حضرت الاستاذ مفتی محمد حنیف صاحب کی یاد

 

 

از:مولانا اشتیاق احمد قاسمی

مدرس دارالعلوم دیوبند

 

درمیانہ قد، نہ موٹے نہ بالکل دُبلے؛ قدرے سانولارنگ؛ اس پرشب بیداری کی دمک؛ گول چہرہ؛ کتابی رُخسار؛ قدرے بڑی آنکھیں؛ اس پر چشمہ؛ نیچے کاہونٹ قدرے دبیز؛ ٹھوڑی پر ہلکی سی ڈاڑھی؛ اس میں چند بال سفید؛ سفید کرتا؛ سفید چوڑی دار پاجامہ؛ سفید گول سرسے چپکی ہوئی ٹوپی؛ سرپر سفید رومال؛ پاؤں میں ہلکی چپل، چال میں ادنیٰ سی لنگڑاہٹ اور بغل میں کوئی کتاب؛ کبھی ”احیاء علوم الدین“، کبھی ”فتح القدیر“ اور کبھی ”بخاری شریف“ کی شرح ”عمدة القاری“ یہ ہیں حضرت الاستاذ مفتی محمد حنیف صاحب شیخ الحدیث مدرسہ ریاض العلوم گورینی، جون پور (یوپی)؛ جن کے بارے میں بارہا اپنے مشفق ومربی استاذ گرامی قدر حضرت مفتی عبدالقادر صاحب بستوی مدظلہ، صدرالمدرسین مدرسہ قاسم العلوم منگراواں،اعظم گڑھ سے سنتا رہا، شرفِ زیارت اس وقت حاصل ہوا، جب چہارم عربی کے لیے گورینی میں داخلہ ہوا، حضرت مفتی صاحب مرحوم بخاری شریف پڑھانے کے لیے درس گاہ کی طرف جاتے، یا بکری کی دیکھ بھال کے لیے اِدھر اُدھر چلتے نظر آتے تو تھوڑی دیر کے لیے نگاہ ان پر ٹک جاتی تھی۔ اُن کی شخصیت میں کشش تھی، رعب تھا، عظمت تھی، وہ ہر ایک کے محبوب تھے، ریاض العلوم کے درودیوار بھی ان سے محبت کرتے تھے۔

سوانحی خاکہ

حضرت مفتی صاحب اپنے نانہال پسری، جون پور میں پیداہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں ہی حاصل کی، ناظرہ قرآن پاک اور اردو اچھی طرح پڑھنے لگے، گاؤں کے اسکول میں داخلہ لے کر پرائمری درجہٴ چہارم میں بارہ اسکولوں کے طلبہ میں پہلی پوزیشن حاصل کی، اساتذہ، طلبہ اور عوام نے بڑی تعریفیں کیں، جج اور کلکٹر بننے کی پیش گوئی کی؛ لیکن حضرت نے اس کے بعد تعلیم موقوف کردی، بکریاں خرید لیں، مسجد کی خدمت اور نماز کا اہتمام کرنے لگے اور بس۔ ایک بار بھائی منیر (گاؤں کے ایک نیک آدمی) سے تصوف کے بارے میں سوالات کیے، انھوں نے حضرت تھانوی کی ”راحةُ القلوب“ پڑھنے کے لیے دی، بس کیاتھا کہ حالت بدل گئی، ہر وقت روتے رہتے تھے، لوگ یہ سمجھتے تھے کہ شاید شادی نہ ہونے کی وجہ سے روتے رہتے ہیں؛ اس لیے کہ خاندان میں دو ہم عمروں کی شادیاں ہوچکی تھیں، اسی کیفیت میں حضرت تھانوی کو خط لکھا، حضرت نے اپنے خلفاء اور اصحابِ تربیت کی فہرست بھیجی اور خود ضعیفی کا عذر کیا، ان میں سے شاہ وصی اللہ کا آپ نے انتخاب فرمایا اور مزدوری کرکے ایک رہبر اور اپنا کرایہ جمع کیا، خدمت میں پہنچے، پھر واپس آگئے، دوبارہ جاکر اپنے سارے احوال سامنے رکھے، حضرت نے پوچھا: تمہارے والد صاحب کتنے ماہ وار لے کر تعلیم وتربیت کے لیے چھوڑدیں گے؟ عرض کیا: پندرہ روپے، حضرت نے اتنا دینا منظور فرمالیا، اب گھر سے کھانا آنے لگا، مسجد میں موٴذنی کرنے، بکری چرانے کے ساتھ تعلیم وتربیت حاصل کرتے رہے؛ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ظاہر وباطن کے بہت سے علوم عطا فرمائے، اور آپ نے علم ومعرفت کی اشاعت کو ہی اوڑھنا بچھونا بنالیا، اسی حال میں عالمِ فانی سے عالم جاودانی میں چلے گئے، تقریباًسوسال سے زیادہ کی عمر پائی، مدرسہ ریاض العلوم گورینی، جون پور سے بیت العلوم سرائے میر، اعظم گڑھ تشریف لے گئے، پھر آخر میں مدرسہ دارالابرار جَوماں، پھول پور اعظم گڑھ میں رہے، وہیں طبیعت ناساز ہوئی اور وقتِ موعود آگیا، ۲۷/جمادی الاولیٰ ۱۴۳۵ھ شنبہ کی شب ۹/بجے داعیِ اجل کو لبیک کہا، تدفین مدرسہ کے احاطے میں عمل میں آئی انا للہ وانا الیہ راجعون

