، کنیت” ابو عبد اللہ“، نام” حسین“، والد کا نام” عبداللہ“، دادا کا نام” محمد“ اور” طیبی“ نسبت ہے، اس طرح آپ کا پورا نام شرف الدین ، ابو عبد اللہ، حسین بن عبداللہ بن محمد طیبی ہے۔ اکثر اصحابِ تراجم نے آپ کا نام” حسین بن محمد بن عبد اللہ“ اور بعض نے آپ کا نام” حسن “نقل کیا ہے، لیکن صحیح یہی ہے کہ آپ کا نام” حسین بن عبداللہ بن محمد“ ہے اورآپ کایہی نام ” شرح طیبی“ کے مقدمے ،”حاشیہ علی الکشاف “کے دیباچے ، آپ کے شاگرد صاحب مشکاة علامہ تبریزی نے ”الاکمال فی اسماء الرجال“ کے آخر میں اور آپ کے ایک اور شاگرد علی بن عیسی نے آپ کی کتاب” التبیان“ کی شرح ”حدائق البیان“ میں ذکر کیا ہے۔ ”ابوعبداللہ“ کے علاوہ آپ کی کنیت” ابو محمد“ بھی نقل کی گئی ہے۔

”طیبی “نسبت کی وجہ اور مقام” طیب“ کا مختصر تعارف

”طیبی“، ”طاء “ کے کسرہ کے ساتھ مقام ” طیب “ کی طرف نسبت ہے، جو” واسط اور سوس“، یا” واسط اور کور الاہواز“ کے درمیان خوزستان کے علاقے میں واقع ایک قصبہ ہے اور یہ علاقہ ایران کا حصہ ہے۔ علامہ حمیری نے کہا ہے کہ یہ کوئی بڑا شہر نہیں ہے؛لیکن مختلف برکات پر مشتمل ہے اوراس میں کئی قسم کی ایسی صنعتیں پائی جاتی ہیں جن کا کوئی مقابل نہیں اور اس کے باشندے معاملہ فہم وسمجھدار ہیں۔ (دیکھیے، الروض المعطار للحمیری: ۱/۴۰۱، الانساب للسمعانی:۴/۹۵)، علامہ یاقوت حموی نے” معجم البلدان“ (۴/۵۳) میں لکھا ہے کہ اس کے باشندے اب تک” نبطی“ ہیں اور نبطی زبان بولتے ہیں، اس شہر کو حضرت شیث بن آدم علیہ السلام نے آباد کیا تھااور اس کے باشندے ملتِ شیث پر تھے یہاں تک کہ اسلام آیا تو وہ مسلمان ہو گئے۔ اس شہر کے عجائبات میں سے یہ ہے کہ اس میں سانپ ، بچھو ، غراب ابقع (چتکبرا کوا) اور عقعق (کالا کوا) داخل نہیں ہو سکتا اور بھڑ داخل ہو تو مر جاتی ہے۔ علامہ طیبی کے علاوہ علماء کی ایک جماعت بھی اس شہر کی طرف منسوب ہے، جن میں ابو بکر احمد بن اسحاق بن نیخاب طیبی ، بکر بن محمد بن جعفر طیبی، ابو عبداللہ ہلال بن عبداللہ طیبی، ابو عبد اللہ حسین بن ضحاک بن محمد انماطی بغدادی المعروف ابن الطیبی اور جامع بن عمران بن ابی الزعفران طیبی وغیرہ شامل ہیں۔ (دیکھیے، معجم البلدان: ۴/۵۳، الانساب للسمعانی: ۴/۹۵ )

علامہ طیبی کے اوصاف جمیلہ

علامہ طیبی علم و عمل اور زہد و تقوی کے پہاڑ تھے اور آسمان علم کی بلندیوں کو چھونے کے ساتھ ساتھ عمل میں بھی آپ کا پایہ بہت بلند تھا،آپ دینی امور میں بہت متصلب تھے، خود بھی دین پر عامل تھے اور علماء ، طلبہ اور دین پر عمل کرنے والوں سے محبت کرتے تھے، مالدار ہونے کے باوجود مال کی محبت سے دور تھے اور اپنا مال امورِ خیر میں خرچ کر دیا کرتے تھے، اس دور میں اگرچہ ان علاقوں پر تاتاریوں کا تسلط تھااور ان کے معاون ومددگار رافضی اور بد دین لوگ ہوا کرتے تھے؛ لیکن اس کے باوجوداہلِ بدعت اورفلاسفہ کے رد میں آپ سخت گیر تھے۔ حافظ ابن حجر ”الدررالکامنہ “ میں آپ کے اوصاف حمیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

