کرکٹ: اسلامی نقطئہ نظر سے

 

از:مولوی مرغوب الرحمن سہارنپوری 

گلی نمبر۲، آلی کی چنگی، سہارنپور        

 

اسلام ایک معتدل افراط و تفریط سے پاک و صاف مذہب ہے، نہ حدوں کو پار کرنے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی بالکل روکھا سوکھا مذہب ہے جیسا کہ بعض معاندین تعصب کی وجہ سے کہتے ہیں کہ دین اسلام تو صرف مصلی و تسبیح کا ہوکررہنے کو کہتا ہے جب کہ مذہب اسلام اعتدال کو پسند کرتا ہے، میانہ روی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے (خیر الامور اوسٰطہا- شعب الایمان ۵/۱۶۹) یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کھیل کود، سیر و تفریح کی صرف اجازت ہی نہیں بلکہ محسن انسانیت حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تفریحات کو اپنا یا بھی ہے حق جل مجدہ قرآن شریف میں یوں فرماتا ہے ما جعل علیکم فی الدین من حرج- سورہٴ حج:۷۸ (اللہ تعالیٰ شانہ نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی)۔

دوسری جگہ وہ ہم سے یوں گویا ہے  یرید الله بکم الیسر ولا یرید بکم العسر- بقرہ: ۱۸۵ (اللہ تعالیٰ شانہ تم پر آسانی کرنا چاہتا ہے اور تم پر سختی کرنا نہیں چاہتا) عید کے دن خوشی میں کچھ حبشی ڈھال اور نیزوں سے کھیل رہے تھے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا توٹھٹک گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”خذوا یا بنی ارفذة حتی تعلم الیھود والنصاری أن فی دیننا فسحة“ (جمع الجوامع :۱۲۱۸۱،فیض القدیر ۳۸۹۶) اے حبشی بچو! کھیلتے رہو تاکہ یہود و نصاری کو پتہ چل جائے کہ ہمارے دین میں وسعت ہے) اور بعض روایات میں یہ الفاظ آئے ہیں : ”الھوا والعبوا فانی اکوہ ان یری فی دینکم غلظة“ (فیض القدیر ۱۵۸۲)(کھیلتے کودتے رہو کیونکہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تمہارے دین میں سختی نظر آئے)۔

آپ سے بہت سے تفریحی کھیل ثابت ہیں مثلاً نشانہ بازی ، گھوڑ سواری، تیراکی، دوڑ، اچھے شعر سننا، سنانا وغیرہ اور آپ نے دیگر حضرات صحابہ کو ترغیب بھی فرمائی جیسے تیر اندازی، دوڑ، تیراکی وغیرہ وغیرہ۔

لیکن یہ بات یاد رہے وہ کھیل صرف ٹائم پاس کرنے کا ذریعہ نہ تھے؛ بلکہ کچھ دینی و دنیوی فوائد و ثمرات ان میں پنہا ہوتے تھے، ان کھیلوں سے یاد الٰہی سے غفلت، فرائض سے کوتاہی ، حقوق العباد کی ادائیگی سے تساہلی، وقت کا ضیاع، معاشی فقدان اور تعلیمی بحران کا تو سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا۔

حضرت امام بخاری نے فرمایا ”کل لھو باطل اذا شغلہ عن طاعة الله -( کتاب الاستیذان صحیح بخاری )

ہر لہو جب انسان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے غافل کردے تو وہ باطل (گناہ) ہے۔

مغربی دنیا نے پوری زندگی کو کھیل کو د بنا ڈالا جب کہ مذہب اسلام نے طبیعت میں فرحت نشاط اور بشاشت پیدا کرنے کے لیے کھیلوں کو ذریعہ مانا ہے؛ لیکن آج کل بعض ایسے کھیلوں کو ہوا دے دی گئی جو بہت سے نقصانات کا مجموعہ ہیں کرکٹ بھی انھیں میں سے ہے۔

 ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اس کھیل کو بڑھا وا دیا، وہ دنیا بھر میں مصنوعات کا فروغ چاہتی تھیں لہٰذا ان کو کوئی ایسی مشتہر چیز چاہئے تھی جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ وقت تک اپنی طرف متوجہ رکھ سکے، کرکٹ میں وہ تمام باتیں موجود تھیں؛ کیونکہ یہ کئی کئی دن تک کھیلے جاتے ہیں، لہٰذا اس نے کرکٹ کو شہروں شہروں، گلیوں گلیوں اور گھروں گھروں تک پہنچانے کے لیے کرکٹ کے میدان بنوائے، لوگوں کی توجہ انعامی اسکیموں کی طرف مبذول کرائی، کھلاڑیوں پر مال و زر کے دروازے کھول دیے، پھر کرکٹ کا جنون ان پر مسلط ہوگیا اور ساتھ ہی ساتھ ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اخبارات پر ان کی کوریج کا بندوبست کردیا، یوں دیکھتے دیکھتے ایک قلیل مدت میں کرکٹ عالمی کھیل بن گیا۔

کرکٹ کے مضر اثرات، ماحول و معاشرہ کو کس انداز سے بیکار کرتے ہیں اور ملک ووطن کے سرمایہ دارانہ نظام پر کتنا برا اثر ڈالتے ہیں، اس کی ایک سرسری رپورٹ پیش ہے۔

کرکٹ پراسی(۸۰) ارب ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں، ٹی، وی ، چینلز پر سال بھر میں بارہ لاکھ گھنٹے یہ کھیل دکھایا جاتا ہے، اس وقت دنیا کے سترہ کروڑ لوگ یہ کھیل کھیل رہے ہیں، دنیا میں کرکٹ انڈسٹری کی مالیت گندم کے بجٹ کے برابر ہے، ایک اندازے کے مطابق ایک ورلڈ کپ پر جتنی رقم خرچ کی جاتی ہے اگر وہ مریضوں پر خرچ کی جائے تو دنیا کے تمام مریضوں کو ڈاکٹر، نرس اور دوائیں مفت مل سکتی ہیں، ایک ورلڈ کپ کے خرچ سے پوری دنیا میں اسکول کھولے جاسکتے ہیں، صحرائے عرب کو کاشتکاری کے قابل بنایا جاسکتا ہے، چار ورلڈ کپ کے دوران جتنی رقم مشروبات ، برگروں اور ہوٹلوں پر خرچ کی جاتی ہے اس رقم سے چالیس کینسر کے اسپتال بنائے جاسکتے ہیں،دنیا کے ایک تہائی بھوکوں کو خوراک دی جاسکتی ہے ،پاکستان جیسے چار ملکوں کوقرضے سے پاک کیا جاسکتا ہے ،ورلڈ کپ میں جتنی بجلی خرچ ہوتی ہے وہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے چین جیسے ملک کی چھ ماہ کی برقی ضرورت پوری کرسکتی ہے ،ورلڈ کپ کے موقع پر جتنی شراب پی جاتی ہے وہ پورا برطانیہ مل کر پورے سال نہیں پیتا، اس پر جتنا عام شہریوں کا وقت ضائع ہوتا ہے اگر آدھی دنیا پورا مہینہ چھٹی کرے تو بھی اتنا ضائع نہیں ہوگا ،یہ ہیں کرکٹ کے اخراجات اور اس کے مضر اثرات۔

آئیے اب کرکٹ کے انفرادی ، دنیوی اور دینی نقصانات کا ایک جائزہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں لیا جائے۔

کومینٹری سننے میں بھی بہت سے نقصانات ہیں

(۱) میچ دیکھنے کی مستی میں بعض لوگ نماز ترک کردیتے ہیں؛ جب کہ اللہ تعالیٰ شانہ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ فرمارہا ہے کہ نمازوں کی حفاظت کرو حافظوا علی الصلوٰت (سورہٴ بقرہ:۲۳۸) دوسری طرف اللہ کا پیغمبرفرمارہا ہے من ترک الصلوة متعمداً فقد کفر (الترغیب و الترہیب بحوالہ طبرانی فی الاوسط)”جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا“گویامسلمان اور کافر کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز ہے، ادھر موذن صاحب حی علی الصلوة (آؤ نماز کی طرف) حی علی الفلاح (آوٴ کامیابی و کامرانی کی طرف) کہتے ہیں۔ ادھر ہم کھیل میں مستغرق رہتے ہیں۔ واذا نادیتم الی الصلوة اتخذوھا ھزوا ولعبا، سورہ مائدہ آیت:۵۸۔