سبق کا انداز

میں نے حضرت سے ”ہدایہ ثالث“ پڑھی ہے، حضرت سے پڑھنے کی تمنا دو سال سے تھی، چہارم عربی میں داخلے کے بعد شرح وقایہ اور اگلے سال ہدایہ اولین (پنجم عربی) پڑھ کر مشکوٰة شریف اور جلالین شریف کے ساتھ ہدایہ آخرین (ششم عربی) پڑھنے کا انتظار تھا۔ گھنٹہ لگنے کے بعد میرے بعض ساتھی حضرت مفتی صاحب کے حجرے میں جاتے، حضرت سبق کے لیے تیار رہتے، ہدایہ پڑھانے کے لیے ”فتح القدیر“ اپنے سینے سے لگاتے اور ہلکی سی لنگڑاہٹ کے ساتھ درس گاہ کی طرف روانہ ہوتے، کبھی ہم لوگوں کے اصرار پر کتاب دے بھی دیتے، درس گاہ میں قدم رکھتے ہی زور سے سلام کرتے، سارے طلبہ جواب دیتے اور مسکراہٹوں کے ساتھ استقبال کرتے، حضرت اپنی نشست پر آتے ہی چاروں طرف نگاہ ڈالتے حاضری کا یہی طریقہ تھا، اگر کوئی غیر حاضر ہوتا تووجہ دریافت کرتے، پھر عبارت پڑھی جاتی، بغور سنتے اور غلطی بتاتے، پھر پہلے صورتِ مسئلہ سمجھاتے، طبیعت میں مزاح بہت تھا، معاملات کے ابواب میں صورتِ مسئلہ کو بڑے دلچسپ انداز میں سمجھاتے تھے، فریقین کی نقالی بھی کرتے، جھگڑے کی بھی، دیہاتی عورتوں اور مردوں کی بھی نقالی کرتے، خالص پوربی یوپی کی زبان بولتے اس انداز سے کہ ان کو کوئی عالم بھی تصور نہیں کرسکتا تھا، ان کے ایک ایک جملے سے درس گاہ میں ہنسی اور مسکراہٹ پھیل جاتی تھی، فاش باتوں کو بولنے سے بھی احتراز نہ کرتے، باتیں بالکل تحقیقی اور دوٹوک بتاتے تھے، اصول وضوابط اور قواعد فقہیہ پر منطبق کرتے چلے جاتے، کبھی کبھی فتح القدیر کی عبارت بھی سناتے ان کے سبق میں کسی بھی طالب علم کو تشنگی باقی نہیں رہتی، اتنا پُرمزاح اور اتنا تحقیقی کسی کا سبق نہ ہوتا تھا۔ درمیان درمیان میں اصلاحِ باطن سے متعلق باتیں بھی بتاتے رہتے تھے، پورا ایک گھنٹہ کیسے گزرجاتا کسی کو احساس تک نہ ہوتا تھا۔ معاملات کی نئی شکلوں سے بھی خوب واقف تھے، سبق سے اندازہ ہوتا کہ نئے مسائل ان کے نزدیک بالکل پانی پانی ہیں، ہر ایک کو فقہی اصول اور ضوابط پر منطبق کرکے سمجھاتے تھے۔