”وہ میراث اور تجارت کی وجہ سے مالدار تھے اور مسلسل امور خیر میں خرچ کرتے رہے ؛ یہاں تک کہ آخر عمر میں فقیر ہو گئے، ․․․․وہ متواضع ،اچھا عقیدہ رکھنے والے، فلاسفہ اور مبتدعہ کے اس وقت مسلمانوں کے شہروں میں غلبے کے باوجود ان پر شدید رد کرنے والے اور ان کی قباحتوں کو ظاہر کرنے والے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت کرنے والے، بہت زیادہ حیا والے، آخر عمر میں نظر کمزور ہونے کے باوجود دن ، رات اور سردی ، گرمی میں نماز باجماعت کا التزام کرنے والے، بغیر کسی طمع لالچ کے طلبہ کو علومِ اسلامیہ میں مشغول کرنے کا التزام کرنے والے تھے؛ بلکہ ان کو حدیث بیان کیا کرتے اور فتوی دیا کرتے تھے، وہ اپنے شہر اور دوسرے شہروں کے لوگوں کو، چاہے ان کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، قیمتی کتابیں عاریتاً دے دیا کرتے تھے، جس آدمی کو شریعت کی تعظیم کرنے والا جانتے، اس سے محبت کرتے، علم کی نشر و اشاعت کی طرف متوجہ رہتے، قرآن وسنت کے دقائق کو نکالنے میں اللہ کی نشانی تھے، تفسیر کشاف کی ایک بڑی شرح لکھی او رمذہب اہل سنت کے مخالف امور کا اچھا جواب دیا، جو آدمی اس کا مطالعہ کرے گا وہ ان کے علم و فضل کو بخوبی جان لے گا۔ “(الدرر الکامنہ: ۲/۶۸،۶۹)

علامہ طیبی کا یہی تعارف وترجمہ معمولی رد وبدل کے ساتھ اکثر اصحابِ تراجم نے حافظ ابن حجر کے حوالے سے نقل کیا ہے اور ان کے تعارف کے لیے مزید درج ذیل کتابوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ (شذرات الذہب: ۶/۱۳۷، ۱۳۸، مفتاح السعادة: ۲/۹۰، ۹۱، بغیة الوعاة:۱/۵۲۲، ۵۲۳،معجم الموٴلفین: ۴/۵۳، الاعلام للزرکلی: ۲/۲۵۶، کشف الظنون: ۲/۳۴۱، ۷۲۰، ۱۴۷۸، ۱۷۰۰)         

امام طیبی اہلِ علم کی نظر میں

امام طیبی کی شان ومنقبت کا اندازہ اہلِ علم حضرات کے مندرجہ ذیل اقوال سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:

جیسا کہ ابھی گزرا ہے کہ حافظ ابن حجر نے ”الدرر الکامنہ“ (:۲/۶۹) میں آپ کی شان میں فرمایا ہے : ”أنہ کان آیة في استخراج الدقائق من القرآن والسنن“، یعنی”آپ قرآن و سنت سے دقائق نکالنے میں اللہ تعالی کی طرف سے نشانی تھے۔“

حافظ سیوطی نے ”بغیة الوعاة“ (۱/۵۲۲) میں فرمایا ہے کہ ”الإمام المشھور، العلامة في المعقول، والعربیة، والمعاني، والبیان، یعنی:”آپ مشہور امام اور معقولات و عربیت اور علمِ معانی و بیان میں بڑے پائے کے عالم تھے۔“

علامہ شعرانی نے” لطائف المنن و الاخلاق“ (۱/۴۱) میں فرمایا ہے : ”کان محدثاً، صوفیاً، نحویاً، فقیھاً، أصولیاً، قلّ أن تجتمع ھذہ الصفات في العالم، یعنی ”آپ محدث، صوفی، نحوی، فقیہ اور اصولی عالم تھے، کسی ایک عالم میں یہ تمام صفات بہت کم جمع ہوتی ہیں۔“

 علامہ سبکی نے ”طبقاتِ شافعیہ “ (۱۰/۷۶) میں امام طیبی کے استاد امام فخر الدین احمد بن حسین بن یوسف جاربردی کے بیٹے ابراہیم جاربردی سے اپنے والد کے تذکرے میں نقل کیا ہے کہ:

”وأما الذین اجتمعوا عند والدي، واشتغلوا علیہ ، وتمثلوا بین یدیہ، فھم العلماء الأبرار، والصلحاء الأخیار، بذلوا لہ الأنفس والأموال، منھم الإمام الھمام الشیخ شرف الدین الطیبي، شارح الکشاف، والتبیان، وھو کالشمس لا یخفی بکل مکان

یعنی ”جو لوگ میرے والد کے پاس آ کر جمع ہوئے،ان سے پڑھا اور ان کے سامنے اطاعت گزا ر ہوئے وہ نیکوکار علماء اور اخیار صلحاء تھے، انھوں نے اس کے لیے جان و مال کو خرچ کیا، ان میں سے بہت بڑے امام شیخ شرف الدین طیبی،جوکشاف اور تبیان کے شارح ہیں اور وہ ایسے آفتاب کی طرح ہیں جو کسی جگہ مخفی نہیں رہ سکتا۔“