اور جب تم نماز کی طرف پکارتے ہو تو وہ اسے ہنسی اور کھیل بناتے ہیں۔

(۲)         جماعت کی نماز چھوڑ دیتے ہیں، ترک جماعت کے متعلق آقائے نامدار حضرت محمد مصطفےٰ  صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھیے اور غور کیجیے :”قسم اس ذات کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے، میں نے ارادہ کیا تھا کہ کسی سے کہوں کہ لکڑیاں جمع کرے جب وہ اکٹھی ہوجائیں پھر کسی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو جماعت میں شامل نہیں ہوتے، ان کے گھروں کو آگ لگادوں؛ تاکہ وہ بھی گھروں کے ساتھ جل جائیں“۔ (بخاری و مسلم)

(۳)         لغو کام میں مشغول ہونا۔

(۴)         وقت کی ناقدری ہوتی ہے کیونکہ یہ محض وقت گذاری ہوتی ہے ، مذہب اسلام نے وقت ضائع کرنے کی سخت مذمت کی ہے اور اس کو کارآمد بنانے اوراچھے کاموں میں خرچ کرنے کی ترغیب بڑے اچھے اور موٴثر اسلوب میں دی ہے، حق جل مجدہ اپنی کتاب عظیم قرآن کریم میں وقت کی قسم کھاکر وقت کی قدر و قیمت کو ہمارے قلوب میں راسخ کرنا چاہتا ہے۔ (سورہ العصر:۱، الضحی: ۱،۲، اللیل: ۱،۲- الشمس:۳،۴)

دوسری جگہ کامیاب مومن کی صفات شمار کراتے ہوئے فرماتا ہے والذین ھم عن اللغو معرضون(سورة مومنون آیت:۳) (اور یہ وہ لو گ ہیں جوفضول باتوں سے اعراض کرتے ہیں)۔

حدیث شریف میں اسلام کی خوبی کو یوں اجاگر کیا گیا ہے: مِنْ حُسْنِ اسلامِ المرءِ ترکُہ ما لا یَعْنِیْہ (ابن ماجہ، ترمذی، شعب الایمان،جمع الجوامع)

آدمی کے اچھے اسلام کی علامت یہ ہے کہ وہ لا یعنی امور ترک کردے، حضرت علامہ جلال الدین سیوطی نے جمع الجوامع میں یہ حدیث شریف نقل فرمائی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر صبح آفتاب طلوع ہوتے ہی دن یہ اعلان کرتا ہے کہ آج اگر کوئی بھلائی کرسکتا ہے تو کرلے آج کے بعد میں پھر کبھی واپسی نہ آؤں گا۔ من استطاع ان یعمل خیرا فلیعملہ فانی غیر مکرر علیکم ابداً (بحوالہ شعب الایمان )

(۵)آخرت اوریاد الٰہی سے کرکٹ والا غافل ہوجاتا ہے، طاعت الٰہی سے غفلت اور یوم الحساب کو بھول بیٹھنے کی وجہ سے انسان اچھے کاموں کی طرف نہیں لپکتا اور برے کاموں سے پاؤں نہیں کھینچتا جس کو قرآن کریم اس طرح بیان کرتا ہے ”وما الحیوة الدنیا الا لعب و لھو ولدار الآخرة خیر للذین یتقون افلا تعقلون۔(سورہ انعام آیت ۳۲) اور نہیں ہے زندگانی دنیا کی مگر کھیل اور جی بہلانے کی اور آخرت کا گھر بہتر ہے پرہیزگاروں کے لیے کیا تم نہیں سمجھتے۔

(۶)بہت سے ضروری دینی و دنیوی کاموں کا نقصان ہوتا ہے ۔

(۷)نتیجہ برآمد ہونے پر لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں؛ کیونکہ ہر آدمی کی سوچ الگ ہوتی ہے، کوئی کسی ٹیم کا حامی ہوتا ہے تو کوئی دوسری ٹیم کا۔ قرآن کریم اس کی منظر کشی یوں کرتا ہے اور آپس میں نہ جھگڑو ورنہ بزدل اور کم ہمت ہوجاؤ گے تماری ہوا اکھڑ جائے گی اور رعب ودبدبہ جاتا رہے گا۔ ولا تنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم۔ (سورہ انفال آیت:۴۶)

