”مشکاة شریف“ کے شارحِ اوّل

علامہ طیبیؒ اور ان کی شرح کا تعارف

(۲/۲)

 

از: مفتی عبدالغنی                                

استاذ ورفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف، جامعہ فاروقیہ کراچی

 

مظہرالدین زیدانی

یہ علامہ حسین بن محمود بن حسن زیدانی ہیں۔” مظہرالدین“ ان کا لقب ہے اور ”زیدانی“ کوفہ میں واقع صحراء ” زیدان “ کی طرف نسبت ہے ۔ یہ محدث تھے اور متعدد تصانیف کے موٴلف ہیں ۔ ” مصابیح السنہ “ پر ” المفاتیح فی شرح المصابیح “ یا ”فی حل المصابیح “ کے نام سے ان کی شرح ہے ، یہ شرح انھوں نے دو جلدوں میں ۷۲۰ ہجری میں مکمل کی ہے اور ۷۲۷ ہجری میں ان کا انتقال ہوا ہے ۔ (دیکھیے ، کشف الظنون : ۲/۱۶۹۸،ہدیة العارفین : ۱ /۳۱۴ ، الأعلام للزرکلی :۲/۲۵۹ )

”مصابیح“ کی یہ شرح۱۴۳۳ھ بمطابق ۲۰۱۲ء نورالدین طالب کے اشراف میں محققین کے ایک ”لجنہ “کی تحقیق کے ساتھ ادارة الثقافة الاسلامیہ سے شائع ہو چکی ہے۔

جمال الدین الاشرف

علامہ طیبی نے ان کے نام کا رمز ” شف“ مقرر کیا ہے ، ان کا پورا نام ابو عبداللہ جمال الدین اسماعیل بن محمد بن اسماعیل بن عبدالملک بن عمر حموی حنفی ہے اوران کا لقب ”الاشرف الفُقاعی“ ہے۔ تاریخ وفات ۷۱۵ھ ہے۔ یہ مصابیح کے شارح ہیں اور ” شرح المصابیح“ کے نام سے ان کی شرح ہے۔( دیکھیے، کشف الظنون: ۲/۱۷۰۱ ، تاریخ الادب العربی: ۶/۲۳۶)، ہماری معلومات کی حد تک” مصابیح السُّنہ“ یہ شرح اب تک طیع نہیں ہوئی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

زیادہ استفادہ علامہ نووی کی ” شرح مسلم “سے کیا گیا ہے

علامہ طیبی نے مذکورہ مصادر سے نقل کرنے میں اختصار سے کام لیا ہے اور ان میں سب سے زیادہ استفادہ علامہ نووی کی” شرح مسلم“ سے کیا ہے ۔شرح میں جہاں کہیں رمز اور اشارہ لکھا ہوا نہ ہو تو وہ علامہ طیبی کا اپنا کلام ہوتا ہے ۔ چنانچہ علامہ طیبی ” شرح “ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:

”سلکت في النقل منھا طریق الاختصار، وکان جلّ اعتمادي، وغایة اھتمامي، بشرح مسلم للإ مام المتقن محي الدین النواوي؛ لأنہ کان أجمعھا فوائد، وأکثرھا عوائد، وأضبطھا للشوارد والأوابد وما تری علیہ علامة، فأکثرھا من نتائج ساغ خاطري العلیل الکلیل، فإن تری فیہ خللاً فسدہ، جزاک اللہ خیراً“ (شرح الطیبي: ۱/۳۵، إدارة القرآن)

یعنی” میں نے ان کتابوں سے نقل کرنے میں اختصار سے کام لیا ہے اور میرا زیادہ تراعتماد اور زیادہ اہتمام ماہر و حاذق امام محي الدین نووی کی شرح کے ساتھ رہاہے ، جو فوائد کے اعتبار سے سب سے زیادہ جامع ،سب سے زیادہ منافع والی اورمنتشر و متفرق امور کو زیادہ جمع کرنے والی ہے اور جس عبارت پر آپ کوئی علامت نہ دیکھیں تو وہ میری کمزور و علیل فکر کے نتائج ہیں، لہٰذا اگر آپ اس میں کوئی خرابی دیکھیں تو اس کو درست کر لیں۔اللہ تعالی آپ کو بہترین جزا عطا فرمائے۔“