دورہٴ حدیث شریف کے طلبہ کو بخاری شریف پڑھاتے تھے، درس گاہ میں ”عمدة القاری“ ساتھ لے کر جاتے اور سال بھر ایک ہی انداز سے پڑھاتے، اخیر میں جب زیادہ حصہ باقی رہ جاتا تو سرداً پڑھاتے، ان کو بخاری شریف سے بڑی مناسبت تھی، انھوں نے حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب الہ آبادی سے بخاری شریف پڑھی تھی، جو دس سال میں پوری ہوئی۔

ایک موقع سے سنایا کہ جب میں نے بخاری شریف شروع کی تو حضرت نے پوچھا: پچاس صفحے سمجھ کر پڑھوگے یا پانچ سو صفحے بلا سمجھے؟ تو میں نے کہا: سمجھ کر پڑھوں گا، چاہے مقدار میں کتنی ہی کم ہو، تو حضرت نے فرمایا کہ پھر تیار ہوجاؤ؛ چنانچہ روزانہ شروحِ بخاری سے تیاری کرکے جاتا اور حضرت کے سامنے پڑھتا، اس طرح دس سال میں بخاری شریف پوری ہوئی اور حضرت نے فرمایا: میرا جی چاہتا ہے کہ کوئی مدرسہ ہوتا اور اس میں تم بخاری شریف پڑھاتے!

اس ملفوظ کے بارے میں اہل علم کہتے ہیں کہ ریاض العلوم گورینی حضرت الہ آبادی کی خواہش کی تعبیر ہے اور اس میں حضرت مفتی محمد حنیف صاحب کابخاری پڑھانا بھی۔

سال کے اخیر میں فجر بعد بھی سبق ہوتا تھا، اس میں غیرحاضری کرنے والوں کی بڑی دُرگت بناتے تھے اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھے بغیر اگر کوئی سبق میں آتا تو اس کو بھی خوب تنبیہ فرماتے اور اگر کوئی جھوٹ موٹ بولتا کہ نماز جماعت سے پڑھی ہے تو پوچھتے: امام نے کون کون سی سورت پڑھی تھی؟ میں دیکھتا کہ بعض ایسے طلبہ ہم لوگوں سے پوچھتے کہ آج امام صاحب نے کون کون سی سورت پڑھی تھی؟ حضرت مفتی صاحب باطنی اصلاح کی طرف بھی خوب توجہ دیتے تھے۔ سال کے اخیر میں بخاری شریف ختم ہوتی کسی کو معلوم ہوتا اورکسی کو نہیں، بعض وقت کچھ طلبہ دعا میں شریک ہونے کے لیے جمع بھی ہوجاتے تھے۔

ان کے سبق کی ایک خاص بات یہ بھی دیکھی کہ اگر کوئی مہمان آجاتا تو بھی سبق کا انداز، گفتگو کااسلوب وہی رہتا، بالکل فرق نہ پڑتا، جس طرح ظاہر وباطن کو ایک جیسا رکھنے کی تلقین فرماتے، ویسے ہی رہتے بھی تھے۔