(۸)پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں جو سراسر اسراف ہے، فضول خرچی اور اسراف کرنے والے کو قرآن کریم میں شیطان کا بھائی کہاگیاہے ان المبذرین کانوا اخوان الشیٰطین (سورہ بنی اسرائیل آیت:۲۷) بے شک بے موقع اڑانے والے شیطانوں کے بھائی بند ہیں، دوسری جگہوں میں اللہ تعالیٰ شانہ نے فضول خرچی کرنے والوں سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے ولاتسرفوا أنہ لا یحب المسرفین (سورہ انعام آیت۱۴۱، اعراف آیت:۳۱)

محسن انسانیت حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم نے بیجا مال اڑانے اور لٹانے سے احتراز کرنے کو فرمایا ہے، نھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم عن اضاعة المال (بخاری ، مسلم ، نسائی ، ابو داؤد)

(۹)اگر کومنٹری سننے کا آلہ اپنا ہو تو مزید ایک گناہ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

ٹی، وی پر میچ دیکھنا بھی خطرات سے خالی نہیں بہت سی خرابیوں کو ذکر کیا جاتا ہے۔

 ۱- قصداً تصاویر دیکھنا، یہ بات بھی ذہن نشین رہے ، ٹی وی پر بہت سی تصویریں ہوتی ہیں ہر ایک تصویر دیکھنے کا الگ گناہ ہوتا ہے ۔

۲- نامحرم عورتوں کو دیکھنا بھی کرکٹ کی دین ہے، معاشرہ کو برباد اور مفلوج کردینے والی قبیح اور شنیع شئے زنا ہے اور یہ اس کا پیش خیمہ ہے قرآن وسنت میں اس سے بچنے کے لیے بہتر اور احسن طریقے و نسخے تجویز ہیں ، فرقان حمیدمیں حفظ ماتقدم کے طور پر فرمایا: قل للمومنین یغضوا من ابصارھم ویحفظوا فروجھم ذلک ازکی لھم (سورة نور آیت ۳۰) آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ صفائی کی بات ہے، حضرت حسن بصری مرسلاً آپ کا یہ قول نقل فرماتے ہیں لعن الله الناظر والمنظور الیہ۔ (بیہقی فی شعب الایمان )اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اس شخص پر جو قصداً (بلا کسی عذر شرعی کے ستر یا اجنبی عورت کو) دیکھنے والا ہو اور اس پر جس کو دیکھا جائے، حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ شیطان آدمی کو بہکانے سے کبھی مایوس نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ عورتوں کے ذریعہ اس کے پاس آتا ہے کہ میرے نزدیک عورتوں (کے فتنہ) سے زیادہ خطرناک کوئی چیز نہیں ہے۔

۳- جماعت کی نماز کا چھوڑ دینا اور جیسا کہ اوپر مذکور ہوا بعض حضرات بالکل نماز پڑھتے ہی نہیں۔

 ۴-قیمتی وقت کا ضائع کرنا۔

۵- عبث کا م میں لگنا ۔

۶- بہت سی ضروریات دینی و دنیوی کے چھوڑنے میں معاون ہوتا ہے۔

۷- ٹی، وی سے محبت ، لگاؤ اور انسیت پیدا ہوتی ہے۔

۸- بہت سے گناہ وجود میں آتے ہیں۔

۹- گناہ کی نحوست سے رزق کی برکت جاتی رہتی ہے۔

۱۰- ٹی ، وی سے دلچسپی رکھنے والا بھلائی کے کاموں سے محروم رہتا ہے۔

۱۱- کھیل ختم ہونے پر ہار جانے والی ٹیم کے چاہنے والوں کا جھلاجانا اور جیتنے والی ٹیم کے چاہنے والوں کا خوشی میں جھومنا، لڑائی مول لینے کا سبب ہے۔

۱۲- اللہ تعالیٰ شانہ اور آخرت کی یاد سے دور ہونا۔

۱۳- اگر ٹی، وی اپنا ہو تو مزید ایک اور گناہ میں اضافہ ہوجاتا ہے جب کہ مفتیان عظام نے تحریر فرمایا ہے کہ غفلت میں ڈالنے والے سامان و آلات کا گھر میں رکھنا مکروہ تحریمی ہے ؛جب کہ یہ تو اس کو خود بھی استعمال کررہا ہے اور جو دوسرے حضرات اس کے ٹی ، وی سے مستفیض ہو رہے ہیں ان کا گناہ بھی اپنے سر لیتا ہے ۔

