خیرالکلام فی کشف أوہام الأعلام

(۷)

 

از:مولانا مفتی عمرفاروق لوہاروی

شیخ الحدیث دارالعلوم، لندن

 

شیخ ابن القیم رحمہ اللہ نے یہ نہیں کہا؛ بل کہ ․․․․

$ ”صحیح بخاری“ میں ہے:

حَدَّثَنَا عَلیُّ بنُ عبدِ اللہ قَالَ: حَدَّثَنَا سفیانُ قال: سمعتُ الزھریَّ عن السائبِ بنِ یزیدَ یقولُ: أذکرُ أنّی خرجتُ مَعَ الغلمانِ الیٰ ثنیّةِ الوداعِ نَتَلَقّٰی رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقال سفیانُ مرّةً: معَ الصبیانِ

حَدَّثَنَا عبدُ اللہ بنُ محمدٍ قال: حدَّثَنَا سفیانُ عنِ الزھریِّ عن السائبِ أذکرُ أنّی خرجتُ مع الصّبیانِ نَتَلَقّٰی النبیَّ صلی اللہ علیہ وسلم الیٰ ثنیّةِ الوداعِ مَقْدَمَہُ مِن غزوةِ تبوکَ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب کتاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی کِسری وقیصرَ، ص:۶۳۷، ج:۲، قدیمی: کراچی)

”علی بن عبد اللہ، سفیان (بن عیینہ) سے، وہ زہری سے اور وہ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں؛ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مجھے یاد ہے کہ میں بچوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے ثنیة الوداع کی طرف نکلا۔ (امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ علی بن عبداللہ المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:) سفیان نے ایک مرتبہ بجائے ”مَعَ الْغِلْمَانِ“ کے ”مَعَ الصِّبْیَانِ“ ذکر کیا۔

عبداللہ بن محمد، سفیان سے، وہ زہری سے اور وہ حضرت سائب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوئہ تبوک سے تشریف آوری کے موقع پر میں بچوں کے ساتھ آپ کے استقبال کے لیے ثنیة الوداع کی طرف نکلا۔“

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ ”فتح الباری“ میں فرماتے ہیں:

ثم ساقہ عن شیخ آخر عن سفیان، وزاد فی آخرہ ”مقدمہ من تبوک“ فأنکر الداوٴدی ھذا وتبعہ ابن القیّم وقال: ثنیة الوداع من جھة مکہ، لا من جھة تبوک؛ بل ھی مقابلھا کالمشرق والمغرب (فتح الباری، ص:۵۳۷، ج:۷، دارالریان: القاھرة)

”پھر امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث سفیان سے روایت کرنے والے دوسرے شیخ سے نقل فرمائی اور اس کے آخر میں ”مقدمہ من تبوک“ کا اضافہ (نقل) کیا۔ داؤدی نے اس کا انکار کیا اور ابن القیم نے ان کا اتباع کیا اور کہا: ثنیة الوداع مکہ مکرمہ کی سمت میں ہے، تبوک کی جہت میں نہیں؛ بل کہ وہ مشرق اور مغرب کی طرح اس کے بالمقابل ہے۔“

بندہ کہتا ہے:

یہاں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو وہم ہوگیا ہے؛ کیوں کہ شیخ ابن القیم رحمہ اللہ نے داؤدی کا اتباع کرتے ہوئے یہ نہیں کہا ہے کہ ثنیة الوداع مکہ مکرمہ کی جہت میں ہے، تبوک کی جہت میں نہیں؛ بل کہ شیخ ابن القیم رحمہ اللہ نے تو یہ کہا ہے کہ بعض رُواة کو یہاں وہم ہوجاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کا واقعہ آپ کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ زادہما اللہ شرفاً تشریف آوری کے موقع پر ہے۔ ابن القیم رحمہ اللہ ان بعض رُواة پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ کھلا ہوا وہم ہے؛ کیوں کہ ثنیات الوداع مقام شام کی جہت میں ہے، مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آنے والا ثنیات الوداع کو دیکھتا ہے، نہ اس کے پاس سے گزرتا ہے، مگر یہ کہ جب وہ شام کا قصد کرے۔ ”زاد المعاد“ لابن القیم میں ہے:

فصل: فلما دنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من المدینة، خرج الناس لتلقیہ، وخرج النساء والصبیان والولائد یقلن:

طلع البدر علینا                       من ثنیات الوداع

وجب الشکر علینا                   ما دعا للّٰہ داع

وبعض الرواة یھم فی ھذا ویقول: انما کان ذلک عند مقدمہ الی المدینة من مکة، وھو وھم ظاھر، لأن ثنیات الوداع انما ھی من ناحیة الشام، لا یراھا القادم من مکة الی المدینة، ولا یمرّ بھا الا اذا توجّہ الی الشام (زاد المعاد، فصل بعد فصل فی أمر مسجد الضرار الذی نھی اللہ رسولہ أن یقوم بہ فھدمہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ص:۴۸۲، العلمیة: بیروت، الطبعة الثانیة: ۱۴۲۸ھ)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ اختلاف بھی ذکر فرمایا ہے اور اس کی یہ تطبیق بھی

$ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو نارنمرود میں ڈالاگیا، تو آپ نے حَسْبُنَا اللہُ وَنِیْمَ الْوَکِیْلُ یا حَسْبِیَ اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ فرمایا تھا۔ یہ جملہ آپ نے بالکل شروع میں ادا فرمایا تھا یا آخر میں؟ بعض احادیث میں اس سے تعرض نہیں کیاگیا ہے، مثلاً:

حَدَّثَنَا أحمدُ بنُ یونسَ أُراہ قال: حدثنا أبوبکر، عَنْ أبِی حَصِیْنٍ، عَنْ أبِی الضُّحیٰ، عَن ابن عَبّاسٍ - رضی اللہ عنھما - حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ قَالَھَا ابراھیمُ - علیہ السلام - حِیْنَ أُلْقِیَ فِی النَّار․․․․ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب ﴿اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ﴾ الآیة، حدیث: ۴۵۶۳، ص:۶۵۵، ج:۲، قدیمی: کراچی)

حَدَّثَنَا وَکِیْعٌ، عَنْ زکریا، عَنْ الشَّعْبِيّ، عَنْ عبدِ اللہِ بنِ عَمْرو - رضی اللہ عنھما - قال: لَمَّا أُلْقِیَ ابراھیمُ علیہ السلام فِی النَّارِ قال: حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ (المصنف لابن أبی شیبة، حدیث: ۳۰۲۰۴، ص:۳۰۰، ۳۰۱، ج:۱۵، دارقرطبة: بیروت)

ان احادیث میں اولیت یا آخریت سے کوئی تعرض نہیں ہے۔

”المُصنَّف“ لابن أبی شیبة کی حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث کے ذیل کے طریق میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ جملہ ابتداء میں کہنا منقول ہے:

حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بنُ دُکَیْنٍ، عَنْ سُفیانَ، عَنْ فِرَاسٍ، عَن الشَّعْبِیِّ، عَنْ عبدِ اللہِ بنِ عمرٍو - رضی اللہ عنھما - قال: أوّلُ کَلِمَةٍ قَالَھَا ابراھیمُ - علیہ السلام - حِیْنَ أُلْقِیَ فِی النَّارِ: حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ (المصنف لابن أبی شیبة، حدیث: ۳۲۴۹۰، ص: ۵۲۵، ۵۲۶، ج:۱۶، دارقرطبة: بیروت)

    حَدَّثَنَا الْفَضْلُ، عَنْ سُفیانَ، عَنْ فِرَاسٍ، عَن الشَّعْبِیِّ، عَنْ عبدِ اللہِ بنِ عمرٍو - رضی اللہ عنھما - قال: أوّلُ کَلِمَةٍ قَالَھَا ابراھیمُ علیہ السلام حِیْنَ طُرِحَ فِی النَّارِ: حَسْبِیَ اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ (المصنف لابن أبی شیبة، حدیث: ۳۶۹۷۷، ص:۵۳۹، ج:۱۹، دارقرطبة: بیروت)

”صحیح بخاری“ کی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے ذیل کے طریق میں اس جملہ کا آخر میں کہنا منقول ہے:

حَدَّثَنَا مالکُ بنُ اسماعیلَ قال: حدثنا اسرائیلُ، عَنْ أبِی حَصِیْنٍ، عَنْ أبی الضُّحٰی، عَن ابنِ عَبّاسٍ - رضی اللہ عنھما - قال: کَانَ آخِرَ قَوْلِ ابراھیمَ - علیھالسلام - حِیْنَ أُلْقِیَ فِی النّارِ: حَسْبِیَ اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب ﴿اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ﴾ الآیة، حدیث: ۴۵۶۴، ص:۶۵۵، ج:۲، قدیمی: کراچی)