اہلِ علم کے ہاں ”شرح طیبی “کی اہمیت وافادیت

جیسا کہ ابتداء میں گزرا کہ علامہ طیبی صاحب مشکاة علامہ تبریزی کے استاد ہیں اور ان کے مشورے سے ہی انھوں نے ”مشکاة شریف“ مرتب کی ہے ۔ پھر استاد نے اپنے شاگرد کی مرتب کردہ کتاب کی شرح لکھی جو استاد کے اخلاص و للہیت کی روشن دلیل ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے” شرح طیبی“ کو جو قبولیت عطا فرمائی ہے وہ حدیث کی بہت کم شروحات کو نصیب ہوئی ہے اور شارحین حدیث نے اس سے خوب استفادہ کیا ہے؛ چنانچہ”فتح الباری“ ،”عمدة القاری“، ” فتح الإلہ فی شرح المشکاة“ از ابن حجر الہیتمی ،”عقود الزبرجد فی شرح مسند الاما م احمد“ از علامہ سیوطی،”مرقاة المفاتیح“ ،”اشعة اللمعات“، ”بذل المجہود“، ”فتح الملہم“، ”اوجزالمسالک“، ”تحفة الاحوذی“، ”التعلیق الصبیح“، ”معارف السنن“ اوران کے علاوہ صحاح ستہ،” مشکاة المصابیح“ بلکہ بعد میں آنے والے تقریبا ً تمام شارحین حدیث نے اس سے استفادہ کیا ہے ۔ مولانا ادریس کاندھلوی نے مشکاة شریف کی شرح کے مقدمے میں لکھا ہے کہ انھوں نے زیادہ استفادہ علامہ توربشتی اور علامہ طیبی کی شرح سے کیا ہے ۔ شرح طیبی کے متعلق وہ لکھتے ہیں :

 ”وجلّ اعتمادي …علی شرح المشکوة المسمی ” الکاشف عن حقائق السنن المحمدیة“ علی صاحبھا ألف ألف صلاة وألف ألف تحیة، للمحدث الجلیل أفضل العلماء في زمانہ وأکمل الفضلاء في أوانہ، مفسر الکتاب وشارح السنہ، مبین الأحکام، وقامع البدعة، شرف الملة والدین، الحسین بن عبداللہ بن محمد الطیبيا لشافعي طیب اللہ ثراہ، وجعل الجنة مثواہ، ولعمري ما تری کتاباً أجمع تحقیقاً منہ في بیان حقائق السنة، ودقائقھا ، وإبراز لطائفھا ومعارفھا ، وکشف أسرارھا وغوامضھا ، فیا لہ من شرح عزیز المثال ، لم ینسج فیما أظن علی ھذا المنوال “(التعلیق الصبیح:۱/۵)

یعنی”میرا زیادہ تر اعتماد ( علامہ تور بشتی کی کتاب المیسر کے علاوہ) مشکاة شریف کی شرح بنام ” الکاشف عن حقائق السنن المحمدیہ “پر ہے، جو محدث جلیل اپنے دور کے علماء میں زیادہ فضیلت والے اور اپنے وقت کے فضلاء میں زیادہ کامل، کتاب اللہ کے مفسر اور سنت کے شارح ، احکام کو بیان کرنے والے اور بدعت کو مٹانے والے شرف الملة و الدین حسین بن عبداللہ بن محمد طیبی شافعی ( اللہ تعالی اس کی قبر کو پاکیزہ اور جنت کوان کا ٹھکانہ بنائے) کی ہے ۔بخدا ! آپ سنت کے حقائق و دقائق کو بیان کرنے، اس کے لطائف و معارف کو ظاہر کرنے اور اس کے اسرار و رموز کو کھولنے میں تحقیق کے اعتبار سے اس سے زیادہ جامع کتاب نہیں پائیں گے ۔ کیا ہی خوب شرح ہے جس کا مثل نہیں اور میرے خیال میں اس طرز پر شرح نہیں لکھی گئی ۔ “

حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نے بھی امام طیبی اور” شرح طیبی“ کی علامہ انور شاہ کشمیری کے حوالے سے تعریف بیان کی ہے اور بلاغت میں اسے حافظ ابن حجر سے فائق قرار دیا ہے ۔ چنانچہ ترمذی کی شرح میں وہ فرماتے ہیں:

”الکتاب مخطوط بعد وسماہ ”الکاشف عن حقائق السنن“ وصار کتابہ ھذا أصلاً ومداراً في مزایا البلاغة في الحدیث، وھو لیس بحافظ الحدیث غیر أنہ فاق الحافظ ابن حجر في بیان نکات البلاغة بکثیر، والحافظ مستفید من کتابہ، کذا أفادہ شیخنا إمام العصر“ (معارف السنن:۱/۲۴۱)

یعنی ”علامہ طیبی کی شرح مشکاة اب تک مخطوط ہے(حضرت بنوری کے زمانے میں یہ کتاب طبع نہیں ہوئی تھی) اور اس کا نام انھوں ” الکاشف عن حقائق السنن“ رکھا ہے ، ان کی یہ کتاب حدیث کی بلاغی خصوصیات بیان کرنے میں اصل اور مدار بن گئی ہے ، اگرچہ وہ حافظ الحدیث نہیں ہیں؛لیکن بلاغت کے نکات بیا ن کرنے میں حافظ ابن حجر سے بہت زیادہ فائق ہیں اور حافظ صاحب ان کی کتاب سے استفادہ کرتے ہیں، اسی طرح ہمارے شیخ امام العصر نے ہمیں بتایا ہے۔“

خود علامہ طیبی نے اپنی شرح سے استفادہ کرنے والے قاری کوخطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ”فإن نظرت بعین الإنصاف لم تر مصنفاً أجمع، ولا أوجز منہ، ولا أشد تحقیقاً في بیان حقائقھا، وسمیتہ ب”الکاشف عن حقائق السنن یعنی ”اگر آپ بنظر انصاف دیکھیں گے تو اس سے زیادہ جامع، زیادہ مختصر، اور سنت کے حقائق کو بیان کرنے میں زیادہ تحقیقی تصنیف نہیں پائیں گے اور میں نے اس کا نام ”الکاشف عن حقائق السنن “رکھا ہے۔“ (شرح الطیبی، مقدمة الموٴلف: ۱/۳۵،۳۶)

”شرح طیبی“ کے مطبوعہ نسخوں کا تعارف

شرح طیبی اس وقت کئی کتب خانوں سے شائع ہو چکی ہے اور اس وقت ہمارے علم میں اس کے تین مطبوعہ نسخے ہیں، لہٰذا ذیل میں ان کا مختصر تعارف ذکر کیا جاتا ہے:

پہلا مطبوعہ نسخہ

۱- سب سے پہلے اس کی اشاعت کا اہتمام ”ادارة القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی “نے کیا اوراس کے بانی حضرت مولانا نور احمد کو اس کی اشاعت کے لیے مخطوطات جمع کرنے کا بہت زیادہ اہتمام تھا اور وہ ابھی اس کے دو مخطوطے ہی حاصل کرپائے تھے کہ اس دار فانی سے دارالبقاکی طرف رخصت ہو گئے ، ان کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا نعیم اشرف صاحب حفظہ اللہ نے اس اہتمام کو نہیں چھوڑا اور وہ مزید چار مخطوطے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، گویا اس طرح چھ مخطوطات کو پیش نظر رکھ کر اس کی طباعت کا اہتمام کیا گیا ہے ۔