۱۴- آتش بازی کی جاتی ہے۔

     اسٹیڈیم میں بیٹھ کر نظارہ کرنا بھی بہت سی قباحتیں اپنے ساتھ لیے ہوتاہے، مثال کے طور پر

 (۱) نامحرم عورتوں کا نظارہ کرنا۔

 (۲) مرد و زن کا اختلاط ۔

محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم لمحہ بھر کے لیے مردوزن کے اختلاط کو گوارا نہیں فرماتے تھے اور یہاں اختلاط گھنٹوں کے حساب سے نہیں؛ بلکہ دنوں کے حساب سے ہوتا ہے ،حدیث شریف میں موجود ہے کہ” ایک مرتبہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکل رہے تھے دیکھا کہ مرد اور عورتیں ایک ہی ساتھ راستہ میں چل رہے ہیں تو آپ نے عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا :پیچھے ہٹ جاوٴ تم راستہ کے کناروں کو لازم پکڑ لو“۔

 (۳) نماز باجماعت یا بالکل نماز ترک کردینا ۔

(۴) دنیا کی سب سے قیمتی شئے وقت کو برباد کرنا۔

(۵) لایعنی کام میں لگنا ۔

(۶) دینی و دنیوی بہت سی ضروریات کو پسِ پشت ڈال دینا۔

 (۷) اسراف کرنا۔

(۸) آخرت اور آخرت میں حساب لینے والے کی یاد سے بے بہرہ رہنا ۔

(۹) فریقین کے محبین کا لڑنا جھگڑنا۔ عقلاً بھی یہ معیوب ہے کہ چند آدمی کھیلتے رہیں اور بہت سے لوگ ٹکٹکی باندھے انھیں دیکھتے رہیں، کھلاڑیوں کا مقصد اپنے ملک کا نام روشن کرنا، شہرت حاصل کرنا، پیسہ کمانا، واہ واہی لوٹنا اور اچھی کارکردگی پر انعام حاصل کرنا وغیرہ۔

ایک مرتبہ جرمنی و فرانس کے مابین کرکٹ میچ ہوا تو جرمنی کے سربراہ ہٹلر کو بھی میچ دیکھنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ ہٹلر میچ دیکھنے اسٹیڈیم پہنچا ،میچ شروع ہوا اور چلتا رہا یہاں تک کہ شام ہوگئی، ہٹلر اکتا گیا اور چلا گیا ٹیم کے ریفری سے دریافت کیا میچ کون جیتا؟ ریفری نے کہا سر! میچ ابھی جاری ہے ہارجیت کا فیصلہ چار دن کے بعد آئے گا۔ ہٹلر غصہ میں جھلا گیا اور کہنے لگا یہ کوئی کھیل ہے! دیکھنے والے پورے دن کے لیے بیکار ہوجاتے ہیں اور نتیجہ پھر بھی ہاتھ نہیں آتا، اور چار چار دن کاانتظار کرنا پڑتا ہے۔ بند کرو اس کھیل کو، ہٹلر نے کرکٹ پر پابندی عائد کردی، جرمنی کا وہ دن اور آج کا دن ہے کہ جرمنی نے قومی ٹیم بنانے کی غلطی نہیں کی؛ جب کہ اس وقت جرمنی کی ٹیم یوروپ کی نمبر ون ٹیم تھی۔

سپرپاور امریکہ کا بھی یہی حال ہے کہ امریکہ کے صدر روزویلٹ نے کہا کرکٹ لمبا اور سست کھیل ہے، اس سے وقت ضائع ہوتا ہے، دیکھنے والوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور لوگ اس کے ہوکر رہ جاتے ہیں اگر امریکہ کو ترقی کرنی ہے تو ایسے کھیلوں سے دور رہنا ہوگا اس کے بعد امریکہ میں پابندی لگادی اور آج بھی کرکٹ امریکہمیں نہیں ہے۔

ایسے ہی بہت سے ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ممالک ہیں جن کی کوئی کرکٹ ٹیم نہیں۔

$ $ $

 

--------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ6، جلد:100 ‏، شعبان1437 ہجری مطابق جون 2016ء