عالَمِ اسلام کے معروف عالِمِ دین شیخ محمد عَوّامہ حفطہ اللہ ”المصنف“ لابن أبی شیبة پر اپنی تعلیق میں فرماتے ہیں کہ حافظ (ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ) نے روایتوں کے اس اختلاف سے تعرض نہیں کیا ہے۔ شیخ موصوف روایتوں میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ جملہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ادا فرمایا تھا، پہلا جملہ بھی ہوگا اور آخری جملہ بھی۔ یعنی پہلے بھی ادا فرمایا ہوگا اور آخر میں بھی۔ ”المصنف“ لابن أبی شیبة میں یہ جملہ ابتداء میں کہنے پر دلالت کرنے والی حدیث: ۳۲۴۹۰، جو ماقبل میں نقل کی گئی ہے کے تحت تعلیق میں ہے:

لکن المعروف أن ھذا القول آخر ما قالہ ابراھیم علیہ الصلاة والسلام، کما جاء فی روایة البخاری، (۴۵۶۴) من حدیث ابن عباس، ولم یعرض الحافظ لھذا الاختلاف، ویمکن القول: ان ھذہ الکلمة ھی أول کلمة وآخر کلمة قالھا ابراھیم علیہ الصلاة والسلام (المصنف لابن أبی شیبة، تحت حدیث: ۳۲۴۹۰، ص:۵۲۶، ج:۱۶، دارقرطبة: بیروت)

بندہ کہتا ہے:

یہ شیخ محمد عَوّامہ حفظہ اللہ ورعاہ کا وہم ہے؛ اس لیے کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ (۷۷۳-۸۵۲ھ) نے یہ اختلاف بھی ذکر فرمایا ہے اوراس کی یہ تطبیق بھی۔ حافظ رحمة اللہ علیہ نے أحمد بن یونس عن أبی بکر عن أبی حصین کے طریق سے مذکور روایت کے تحت اختلاف کی تفصیل ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بعد والی روایت: مالک بن اسماعیل عن اسرائیل عن أبی حصین کے طریق سے مذکور روایت، میں یہ جملہ حضرت ابرہیم علیہ السلام کا آخر میں کہنا منقول ہے، اسی طرح حاکم کی مذکورہ روایت میں واقع ہوا ہے، نسائی میں یحییٰ بن أبی بکیر عن أبی بکر کے طریق سے مروی روایت میں بھی اسی طرح ہے اور ”مستخرج أبی نعیم“ کی عبید اللّٰہ بن موسی عن اسرائیل کے طریق سے اسی سند سے (جو ”صحیح بخاری“ میں مذکور ہے) مروی روایت میں ابتداء میں کہنا منقول ہے۔ اس کے بعد حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے تطبیق دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ممکن ہے، پہلے بھی کہا ہو اور آخر میں بھی کہا ہو۔ ”فتح الباری“ میں ہے:

قولہ: ”قالھا ابراھیم علیہ السلام حین ألقی فی النار“ فی الروایة التی بعدھا أن ذلک آخر ما قال، وکذا وقع فی روایة الحاکم المذکورة، ووقع عند النسائی من طریق یحییٰ بن أبی بکیر عن أبی بکر کذلک، و عند أبی نعیم فی ”المستخرج“ من طریق عبید اللہ بن موسی عن اسرائیل بھذا الاسناد أنھا أول ما قال، فیمکن أن یکون أول شيء قال وآخر شيء قال واللہ أعلم (فتح الباری، کتاب التفسیر، باب ﴿اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ﴾ حدیث: ۴۵۶۳، ۴۵۶۴، ص:۱۵، ج:۱۰، دارطیبة: الریاض)

ابوصالح سَلْمُوْیَہ کی ”صحیح بخاری“ میں ایک حدیث ہے یا دو؟

$ ”صحیح بخاری“ کتاب التفسیر میں ہے:

حَدَّثَنَا یحییٰ بنُ بُکیرٍ قال: حدّثنا اللیثُ عن عُقیلٍ عن ابنِ شھابٍ ح وحدّثنی سعیدُ بنُ مروان البغدادیُّ قال: حدّثنا محمدُ بنُ عبدِ العزیزِ بنِ أبی رِزْمَةَ قال: أَخْبَرَنَا أبو صالحٍ سَلْمُوْیَہ قال: حدّثنی عبدُ اللہِ عن یونسَ بنِ یزیدَ قال: أخبرنی ابنُ شھابٍ أنّ عُروةَ بنَ الزُّبیرِ أخبرہ أنّ عائشةَ زوجَ النبیِّ قالت: کان أولُ ما بُدِیٴ بہ رسولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم الروٴیا الصَّادِقَةَ فی النوم․․․ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، سورة اقرأ باسم ربک، ص:۷۳۹، ج:۲، قدیمی: کراچی)