تربیت کا انداز

حضرت مفتی صاحب طالب علم کی تربیت پر توجہ دیتے تھے، وہ یہ چاہتے تھے کہ طالب علم اُن کو دیکھ کر ان جیسا بننے کی کوشش کرے، ان کے شب وروز طلبہ کے سامنے تھے، ان کا دروازہ بھی شاید کبھی بند نہ ہوتا تھا، اسی کے ساتھ منکر پر نکیر بھی کیا کرتے تھے، طالب کی وضع قطع کو بھی بغور دیکھتے تھے، ڈاڑھی، ٹوپی، لباس پوشاک کو بزرگوں جیسا رکھنے کی تلقین کرتے، کسی کے بال بڑے ہوتے تو چھوٹے کرانے کا اشارہ فرماتے، اگر کپڑے میں زیادہ کڑھائی نظر آتی تو اس پر متوجہ کرتے کہ یہ طالب علمانہ شان کے خلاف ہے۔

کبھی کبھی نماز کے لیے جگانے آتے، خصوصاً ظہر کی نماز کے وقت کمروں اور درس گاہوں کے پاس سے گزرتے اور کوئی سوتا ہوا ملتا تو جگاتے، مفتی صاحب اپنے کمرے سے نکلتے تو طلبہ میں بھگدڑ مچ جاتی، کبھی اپنی چپل دونوں ہاتھوں میں لے کر چلتے اور جو سویا ہوا مل جاتا اس کو بجاتے، پہلے چلاتے جب نیندکھل جاتی تو دونوں چپلوں سے مارنے کے لیے دوڑاتے، اسی طرح مسجد پہنچتے اور حوض پر کوئی وضو کرتا ملتا تو اس کو بھی دوڑاتے، ڈانٹتے کہ پہلے ہی سے نماز کی تیاری کیوں نہ کی؟

ایک بار ایک استاذ صاحب جو ان کے شاگرد تھے، ان کو بھی دوڑایا، ڈانٹا، اس پر کسی نے بعد میں کہا کہ حضرت! آپ نے فلاں استاذ کو بھی نہیں چھوڑا! کہنے لگے: ماما! جب عذاب آتا ہے تو عام ہوتا ہے (ماما، ان کا تکیہ کلام تھا، عزیز، خادم اور نوکر کے معنی میں)

معمولات

حضرت مفتی صاحب رحمة اللہ علیہ کے معمولات کو صحیح ڈھنگ سے وہی خادم بیان کرسکتا ہے جو حضرت کے قریب رہتا تھا اور ان کے شب وروز کو بہ غور دیکھتاتھا، میں تو کبھی کبھی ملاقات کرنے کمرے جاتاتھا (اس کے لیے واسطہ میرے دوست مفتی محمد طلحہ بنتے تھے، وہ میرے مربی بھی تھے اور نگراں بھی، بیگوسرائے کے رہنے والے بالکل کالے کلوٹے؛ لیکن دل کے بالکل گورے، جن کو کئی بار حضور اکرم … کی زیارت نصیب ہوئی، طالب علمی کے زمانے میں ان کی کرامت خوب دیکھی گئی، وہ مفتی صاحب کے عاشق تھے، حضرت مفتی صاحب کس وقت بیدار ہوتے تھے، عام طور سے کسی کو معلوم نہ ہوتا۔ بکریوں کو باہر کرتے ان کو پیشاب کراتے، ان کا باڑہ صاف کرتے، ان کے کھانے کے لیے بھوسہ وغیرہ تیار کرکے دیتے، کبوتر کودیکھتے، پھر نہاتے دھوتے۔ ذکر واذکار سے فارغ ہوتے اور اگلی صف میں پہنچ کر فجر کی نماز ادا فرماتے۔ تعلیمی گھنٹوں کی ترتیب میں جس جماعت کی کتاب ہوتی پڑھاتے،افتاء کے طلبہ کمرے جاکر پڑھتے تھے، ہدایہ اور بخاری شریف حضرت درس گاہ میں آکر پڑھاتے تھے، پڑھانے کے بعد بکریوں کی دیکھ بھال میں لگ جاتے، دوپہر کو کھانا کھاتے ہی قیلولہ کرتے، پھر ظہر بعد بھی پڑھاتے یا مطالعہ کرتے، کبھی کسی فتویٰ پر دستخط کرتے بھی میں نے دیکھا، مغرب بعد یا عشاء بعد کچھ مطالعہ کرتے، پھر سوجاتے تھے۔