(۱)ان میں سے ایک مخطوطہ ”پیر جھنڈو “ سندھ کے کتب خانے کا ہے جوپیر محب اللہ شاہ راشدی سے لیا گیا اور ا س کے ابتدائی اوراق نہ ہونے کی وجہ سے تاریخ نسخ اور ناسخ کا علم نہ ہوسکا۔ (۲) دوسرا مخطوطہ حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی سے حاصل کیا گیا جو در اصل ان کے والد حضرت مولانا محمد اسماعیل کاندھلوی کا تھا اور انھوں نے خود یہ نسخہ محرم الحرام ۱۳۴۶ھ میں شیخ سلیمان بن علی عبدالحافظ کے مخطوطے محررہ ۱۱۲۶ھ سے نقل کر کے لکھا ہے۔ (۳) ایک مخطوطہ بہاول پور سے حاصل کیا گیا جو محمد بن احمد بن فقیہ محمد کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور اس کی تاریخ نسخ ۸۴۳ھ ہے، یہ مخطوطہ سب سے قدیم اور موٴلف کے نسخے سے نقل کیا گیا ہے ۔ (۴) ایک اور مخطوطہ خانقاہ سراجیہ کندیاں کے کتب خانے سے وصول کیا گیا ، اس کے ناسخ کا نام ملا رحمت اللہ بن حبیب اللہ ہے اور تاریخ نسخ ۱۱۶۰ھ درج ہے۔ (۵،۶) جبکہ دو مخطوطے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی لائبریری سے حاصل کیے گئے ، جن میں سے ایک نسخہ عبداللہ بن مسعود کارزونی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور اس کی تاریخ نسخ رمضان ۸۸۸ھ ہے، دوسرا نسخہ سلیمان بن علی عبدالحافظ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور اس کی تاریخ کتابت ۱۱۲۶ھ ہے، یہ وہی نسخہ ہے جس سے مولانا محمد ادریس کاندھلوی کے والد حضرت مولانا محمد اسماعیل کاندھلوی نے اپنا نسخہ نقل کیا ہے۔ ان میں سے بعض نسخے کامل اور بعض ناقص ہیں ۔شرح طیبی کا یہ مطبوعہ نسخہ بارہ جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کی آخری جلد میں فہارس، ”اَجوبة الحافظ ابن حجرالعسقلانی عن احادیث المصابیح“ اور” الاکمال فی أسماء الرجال“ کو شائع کیا گیا ہے ۔”ادارة القرآن کراچی “نے سب سے پہلے اس کو ۱۴۱۳ ہجری میں شائع کر کے اس قیمتی سوغات کو منظر عام پر لا کر اہلِ علم پر عظیم احسان کیا ہے۔

دوسرا مطبوعہ نسخہ

۲- شرح طیبی کی ایک اور اشاعت مکتبہ نزار مصطفی الباز ، مکة المکرمہ ، الریاض سے دکتور عبدالحمیدہنداوی کی تحقیق کے ساتھ ۱۴۱۷ ھ بمطابق ۱۹۹۷ ء میں ہوئی ہے اور اس میں” ادارة القرآن “کے مذکورہ مطبوعہ نسخے اور” دار الکتب المصریہ“ کے مخطوطے کو پیش نظر رکھا گیا ہے ، اگر کوئی عبارت ساقط یا کوئی غلطی تھی تو اس کا ازالہ کیا گیا،آیات و احادیث کی تخریج اور تعلیقات کا اضافہ کیا گیا۔ یہ نسخہ تیرہ جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کی جلد اول میں علامہ طیبی ، علامہ تبریزی ،امام بغوی اور ان کی کتابوں کے تعارف کے علاوہ علامہ طیبی کی تالیف ” لطائف البیان فی علمی المعانی والبیان “ اور ”الاکمال فی اسماء الرجال“ ،” اَجوبة الحافظ ابن حجر عن احادیث المصابیح“ اور علم حدیث و مصطلح الحدیث پر مشتمل شارح کا مقدمہ شامل کیا گیا ہے ۔اس نسخے کی آخری جلد فہارس پر مشتمل ہے۔

تیسرا مطبوعہ نسخہ

۳- اسی طرح یہ کتاب دا الکتب العلمیہ بیروت سے ابو عبد اللہ علی محمد السمک کی تحقیق کے ساتھ ۱۴۱۸ ھ میں شائع ہوئی ہے اور اس میں بھی ”ادارة القرآن “ کے مطبوعہ نسخے کے ساتھ ”دارالکتب المصریہ“ کے مخطوطے کا موازنہ کیا گیا ہے اور دونوں میں جو فروق تھے، ان کی وضاحت کی گئی ہے۔ آخری دونوں نسخوں کے محققین پہلے کام شروع کر چکے تھے اور بعد میں ان کو پاکستانی مطبوعہ نسخے کی اطلاع پہنچی۔ یہ نسخہ بھی بارہ جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کی بارہویں جلد میں صرف فہارس شائع کی گئی ہیں ۔