استاد عمر رضا کحالہ نے ”معجم الموٴلفین“ (۴/۵۳) میں آپ کے متعلق فرمایا ہے کہ ”عالم مشارک فيأنواع من العلوم․“، یعنی ”آپ مختلف علوم و فنون کے ماہر عالم تھے۔“

علامہ طیبی صاحبِ” مشکوة “کے استاد تھے

علامہ طیبی صاحبِ مشکاة علامہ ولی الدین تبریزی کے استاذ ہیں اور حافظ ابن حجر کے بقول انھوں نے ایک خاص نہج مقرر کر کے” مصابیح السنہ “کی ترتیب وتہذیب کے لیے اپنے ایک شاگرد کو حکم دیااور اس کا نام” مشکاة“ رکھا، پھر خود اس کی ایک ضخیم شرح تصنیف فرمائی۔ (الدررالکامنہ : ۲/۶۹) علامہ تبریزی نے ”مشکاةشریف “کے تراجم کے سلسلے میں لکھی گئی اپنی تصنیف ”الاکمال فی اسماء الرجال“ کے آخر میں علامہ طیبی کا جس والہانہ انداز سے تذکرہ کیا ہے، اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ علامہ طیبی ان کے شیخ واستاذ ہیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

”میں اس کی تصنیف یعنی اس کو جمع کرنے، سنوارنے اور عمدہ بنانے سے بروز جمعہ ۲۰/رجب سنہ ۷۴۰ ہجری میں فارغ ہوا، میں سب سے زیادہ کمزور بندہ، اللہ تعالی کی معافی اور مغفرت کا امیدوارمحمد بن عبید اللہ خطیب بن محمد اپنے شیخ اور مولی، مفسرین کے بادشاہ، محققین کے امام، دین و ملت کی عزت وسر بلندی، مسلمانوں پر اللہ کی حجت، حسین بن عبداللہ بن محمد طیبی (اللہ تعالی مسلمانوں کو ان کی لمبی زندگی کے ساتھ نفع پہنچائے) کی معاونت کے ساتھ، پھر میں نے اس(الاکمال فی اسماء الرجال) کو ان پر پیش کیا، جیسا کہ میں نے ”مشکاة“ کو پیش کیا تھا تو انھوں اس کو پسند کیا جیساکہ” مشکاة“ کو پسند کیا اور عمدہ سمجھا، سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے، درود و سلام ہر لمحہ و ہرلحظہ نازل ہو حضرت محمد، آپ کی پاکیزہ و طاہر اولاد اور آپ کے تمام صحابہ پر “۔ (شرح الطیبي، الإکمال في أسماء الرجال: ۱۲/۳۸۳، إدارة القرآن، کراتشي)

علامہ طیبی کی وفات

علامہ طیبی کا یہ معمول تھا کہ روزانہ نماز فجر سے نماز ظہر تک درس تفسیر دیا کرتے تھے اور پھر ظہر سے عصر تک بخاری شریف کا درس حدیث دیا کرتے تھے؛ چنانچہ جس دن آپ کی وفات ہوئی تو آپ تفسیر سے فارغ ہو کر مجلسِ حدیث کی طرف متوجہ ہوئے تھے اور اپنے گھر کے پاس مسجد میں داخل ہوئے اور قبلہ رو ہو کر جماعت کے انتظار میں تشریف فرما تھے کہ آپ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ یہ پیر، ۱۳ شعبان ،سنہ۷۴۳ہجری کا دن تھا۔ (دیکھیے، البدرالطالع: ۱/۲۲۹، تذکرة المفسرین، ص: ۲۲۵)

”قاہرہ“ میں علامہ طیبی کی طرف منسوب ایک مسجد اور مقبرہ

اصحابِ تراجم نے علامہ طیبی کے مقامِ وفات کا تذکرہ نہیں کیا کہ ان کی وفات کہاں ہوئی ہے اور وہ کہاں مدفون ہیں۔ عبد الستار حسین زموط نے کہا ہے کہ ”قاہرہ“ میں ایک مسجد کے اندر قبر ہے جسے ”مسجد شیخ محمد طیبی“ کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد شارع السد البرانی پر واقع ہے اور یہ شارع مسجد سیدہ زینب کی غربی جانب میں ہے۔ جس علاقے میں یہ مسجد واقع ہے اسے” میدانِ طیبی“ کہا جاتا ہے۔ میں نے اس کی زیارت کی تو میری حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب میں نے حافظ ابن حجر کی ”الدرر الکامنہ“ سے نقل کردہ علامہ طیبی کا ترجمہ قبر پر معلق پایا، میرے خیا ل میں یہ ناقل کی غلطی ہے۔ کیونکہ امام طیبی مصر میں نہیں آئے اور کسی موٴرخ نے ان کا” مصر “ میں آنا ذکر نہیں کیا، صرف نام کی مشابہت کی وجہ سے کسی نے بغیر تحقیق کے یہ ترجمہ نقل کر کے قبر پر لٹکا دیا ہے۔ (کتاب التبیان فی البیان، مقدمة المحقق،ص:۱۰، غیر مطبوع)