جمعرات کا معمول

حدیث شریف میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا معمول لکھاہے کہ وہ ہفتہ میں ایک دن صحابہ وتابعین کے سامنے بیان فرماتے تھے، اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے حضرت مفتی صاحب ہرجمعرات کو بلاناغہ ظہر کی نماز کے بعدعصر کے پہلے پہلے تک بیان فرماتے تھے، اس میں قرب وجوار کے بہت سے اہل ذوق آجاتے تھے، اس میں حضرت کے مرید زیادہ ہوتے تھے۔ طلبہ کی بھی اچھی خاصی تعداد شریک ہوتی تھی۔

اس میں ”احیاء علوم الدین“ اپنے سامنے رکھتے اور کوئی ایک جگہ سے پڑھتے پھر بیان شروع ہوجاتا، اکثر ایسا بھی ہوتا کہ دوبارہ کتاب کی طرف دیکھنے کی نوبت نہیں آتی؛ لیکن معمول ہمیشہ کتاب سامنے رکھ کر بیان کرنے کا تھا، البتہ! جلسہ میں بلا کتاب دیکھے گھنٹوں بیان فرماتے تھے۔

جمعرات کی مجلس کو میرے ایک درسی ساتھی جناب مفتی ابوالکلام بارہ بنکی (جوب لکھنوٴ میں ہیں) رکارڈ کرکے کاپی میں نقل کرتے تھے، اک ضخیم کاپی تیار ہوگئی تھی، معلوم ہوا کہ وہ جناب مفتی محمد حمزہ گورکھپوری مدظلہ کے پاس ہے، اس کاپی میں علوم ومعارف کا اچھا خاصا ذخیرہ جمع ہے، خدا کرے مرتب ہوکر شائع ہوجائے؛ تاکہ عام قارئین اس سے مستفید ہوں۔

مزاج ومذاق

حضرت مفتی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے حد درجہ سادگی عطا فرمائی تھی، ان کا لباس، کرتا، پاجامہ رومال اور ٹوپی تھا، پاجامہ چوڑی دار پہنتے تھے اور ٹوپی پانچ کلی پسند کرتے تھے؛ اس لیے کہ وہ سرسے چپکی ہوتی ہے، سرسے چپکی ہوئی ٹوپی سنت کے زیادہ قریب ہے۔

اپنا کپڑا خود دھوتے تھے، فجر سے پہلے ہی نہادھوکر تروتازہ ہوجاتے تھے۔ زمین پر ہی سوتے تھے، ان کے کسی طرز سے کبھی تکلف محسوس نہ ہوا؛ بلکہ فقر ومسکنت ٹپکتی تھی، ابو عبیدہ ابن الجراح کی زندگی یاد آتی تھی۔

حضرت تھانوی کے عاشق تھے، ان سے ہی مکاتبت کے ذریعہ آپ کی زندگی میں تبدیلی آئی اور بڑی عمر میں پڑھنا شروع کیا۔

فتاویٰ اورمسائل میں متداول عربی کتابوں سے استفادہ کرتے، مثلاً رد المحتار، فتح القدیر، بدائع الصنائع، عالم گیری، البحرالرائق اور اکابر کے فتاویٰ اور ان کی آراء کا بھی بہت زیادہ پاس ولحاظ فرماتے تھے، ان میں بھی حضرت تھانوی کی رایوں کو بڑی اہمیت دیتے تھے، حضرت مفتی محمد شفیع دیوبندی کی تصانیف بھی سامنے رکھتے تھے۔

طلبہٴ افتاء کی تربیت بھی اسی طرح کرتے تھے کہ ایک طرف وہ محقق ہوں، دوسری طرف اسلاف واکابر کے نہج کو نہ چھوڑیں۔