آخر الذکر دونوں نسخوں کے محققین بظاہر سلفی معلوم ہوتے ہیں اور ان میں سے اول الذکر نے مقدمہ میں بھی فقہاء پر تنقید کی ہے اور موٴلف کتاب کو بھی کسی مذہب کی تقلید نہ کرنے والا لکھ دیا ہے؛ حالانکہ وہ شافعی المذہب تھے، جبکہ آخر الذکر نے مثلاً تصوف اور صفات سے متعلق بعض مسائل میں باقاعدہ حواشی میں شارح کی تردید کی ہے اور ان مسائل میں علامہ طیبی کے موقف کو اہلِ سنت کے مسلک کے خلاف قرار دیا ہے۔

”شرح طیبی“کے بعض مخطوطے

شرح طیبی کے کچھ مخطوطات کا ذکر تو مطبوعہ نسخوں کے ضمن میں آ گیا ہے اور اس کے مزید کچھ مخطوطات جو ہمارے علم میں آئے ہیں ان کا یہاں ذکر کر دیا جاتا ہے۔

۱۔اس کا ایک بہترین مخطوطہ گڑھی افغانان متصل حسن ابدال کی خانقاہ فاضلیہ میں موجود ہے۔(تذکرة المفسرین، از مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی، ص:۲۰۵)

۲۔ایک مخطوطہ جامعہ ام القری کے کتب خانے میں ہے، جو اول کتاب سے لے کر ”کتاب المناسک، باب حرم المدینہ حرمہا اللہ“ تک ہے۔یہ خط نسخ کے ساتھ لکھا ہوا ہے اور اس کے ابتدائی اوراق کے ساقط ہونے کی وجہ سے اس کی تاریخ نسخ معلوم نہیں ہے ۔

۳۔جامعہ ام القری کے کتب خانے میں ایک اور مخطوطہ بھی ہے جو ”کتاب الجنائز، باب ما یقال عند من حضرہ الموت“ سے شروع ہو تا ہے اور ” باب الوصایا“ پر ختم ہوتا ہے۔یہ مخطوطہ احمد بن محمد شاہ بن بلبان بن الحسن کاتب شیرازی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔

۴۔اسی طرح جامعہ ام القری میں ایک اورتیسرا مخطوطہ بھی ہے جو ”کتاب الامارہ“ سے آخر کتاب تک ہے اورعبد الرحمن بن مرحوم طیب بن مرحوم کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔

۵۔ایک اور مخطوطہ مکتبہ ملک عبد العزیز مدینہ منورہ میں موجود ہے، اس کے کاتب حسن بن حاجی ہیں اور یہ نسخہ ابتداءِ کتاب سے لے کر ”باب ما لا یجوز من العمل فی الصلاة و ما یباح منہ“ تک ہے۔

۶۔ایک مخطوطہ مظاہرعلوم سہارنپور ہندوستان کے کتب خانے میں ہے جو ابتداءِ کتاب سے”باب الاستحاضہ“ تک ہے۔

۷۔ایک مخطوطہ عراق کے شہر بغداد میں ہے اور یہ ابتداءِ کتاب سے شروع ہو کر ”باب العقیقہ“ پر ختم ہوتا ہے۔ اس کی نقل جامعہ ام القری میں موجود ہے ۔

(یہ اورمطبوعہ نسخوں کے بعض مخطوطات کی تفصیل کے لیے دیکھیے، الفنون البیانیہ فی کتاب ”الکاشف عن حقائق السنن“ للامام الطیبی، ازمحمد رفعت احمد زنجیر،ص:ح۔د، غیر مطبوع)

علامہ طیبی کی دیگر تصنیفات

شرح طیبی کے علاوہ علامہ طیبیکی دیگر کئی مایہ ناز تصانیف بھی ہیں اور شرح طیبی کی طرح وہ بھی ان کے تبحر علمی اور جلالت شان پر دلالت کرتی ہیں؛ چنانچہ ذیل میں ان کا مختصر تعارف ذکر کر دیا جاتا ۔