”شرح طیبی“ کا تعارف

یہ علامہ طیبی کی تصنیفات میں سے مقبول ترین تصنیف ہے۔ اس کا اصل نام ”الکاشف عن حقائق السنن“ ہے اور یہ” شرح طیبی“ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ ”مشکاة شریف“ کی سب سے پہلی اور سب سے زیادہ مقبول و معتمد شرح ہے اور بعد میں آنے والے تمام شارحینِ حدیث نے اس سے استفادہ کیا ہے۔ ”مشکاة المصابیح“ حدیث شریف کی مشہور ومعروف، مستند ومقبول کتاب ہے جو ایک طویل عرصے سے مدارس وجامعات کے نصاب میں شامل ہے اور صحاح ستہ اور حدیث شریف کی دیگر تمام کتابوں کے لیے بطور مقدمہ کے پڑھائی جاتی ہے۔ یہ در اصل علامہ ابو محمد حسین بن مسعود بغوی کی مایہ ناز تالیف ”مصابیح السنہ“ کی تکمیل ہے جو”مصابیح “کی ترتیب وتہذیب پر مشتمل ہے اور اس میں جن امور کی ”مصابیح السنہ“ میں کمی محسوس کی جاتی تھی اور ان امور کی وجہ سے بسا اوقات ”مصابیح“ پر اعتراضات بھی ہوا کرتے تھے، اس کمی کو دور کرنے اور” مصابیح السنہ“ کی ترتیب میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لیے مرتب کی گئی ہے، مثلاً ”مصابیح السنہ “ میں راویوں (صحابہ وتابعین) کے نام اور حدیث کا ماخذ بیان نہیں کیا گیا تھا تو” مشکاة المصابیح “ میں راویوں کا نام اور حدیث کا ماخذ و مصدر بیان کر دیا گیا، ہر باب کو عموماً تین فصلوں میں تقسیم کر دیا گیا اور تیسری فصل میں اس باب سے متعلق وہ حدیثیں ذکر کی گئیں جو علامہ بغوی نے ذکر نہیں کی تھیں، نیز علامہ بغوی کے سہو کی بھی تلافی کر دی گئی۔ ”مشکاة المصابیح “ کے نام سے” مصابیح السنہ “ کی ترتیب وتہذیب کا یہ عظیم کارنامہ علامہ تبریزی نے اپنے عظیم المرتبت استاذ علامہ شرف الدین طیبی کے مشورے سے کیا۔ چنانچہ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ میں جب تفسیر کے کام سے فارغ ہوا تو میرے دل میں یہ خیال آیا کہ احادیث کے معانی و مطالب بیان کر کے دین کی خدمت کا اس جیسا کوئی اور کام کروں، اس سے پہلے میں علامہ تبریزی سے احادیث کے ایک مجموعے کو مرتب کرنے پر مشورہ کر چکا تھا اور ہماری رائے ”مصابیح السنہ “ کی ترتیب و تہذیب پر متفق ہوئی، میں نے اس کو جس کام کا مشورہ دیا اس کی جمع وترتیب میں انھوں نے کوئی دقیقہ فروگزاشت ہونے نہیں دیا، جب یہ مجموعہ تیار ہو گیاتو میں نے احادیث کے معانی ومطالب اور لطائف ونکات کو بیان کرنے کے لیے اس کی شرح لکھی۔ چنانچہ شرح کے مقدمے وہ لکھتے ہیں:

”جب اللہ تعالی کی توفیق اور حسن عنایت میرے شامل حال ہوئی کہ اس نے مجھے ”الکشف عن قناع الکشف“ میں مشغولیت کی سعادت سے بر کت و سعادت حاصل کرنے کی توفیق دی، میں اس کے ذریعے کلام اللہ کے دقائق کی تحقیق تک پہنچا، اور اللہ تعالی ہی نے اس کے اتمام کو آسان بنایا، تو مجھے اس بات سے دلچسپی ہوئی کہ میں رسولوں کے سردار، خاتم الأنبیا، متقیوں کے امام، غر محجلین کے قائد اور رب العالمین کے حبیب کی احادیث کی شرح اور معانی ومطالب لکھ کر تفسیر کے اس کام کے ساتھ اس جیسی ایک اور چیز ملاؤں۔ اس سے پہلے میں دینی بھائی، ایمان و یقین میں مساہم و شریک، بقیة الاولیا، قطب الصلحا، زاہدوں و عابدوں کی عزت و سر بلندی ولی الدین محمد بن عبداللہ خطیب (اس کی برکات ہمیشہ ہوں ) سے احادیث نبویہ کی ایک اصل کو جمع کرنے پر مشورہ کرچکا تھا تو ہماری رائے ”مصابیح السنہ “ کے تکملہ ، اس کو سنوارنے و عمدہ بنانے ،اس کے راویوں کی تعیین کرنے اور ائمہ متقین کی طرف احادیث کو منسوب کرنے پر متفق ہوئی؛چنانچہ میں نے اس کے جمع کرنے کی طرف اس کو جو اشارہ کیااس نے اس میں کوتاہی نہیں کی ، اپنی وسعت کو صرف کیا ، اور میں نے اس سے جو چاہا اس نے اپنی پوری طاقت ا س میں خرچ کر دی۔جب وہ اس کے اتمام سے فارغ ہوا تو میں نے اس کے دشوار کی شرح کرنے ، اس کے مشکل کو حل کرنے ، اس کے مغلق و پیچیدہ کی وضاحت کرنے اور اس کے نکات و لطائف کو ظاہر کرنے میں پوری کوشش صرف کی ، جیسا کہ علم نحوو لغت کے غرائب اور علم معانی و بیان اس کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان کتابوں کی تلاش و جستجوکے بعد جو ائمہ کی طرف منسوب ہیں ، اللہ تعالی ان سے راضی ہو اور ان کی مساعی کو قبول فرمائے ۔(الکاشف عن حقائق السنن، مقدمة الموٴلف: ۱/۳۴، إدارةالقرآن)