حافظ ابن حجر عسقلانی، علامہ عینی اور علامہ محمد تاودی مالکی رحمہم اللہ اِس حدیث کے ایک راوی ”ابوصالح سلمویہ“ کے متعلق فرماتے ہیں کہ ان کی ”صحیح بخاری“ میں یہی ایک حدیث ہے، اس حدیث کے علاوہ ان کی کوئی اور حدیث نہیں ہے۔ ”فتح الباری“ میں ہے:

وما لہ أیضاً فی البخاری سوی ھذا الحدیث (فتح الباری، ص:۵۸۶، ج:۹، دارالریان: القاھرة)

”عمدة القاری“ میں ہے:

وما لہ فی البخاری الا ھذا الحدیث (عمدة القاری، ص:۳۰۴، ج:۱۹، داراحیاء التراث العربی: بیروت)

”حاشیة التاودی بن سودة علی صحیح البخاری“ میں ہے:

ولیس لہ فی البخاری غیر ھذا الحدیث (حاشیة التاودی، ص:۶۰۳، ج:۴، العلمیة: بیروت)

بندہ کہتا ہے:

”صحیح بخاری“ کتاب الکفالة میں ایک معلّق روایت ہے:

قال أبو عبدِ اللہِ: وقال أبو صالحٍ: حدّثنی عبدُ اللہِ عَنْ یونسَ عن الزھریِّ أخبرنی عروةُ بنُ الزُّبیرِ أنّ عائشةَ قالت: لم أَعقِلْ أبویَّ قطُّ الا وھما یَدِیْنانِ الدِّینَ․․․ (صحیح بخاری، کتاب الکفالة، باب جوار أبی بکر الصدیق فی عھد النبی صلی اللہ علیہ وسلم وعقدہ، ص:۳۰۷، ج:۱، قدیمی: کراچی)

ابوذر کے نسخہ سے یہ تعلیق ساقط ہے اس نسخہ کے اعتبار سے ابوصالح سلمویہ کی ”صحیح بخاری“ میں ایک ہی حدیث ہوگی، جو امام بخاری رحمہ اللہ نے ”کتاب التفسیر“ میں نقل فرمائی ہے۔

ابوذر کے علاوہ رُواة کے نسخوں میں یہ تعلیق موجود ہے۔ اس میں ”ابوصالح“ سے کون مراد ہے؟ اس سلسلے میں تین اقوال ہیں:

(۱) اسماعیلی نے اس پر جزم کیا ہے کہ اس سے مراد ”عبد اللّٰہ بن صالح کاتبُ اللیث“ ہیں۔

(۲) دمیاطی کا خیال یہ ہے کہ اس سے ”محبوب بن موسیٰ الفراء الانطاکی“ مراد ہیں۔

ان دونوں اقوال کے اعتبار سے بھی ابوصالح سلمویہ کی ”صحیح بخاری“ میں ایک ہی حدیث ہوگی، جو کتاب التفسیر میں ہے۔

(۳) ابونعیم، اصیلی اور ابو علی الجیانی وغیرہ اس بات کے قائل ہیں کہ اس سے مراد ”سلیمان بن صالح المروزی“ ہیں، جن کا لقب ”سلمویہ“ ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اسی کو معتمد قرار دیا ہے؛ کیوں کہ ابن السکن عن الفربری عن البخاری کی روایت میں واقع ہوا ہے: ”قال أبو صالحی سلمویہ حدّثنا عبد اللّٰہ بن المبارک“․ (فتح الباری، ص:۵۵۷، ج:۴، دارالریان: القاہرة) علامہ عینی رحمہ اللہ نے بھی اس کے معتمد ہونے کے قول کو نقل کیا ہے۔ (عمدة القاری، ص:۱۲۳، ج:۱۲، داراحیاء التراث العربی: بیروت) علامہ محمد تاودی مالکی رحمہ اللہ نے بھی اسی کو معتمد قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو: حاشیة التاودی، ص:۴۶۸، ج:۲، العلمیة: بیروت․

اس تیسرے قول کو اختیار کرنے کی صورت میں ابوصالح سلمویہ کی ”صحیح بخاری“ میں ایک ہی حدیث ہونے کا قول وہم ہوگا؛ کیوں کہ اس صورت میں ان کی ”صحیح بخاری“ میں ایک نہیں؛ بل کہ دو حدیثیں ہوں گی، الاّ یہ کہ کوئی یہ تاویل کرلے کہ ”صحیح بخاری“ میں ان کی ایک ہی حدیث ہونے کا مطلب متصل حدیث کا ایک ہونا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم․

(باقی آئندہ)

$ $ $

 

-----------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5، جلد:100 ‏، رجب1437 ہجری مطابق مئی 2016ء