۱- فتوح الغیب فی الکشف عن قناع الریب: یہ تفسیر کشاف کی شرح اور حاشیہ ہے۔ علامہ طیبی نے جب یہ حاشیہ لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ کو خواب میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف اس طرح حاصل ہواکہ آپ نے علامہ طیبیکو دودھ کا بھرا ہوا پیالہ عنایت فرمایا، جسے علامہ طیبی نے نوش فرمالیا۔( بغیة الوعاة: ۱/۵۲۳، البدر الطالع: ۱/۲۲۹)، علامہ طیبینے مذہب اہل سنت کے مخالف اعتزالی عقائد کا بہترین جواب دیا ہے اور اہل علم نے ان کی اس کاوش کو سراہا ہے؛چنانچہ مشہور موٴرخ اور فلسفی علامہ ابن خلدون اس حاشیہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ:

”ولقد وصل إلینا في ھذہ العصور تالیف لبعض العراقیین، وھو شرف الدین الطیبيُّ، من أھل توریز من عراق عجم، شرح فیہ کتاب الزمخشريِّ ھذا، وتتبّع ألفاظہ وتعرض لمذاہبہ في الاعتزال بأدلة تزیفھا ویبین أن البلاغة إنما تقع في الآیة علی ما یراہ أھل السنة، لا علی ما یراہ المعتزلة؛ فأحسن في ذالک ما شاء، مع امتاعہ في سائر فنون البلاغة وفوق کلِّ ذي علم علیم“ (مقدمة ابن خلدون، ص: ۴۷۱، د ار الکتب العلمیة)

یعنی”اس زمانے میں ہم تک ایک عراقی عالم کی تالیف پہنچی ہے جو عراق عجم سے تعلق رکھنے والے شرف الدین طیبی ہیں، جس میں انھوں نے زمخشری کی اس کتاب (تفسیر کشاف) کی شرح کی ہے، اس کے الفاظ کا تتبع کیا اور اس کے اعتزالی نظریات کاایسے دلائل کے ساتھ رد کیا جو ان کے نظریات کو باطل کر دیتے ہیں، اور شارح یہ ثابت کرتے ہیں کہ آیت میں صحیح بلاغت اہل سنت کے اختیار کردہ طریقہٴ تعبیر سے ادا ہوتی ہے نہ کہ معتزلہ کے طریقہٴ تعبیر سے۔اور اس سلسلے میں اس نے بہت عمدہ کلام کیا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ تمام فنون بلاغت سے استفادہ کیا ہے۔“

 اس کے کئی مخطوطے ”دار لکتب المصریہ“ میں موجود ہیں جن میں سے ایک نسخہ نو جلدوں میں ہے اور مکمل ہے جبکہ باقی نسخے ناقص ہیں(دیکھیے، التبیان فی البیان، مقدمة المحقق، ص:۹، غیرمطبوع)، اسی طرح اس کا ایک مخطوطہ ”المکتبة الازہریہ“ میں ہے(الاعلام: ۲/۲۵۶)، مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی نے ”تذکرة المفسرین“ (ص:۲۰۴، ۲۰۵) میں لکھا ہے کہ اس کا ایک قلمی نسخہ محررہ ۷۶۷ہجری خدا بخش لائبریری پٹنہ میں موجود ہے اور تفسیر کشاف کا یہ حاشیہ آٹھ جلدوں میں طبع بھی ہو چکا ہے۔