”شرح طیبی“ کا اسلوب

”شرح طیبی“ میں یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے کہ ہر باب کی ہر فصل میں الحدیث الاول، الحدیث الثانی، الحدیث الثالث․․․․ کا عنوان قائم کر کے راوی کا نام ذکر کیا جاتا ہے اور پھر لفظ قولہ:”․․․․“ کہہ کر وہ کلمہ یا جملہ جس کی شرح کرنی ہو ذکر کر کے تشریح کی جاتی ہے، کبھی الحدیث الاول الی الحدیث الثالث، یا الی الرابع وغیرہ کا عنوان قائم کر کے کئی ا حادیث کی ایک ساتھ تشریح بھی بیان کر دی جاتی ہے، اس صورت میں کبھی پہلی حدیث اور کبھی آخری حدیث کے راوی کا نام ذکر کر دیا جاتا ہے۔شرح میں حدیث سے متعلق لغوی ، نحوی، بلاغی، فقہی اور کلامی مسائل کو بیان کیا جاتا ہے۔ علامہ طیبی اکثر احادیث کی تشریح میں پہلے حدیث کے غریب الفاظ کی شرح، پھر اس سے متعلق فقہی احکام ،اس کے بعد بلاغی امور کی وضاحت اور آخر میں حدیث سے متعلق فوائدذکر کرتے ہیں؛ لیکن یہ ان کی مستقل ترتیب نہیں ہے؛ بلکہ بسا اوقات نحوی، لغوی، فقہی اور بلاغی امور کو غیر مرتب طور پر بھی ذکر کر دیتے ہیں۔ شرح میں دیگرشارحینِ حدیث کی کتابوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے اور ان کی عبارتیں کثرت سے نقل کی گئی ہیں، لہٰذا طوالت سے بچنے کے لیے ہر کتاب کا ایک رمز مقرر کر دیاگیا ہے اور کتاب یا شارح کی طرف اس عبارت کی نسبت کرنے کے لیے اس کے مقررہ رمز کو ذکر کر دیا جاتا ہے، جن کی تفصیل آگے مستقل عنوان کے تحت آ رہی ہے۔اگر کوئی روایت متعدد راویوں اور طرق سے مروی ہے تو ”شرح طیبی“میں ہر طریق کو مستقل حدیث شمار نہیں کیا گیا،جیسا کہ متن میں وہ الگ حدیث شمار کی جاتی ہے؛ اس لیے بعض اوقات شرح اور متن کے رقم الحدیث میں مطابقت نہیں ہوتی۔ شرح میں نحو ولغت اور علم معانی و بیان کی روشنی میں حدیث کے مشکل الفاظ کا حل اور اس کی بلاغی خصوصیات ونکات کو خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے اور پھر خصوصا بلاغی خصوصیات کے بیان کرنے کے حوالے سے یہ شرح نما یاں مقام رکھتی ہے۔نیز ضبط الفاظ اور وجوہ عربیت کے بیان کے سلسلے میں اگرپہلے کسی سے غلطی وتسامح ہوا ہے تو اس کی بھی اصلاح کی گئی ہے۔ علامہ طیبی نے” شرح “میں محدثین کے نہج واسلوب کو اختیار کیا ہے ، جس میں احکام کے اصول وفروع کا بیان، آداب،، الفاظ کے لغوی معانی کی وضاحت، اسماء الرجال، مشکل الفاظ کا ضبط،لطائف ونکات کا استخراج اور ظاہراً متعارض روایات میں تطبیق شامل ہوتی ہے؛ اس لیے انھوں نے کتاب کی ابتداء میں اصول حدیث کے بیان میں ایک مقدمہ شامل کیا ہے؛ چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں:

”وإذاکنا التزمنا أن یکون شرحنا ھذا علی نھج أھل ھذہ الصناعة، أوجب ذالک علینا أن نصدر الکتاب بمختصر جامع لمعرفة علم الحدیث، ملخصاً من کتاب ابن الصلاح وغیرہ، مرتباً علی مقدمة، ومقاصد، وخاتمة