۲- التبیان فی البیان: یہ کتاب علمِ بلاغت کے فنون ثلاثہ معانی، بیان اور بدیع کے سلسلے میں مرتب کی گئی ہے۔ علامہ طیبی کے شاگرد علی بن عیسی نے ”حدائق البیان“ کے نام سے اس کی شرح لکھی ہے اور اس میں انھوں نے لکھا ہے کہ علامہ طیبی سے انھوں نے یہ کتاب اور ان کی دیگر کتابیں پڑھیں تو اسی دوران ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ مصنف کے افادات کی روشنی میں اس کتاب کے مشکل امور کے حل کے لیے اس پر حواشی تحریر کرے، وہ یہ کام نہ کر سکے اور اس پر ایک زمانہ گزر گیایہاں تک کہ ان کے استاد علامہ طیبینے ان کو وہی بات کہی جس کا ان کو خیال آیا تھا، انھوں نے اپنے استاد کے حکم پر عمل کیا اور وہ آخر شوال ۷۰۶ہجری میں اس کی تالیف سے فارغ ہوئے۔(کشف الظنون:۲/۳۴۱)، علامہ طیبی کی اس کتاب پر عبد الستار حسین زموط نے جامعہ ازہر کے کلیة اللغة العربیہ سے ۱۹۷۷ء میں پی، ایچ، ڈی کی ہے۔ یہ کتاب ہادی عطیہ مطر الہلالی کی تحقیق و تقدیم کے ساتھ عالم الکتب، مکتبة النہضہ العربیہ سے ۱۴۹۷ھ بمطابق ۱۹۸۷ء میں شائع ہوئی ہے۔نیز یہ کتاب بعد ازاں دکتور عبدالحمید ہنداوی کی تحقیق کے ساتھ مکتبہ تجاریہ،مکة المکرمہ سے بھی شائع کی گئی ہے۔

۳-لطائف التبیان فی المعانی والبیان: یہ کتاب بھی بلاغت کے فنون ثلاثہ سے متعلق ہے؛ لیکن یہ سابقہ کتاب کے علاوہ ہے اوران دونوں کتابوں کے مقدمے اور موضوع سے بھی یہی واضح ہوتا ہے،بظاہریہ لگتاہے کہ یہ کتاب مباحثِ بلاغت میں علامہ سکاکی کی ”مفتاح العلوم “اور امام رازی کی ”نہایة الایجاز“ کی تلخیص ہے؛ البتہ اس میں حسنِ ترتیب، اختصار اور سہل و آسان طرز ادا کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ کتاب بھی دکتور عبدالحمید ہنداوی کی تحقیق کے ساتھ مکتبہ تجاریہ، مکة المکرمہ سے شائع ہو چکی ہے اور شرح طیبی کے مکتبہ نزار مصطفی الباز والے نسخے کی پہلی جلد میں بھی شامل ہے۔

۴-شرح اسماء اللہ الحسنیٰ: اسماعیل پاشا بغدادی نے ”ہدیة العارفین“(۵/۲۸۵) میں اس کو ذکر کیا ہے اور اس کا نسخہ دارالکتب المصریہ میں موجود ہے۔

۵-الخلاصة فی اصول الحدیث: یہ کتاب مقدمہ، چار ابواب اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے اور یہ ابن الصلاح کی ”علوم الحدیث “،علامہ نووی اور قاضی ابن جماعہ کی” مختصر“ کی تلخیص ہے، اور اس میں” جامع الاصول“ وغیرہ سے مزید اضافے بھی کیے گئے ہیں۔ علامہ طیبی نے شرح” مشکاة“ کی ابتداء میں”مصطلح الحدیث“ کے بیان میں ایک تفصیلی مقدمہ لکھا ہے، زیر نظر کتاب اور اس مقدمے کو دیکھنے سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ مقدمہ ”الخلاصہ فی علم اصول الحدیث“ کی تلخیص ہے۔ یہ کتاب ۱۳۹۱ھ بمطابق ۱۹۷۱ء استاد صبحی سامرائی کی تحقیق کے ساتھ مطبعة الارشاد بغداد سے طبع ہو چکی ہے۔

۶- شرح التائیة الکبری (۷۵۶ اشعار): اس شرح کو بروکلمان نے علامہ طیبی کی طرف منسوب کیا ہے۔ ( دیکھیے، شرح الطیبی، مقدمة المحقق:۱/۲۷، مکتبہ نزار مصطفی الباز)

۷-شرح التبیان: علامہ سبکی، حافظ ابن حجر اوردیگر کئی حضرات نے اس کا تذکرہ کیا ہے(دیکھیے،الدرر الکامنہ:۲/۹،شذرات الذہب:۶/۳۷ ، مفتاح السعادة:۲/۹۰، بغیة الوعاة: ۱/۵۲۲، عروس الافراح للسبکی : ۱/۳۱) ،لیکن عبد الستار حسین مبروک زموط نے کہا ہے کہ اس شرح کے کسی نسخے پر میں مطلع نہیں ہو سکا،سوائے ایک نسخے کے جو ”جامعة الدول العربیہ“ کے ”معہدالمخطوطات“ میں موجود ہے اور اس کے ناسخ نے اس کی نسبت علامہ طیبی کی طرف کر دی ہے کہ یہ ان کی کتاب ”التبیان“ کی شرح ہے؛ لیکن جب میں نے ان کے شاگرد علی بن عیسی کی شرح ”حدائق البیان“ سے اس کا تقابل کیا تو ان دونوں کو بعینہ ایک ہی چیز پایا؛ اس لیے اس کی نسبت علامہ طیبی کی طرف درست معلوم نہیں ہوتی، اس میں چونکہ علامہ طیبیکی دوسری کتابوں کے حوالے دیے گئے ہیں شاید اس سے ناسخ یہ سمجھا کہ یہ علامہ طیبی کی تالیف ہے اور اس کی نسبت ان کی طرف کر دی ہے۔ میرے خیال میں چونکہ علامہ طیبی کو اپنے شاگرد کی شرح ”حدائق البیان“ سے گہرا ربط وتعلق تھا (جیسا کہ پیچھے گزرا ہے کہ انھوں نے یہ شرح ان کے حکم سے لکھی ہے) اس لیے اس کی نسبت ان کی طرف کر دی جاتی ہے۔ (دیکھیے، کتاب التبیان فی البیان للطیبی، مقدمة المحقق:، ص۹، غیر مطبوع)

۸-کتاب التفسیر: اس کتاب کا تذکرہ بھی حافظ ابن حجر اوردیگر کئی حضرات نے کیا ہے۔ (دیکھیے،الدرر الکامنہ:۲/۹،شذرات الذہب:۶/۳۷ ، مفتاح السعادة:۲/۹۰، بغیة الوعاة: ۱/۵۲۲)

۹-مقدمات فی علم الحساب: عمررضا کحالہ نے ”معجم الموٴلفین“ (۴/۵۳) اور استاذ قدری طوقان نے” تراث العرب العلمی“ (ص:۴۳۴) میں اس کو ذکر کیا ہے۔

۱۰-اسماء رجال المشکاة:بعض حضرات نے اگرچہ اس کتاب کی نسبت علامہ طیبی کی طرف کی ہے؛ لیکن یہ علامہ طیبی کے شاگرد صاحب مشکاة علامہ ولی الدین تبریزی کی تالیف ہے، جس کی ترتیب وتالیف میں علامہ طیبی کی صرف معاونت ومشاورت رہی ہے؛ جیساکہ صاحب مشکاة اس کے آخر میں اس وضاحت کی ہے۔

اس مضمون کی ترتیب کے دوران جن مطبوعہ کتابوں ، طباعتی مکتبوں اور مخطوطات کا ذکر کیا گیا ہے وہ ہماری معلومات کی حد تک ہے، ممکن ہے کہ ان کتابوں کے دیگر مخطوطات موجود ہوں اور ان میں سے بعض کتابیں دیگر مکتبوں سے بھی طبع ہو چکی ہوں گی۔ ہمیں جتنی معلومات میسر ہو سکتی تھیں ہم نے اپنی مقدور بھر کوشش کے ساتھ علامہ طیبی اور ان کے علمی کارناموں خصوصاً ”مشکاة شریف“ کی شرح ”الکاشف عن حقائق السنن“ المعروف” شرح طیبی“کا تعارف کرا دیا ہے۔ اللہ تعالی ان حضرات کی مساعی جمیلہ کو قبول ومنظور فرمائے اور ہمیں ان سے مستفید ہونے، ان کے نقش قدم پر چلنے اور دینِ اسلام پر صحیح صحیح عمل پیرا ہونے کی توفیق سے نوازے۔ آمین!

$ $ $

 

-------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5، جلد:100 ‏، رجب1437 ہجری مطابق مئی 2016ء