یعنی ”جب ہم نے یہ التزام کیاہے کہ ہماری یہ شرح اس فن والوں کے نہج پر ہو تو اس نے ہمارے اوپریہ بات لازم کر دی کہ ہم کتاب کی ابتداء معرت علمِ حدیث کے لیے ایک مختصر جامع رسالے کے ساتھ کریں جو کتاب ابن صلاح وغیرہ سے ملخص ہو اور مقدمہ، مقاصد اور خاتمہ پر مشتمل ہو۔“

”شرح طیبی “کے مصادر

علامہ طیبی نے اس شرح کی ترتیب و تالیف میں جن کتابوں اور مصادر سے استفادہ کیا ہے ان کی فہرست شرح کے مقدمہ میں دے دی ہے اور جیسا کہ ابھی گزرا ہر ایک کتاب کے لیے ایک مخصوص اشارہ مقرر کر دیا ہے۔ چنانچہ شرح کے اندر جہاں کہیں بھی ان میں سے کسی کتاب سے استفادہ کیا گیا اور اس کی عبارت نقل کی گئی تو وہاں اس کے مقرر رمزکو ذکر کر دیا گیا ، جس سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ عبارت فلاں کتاب کی ہے۔چناچہ وہ فرماتے ہیں:

 ” میں نے ہر کتاب کی طرف اس کی مخصوص علامت سے اشارہ کر دیا ہے ، علامہ خطابی کی” معالم السنن و أعلامہا “ کی علامت : ”خط “ ، علامہ بغوی کی ”شرح السنہ “ کا اشارہ ” حس “ ، علامہ نووی کی ”شرح مسلم“ کا رمز : ”مح “ ، علامہ زمخشری کی” الفائق فی غریب الحدیث “کی علامت : ”فا “ ، علامہ راغب اصفہانی کی ”مفردات القرآن “کا اشارہ : ”غب “ ، علامہ ابن الاثیر جزری کی ”النہایہ فی غریب الحدیث و الاثر “ کا رمز ”نہ “ ، علامہ توراپشتی کی ” کتاب المیسر فی شرح مصابیح السنہ “ کا اشارہ ” تو “ ، قاضی ناصر الدین بیضاوی کی کتاب ” تحفة الابرار فی شرح مصابیح السنہ “ کی علامت ”قض “ علامہ مُظہرالدین زیدانی کی شرح ” المفاتیح فی شرح المصابیح “ کا اشارہ ” مظ “ اور علامہ اشرف کا رمز ” شف “ ہے ۔ “(شرح الطیبي،مقدمة الموٴلف: ۱/۳۵)

مصادر کا مختصر تعارف

”شرح طیبی “کے مذکورہ مآخذ و مصادربہت ہی اہم و مقبول ہیں اور اہل علم کے ہاں معتبر و مستند شمار کیے جاتے ہیں۔ان کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر یہاں ان کامختصر تعارف ذکر کر دیا جاتا ہے۔

معالم السنن و اعلامہا

یہ سنن ابو داؤد کی شرح ہے جو علامہ ابو سلیمان حمد بن محمد خطابی بستی کی تالیف ہے۔ علامہ خطابی کی تاریخ پیدائش ۳۱۹ ہجری اور تاریخ وفات ۳۸۸ ہجری ہے۔ یہ شرح علامہ خطابی کی تقریباً سب سے پہلی تالیف ہے ،جو علماء کے ہاں سب سے زیادہ معروف ہے اور جب بھی علامہ خطابی کا کوئی قول کسی کتاب کی طرف منسوب کیے بغیر ذکر کیا جائے توقاری اور سامع کا ذہن ” معالم السنن“ ہی کی طرف جاتا ہے ۔ اس شرح کا تذکرہ علامہ خطابی نے اپنی بخاری کی شرح ”أعلام الحدیث“ کے مقدمے میں بھی کیا ہے ۔( دیکھیے، اعلام الحدیث:۱/۲۸، جامعہ ام القری)، یہ کتاب المطبعة العلمیہ حلب اور مطبعہ انصار الامہ قاہرہ سے شیخ احمد محمد شاکر اورمحمد حامد الفقي کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔

شرح السنہ للبغوی

یہ علامہ ابو محمد حسین بن مسعود بغوی کی مایہ ناز تصنیف ہے ، جن کی پیدائش ۴۳۳ اور وفات ۵۱۶ ہجری میں ہوئی ہے ۔ ”مشکاة شریف “کا اصل اور متن ”مصابیح السنہ “ بھی ان کی تالیف ہے۔ ان کا لقب محیی السنہ ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ علامہ بغوی جب” شرح السنہ“کی تصنیف سے فارغ ہوئے تو ایک دن ان کو خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت نصیب ہوئی اور آپ نے ان کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ ”أحیاک اللہ کما أحییت سنتي ․“ ّٰیعنی ” اللہ تعالی تمہیں اس طرح زندہ رکھے جیسا کہ تم نے میری سنت کو ( اپنی تصنیف کے ذریعے ) زندہ کیا ۔ “( اشعة اللمعات: ۱/۲۶، ۲۷، معجم البلدان: ۱/۴۶۸)، اس کتاب میں ایمانیات ، عبادات و معاملات ،زہد و رقاق ، اخلاق و آداب اور فضائل و مناقب وغیرہ موضوعات جن کی ایک مسلمان کو دین کے سلسلے میں ضرورت پڑ سکتی ہے ، سے متعلق آثار و سنن کو جمع کر کے حدیث و فقہ کی روشنی میں ان کی شرح کی گئی ہے۔یہ کتاب چار مکتبوں سے طبع ہوئی ہے ۔ ۱۔ مجمع البحوث الاسلامیہ سے شیخ احمد صقر اور دکتور سید احمدی ابو النور کی تحقیق کے ساتھ ،۲۔ مکتب الاسلامی سے شعیب ارنوٴوط اور زہیر شاویش کی تحقیق کے ساتھ ،۳۔ دا رالفکر بیروت سے سعید محمد اللحام کی تحقیق کے ساتھ،۴۔ جبکہ دارالکتب العلمیہ بیروت سے شیخ علی معوض اور شیخ عادل احمد عبدالموجود کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے ۔

شرح صحیح مسلم

صحیح مسلم کی اس شرح کا نام ” المنہاج شرح مسلم بن حجاج “ ہے اوریہ علامہ محیی الدین ابوزکریا یحییٰ بن شرف نووی شافعی کی تالیف ہے ، جن کی تاریخ پیدائش محرم ۶۳۱ ہجری اور تاریخ وفات ۶۷۶ ہجری ہے ۔ یہ صحیح مسلم کی بہت مبارک ، سب سے عمدہ اور مقبول ترین شرح ہے اور وقت تالیف ہی سے علما و محدثین کا مرجع رہی ہے اور شارحین حدیث اس سے استفادہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ (تفصیلی تعارف کے لیے دیکھیے، شرح النووی، مقدمة المحقق: ۱/۹۹،۱۱۱، دارالمعرفہ بیروت)

الفائق فی غریب الحدیث

 جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب احادیث کے مشکل اور نا مانوس ا لفاظ کے معانی کے سلسلے میں مرتب کی گئی ہے ۔ اس کے موٴلف نحو ، لغت اور بلاغت کے امام علامہ جاراللہ ابو القاسم محمود بن عمر زمخشری خوارزمی ہیں۔ علامہ زمخشری اعتقاداً اگرچہ معتزلی تھے اور اپنے اس عقیدے کا برملا اظہار بھی کیا کرتے تھے؛ لیکن نحو ، لغت ، بلاغت اور مختلف علوم و فنون میں ان کی حیثیت مسلم اور ان کی بات سندکا درجہ رکھتی ہے۔ انھوں نے تفسیر ، حدیث ، نحو ، لغت اور ادب وبلاغت کے موضوع پرشاندار کتابیں تالیف کی ہیں اوراہل علم ان کی کتابوں سے استفادہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ علامہ زمخشری خوارزم کی ایک غیر معروف بستی ” زمخشر “ میں ۴۶۷ ہجری میں پیدا ہوئے ،جو ان کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے مشہور ہو گئی ،اور۵۸۳ ہجری” جرجانیہ خوارزم “میں انھوں نے وفات پائی۔ حجاز میں اقامت اختیارکرنے اور بیت اللہ کے پڑوس میں ر ہنے کی وجہ سے اپنا لقب ”جاراللہ“ رکھا اور اسی لقب سے مشہور ہوئے ۔(تعارف کے لیے دیکھیے، الفائق فی غریب الحدیث، مقدمة المحقق: ۱/۵۔۱۰، دار المعرفہ، بیروت)

مفردات الفاظ القرآن

 اس کتاب میں قرآنی الفاظ کے معانی بیان کیے گئے ہیں ۔ یہ امام راغب اصفہانی کی تالیف ہے ، جن کا نام راجح قول کے مطابق حسین بن محمد بن مفضل ہے۔ یہ لغت و ادب کے امام اور بلند مقام ومرتبہ کے مالک تھے۔ان کی وفات ۴۶۵ ہجری کی حدود میں ہوئی ہے ۔” الراغب“ ان کا لقب ہے اور اسی لقب سے زیادہ مشہور ہوئے۔(تفصیلی تعارف کے لیے دیکھیے، مفردات الفاظ القرآن، ص:۷۔۳۰، دارالقلم، دمشق، الدار الشامیة، بیروت)

النہایہ فی غریب الحدیث و الأثر

یہ کتاب بھی ا حادیث و آثار کے مشکل و نامانوس الفاظ کے معانی و مطالب کے بیان کرنے کے سلسلے میں لکھی گئی ہے ۔ اس کے مصنف امام مجدالدین ابو السعادات مبارک بن محمد شیبانی جزری شافعی ہیں ، ابن الاثیر جزری کے نام سے معروف ہیں ۔ کئی مایہ ناز کتابوں کے موٴلف ہیں اور ” جا مع الاصول فی احادیث الرسول“ بھی ان کی تالیف ہے ۔ جزیرہ ابن عمر میں ۵۴۴ ہجری میں پیدا ہوئے اور بروز جمعرات آخر ذی الحجہ ۶۰۶ ہجری میں وفات پائی اور اپنی قائم کردہ خانقاہ میں مدفون ہوئے۔(دیکھیے، النہایة فی غریب الحدیث والاثر، مقدمة التحقیق:۱/۳۔۱۶، دار احیاء التراث العربی)

کتاب المیسر فی شرح مصابیح السنہ

یہ علامہ بغوی کی معروف کتاب اور مشکاة المصابیح کا متن ” مصابیح السنہ “ کی شرح ہے ،جو امام شہاب الدین ابو عبداللہ فضل اللہ بن حسن بن حسین تُورِبِشتی کی تالیف ہے ۔” تُورِبِشت “ (”تاء“ کے ضمہ،” راء“ اور” باء“ کے کسرہ کے ساتھ) ایران کے شہر شیراز کے مضافات میں واقع ایک بستی کا نام ہے اور اسی کی طرف ان کی نسبت کی جاتی ہے ۔علامہ تاج الدین سبکی نے ان کا تذکرہ ”طبقاتِ شافعیہ “ (۵/۱۴۶) میں کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شافعی المذہب تھے ، لیکن حاجی خلیفہ نے ”کشف الظنون“ ، اسماعیل باشا بغدادی نے ”ہدیة العارفین“ اور علامہ زرکلی نے ”الاعلام“ میں لکھا ہے کہ وہ حنفی المذہب تھے ۔ یہی راجح ہے اور حافظ ابن حجر اور علامہ انور شاہ کشمیری نے ”طبقات شافعیہ“ میں ان کے ذکر کو علامہ سبکی کا وہم قرار دیا ہے۔ ( الاسئلة الفائقة لابن حجر، ص:۶۱، فیض الباری للکشمیری: ۲/۳، ۱۶۱)، عام کتب تراجم کے مطابق علامہ توربشتی کی وفات ۱۳ رمضان المبارک، بروز ہفتہ، ۶۶۱ ہجری میں ہوئی اور یہی صحیح ہے۔علا مہ توربشتی کی یہ شرح مکتبہ نزار مصطفی الباز مکة المکرمہ سے دکتور عبدالحمید ھنداوی کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوچکی ہے۔

قاضی ناصرالدین بیضاوی

 ان کی کنیت ابو الخیر ، لقب ناصرالدین اور ایران کے شہر شیراز کی عمل داری میں واقع ” بیضاء “ نامی بستی کی طرف نسبت ہے ، جبکہ شیراز کے عہدئہ قضاء پر فائزہونے کی وجہ سے ان کو قاضی کہا جاتا ہے۔ان کا پورا نام قاضی ابو الخیر ناصرالدین عبد اللہ بن عمر بن محمد بن علی بیضاوی شیرازی ہے ۔ متعدد مایہ ناز تصانیف کے علاوہ علامہ بغوی کی ”مصابیح السنہ “ پر ” تحفة الابرار فی شرح مصابیح السنہ “ کے نام سے ان کی شرح ہے ۔ علامہ طیبی نے ا پنی شرح میں اسی سے استفادہ کیا ہے اور ”شرح طیبی“ میں ” قض “کے رمز سے اس کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ درس نظامی کے نصاب میں شامل مشہور و معروف تفسیر ” تفسیر بیضاوی “ بھی ان کی تالیف ہے ۔ ان کا انتقال ۶۸۵ اورعلامہ سبکی کے قول کے مطابق ۶۹۱ ہجری میں ہوا ہے ، جبکہ تفسیر بیضاوی کے شارح علامہ شہاب الدین خفاجی نے کہا ہے کہ یہی مشہور قول ہے؛ لیکن فارسی تاریخوں میں جس قول پر موٴرخین نے ا عتماد کیا ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے وہ یہ ہے کہ ان کا انتقال ۷۱۹ ہجری میں ہوا ہے اور یہی معتمد قو ل ہے ۔ ( دیکھیے ، حاشیة الشہاب علی تفسیر البیضاوی : ۱/۵ ، دار الکتب العلمیہ بیروت )

علامہ بیضاوی کی یہ شرح ادارة الثقافة الاسلامیہ سے نور الدین طالب کے اشراف و نگرانی میں محققین کے ایک ”لجنہ “کی تحقیق کے ساتھ تین جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔

(باقی آئندہ)

$ $ $

 

-------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ4، جلد:100 ‏، جمادی الاخری1437 ہجری مطابق اپریل 2016ء