لطیفہ سنجی

حضرت مفتی صاحب مرنجا مرنج شخصیت کے حامل تھے، خوش رہتے اور خوش رکھتے تھے، ان کی ایک ایک تعبیر پر ہنسی آتی تھی، پوربی اردو کی ٹھیٹھ دیہاتی اور وہ بھی بالکل صریح تعبیرات، حضرت بعض ایسے فاش الفاظ بھی بولتے تھے جو عام لوگ نہیں بولتے، اسی لباس میں انھوں نے اپنی بزرگی چھپا رکھی تھی، قرب وجوار کے دیہاتی بھی حضرت کی مجلس میں خوب آتے تھے۔

وعظ کی مجلس میں ایک صاحب نے دعا کی درخواست کی تو مفتی صاحب نے برجستہ فرمایا: اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائیں! دعا تو بہت اچھی تھی؛ مگر زندہ کویہ دعا عام طور سے نہیں دی جاتی؛ اس لیے درخواست کرنے والا، بالکل دم بخود رہ گیا۔

رحم وکرم

حضرت مفتی صاحب رحمة اللہ علیہ کی طبیعت میں تصلب اور جماؤ تھا، ان کو شریعت کے اصول وضوابط پر اترے ہوئے موقف سے کوئی ہٹا نہیں سکتا تھا، اسی کے ساتھ رحم وکرم کا جذبہ بھی خوب سے خوب تھا، طلبہ کو اپنی اولاد جیسی محبت دیتے تھے، مختلف ضرورتوں میں ان کی مدد بھی کرتے تھے؛ البتہ اس میں اخفا بہت زیادہ ملحوظ رکھتے تھے۔

بغض فی اللہ

حضرت مفتی صاحب بڑے با اخلاق، خوش مزاج اور مرنجا مرنج شخصیت کے حامل تھے، ان کی مجلس میں بڑا جی لگتا تھا، گم صم نہیں رہتے تھے، بہت سی باتوں کو برداشت کرلیتے تھے؛ لیکن جو بات شریعت کے خلاف ہوتی، اُسے ہرگز برداشت نہ فرماتے، اگر کوئی مستفتی اپنے موافق جواب حاصل کرنے کی کوشش کرتا تو اس پر سخت ناراض ہوجاتے، اسے اپنی مجلس سے بھگادیتے، اگر کسی پر زیادہ غصہ آتا تواس کو مدرسہ کے گیٹ سے باہر کردیتے، ایک بار ایک مستفتی اسی قسم کا آیا تھا، سناگیاکہ اس کی کار کو بچوں سے دھکا دلاکر حوض میں ڈلوادیا۔ واللہ اعلم

ایک آدمی آیا اس نے زبان سے سلام کرنے کے بجائے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا، اس خلافِ سنت طریقہ پر حضرت کو غصہ ہوا، حضرت نے بائیں ہاتھ سے داہنے ہاتھ کی کہونی پکڑی اور مٹھی باندھ کر داہنا ہاتھ ہلایا، اس پر اس آدمی نے پوچھا: حضرت! یہ کیا طریقہ ہے؟ حضرت نے فرمایا: آپ نے تھوڑاہاتھ دکھایاتو میں نے پورا ہاتھ دکھادیا، اس نے کہا: حضرت! میں نے تو سلام کیا، حضرت نے فرمایا: سلام زبان سے کیا جاتا ہے، آپ سامنے تھے، آپ نے زبان سے تو سلام کیا نہیں صرف ہاتھ ہلادیا، یہ طریقہٴ سنت کے خلاف ہے۔ اگر کوئی دور ہو آواز نہ پہنچ سکتی ہو تو اشارہ کرنا جائز ہے۔ قریب رہ کر صرف اشارہ کرنا سلام کے قائم مقام نہیں ہوتا۔

ایک بارایک صاحب نے دیہات میں ایک مسجد بنائی اور وہاں جمعہ کی نماز قائم کرنا چاہ رہے تھے، انھوں نے اس کے لیے ایک کتاب لکھی ”دیہات میں جمعہ کے جائز ہونے کی تحقیق“ جب یہ کتاب حضرت مفتی صاحب نے دیکھی تو اُلٹی پلٹی دلیلوں سے پُرتھی، حضرت نے قلم اٹھایا اور ایک کتاب لکھی: ”القِریٰ لمن یُجوِّزُ الجمعةَ فی القُریٰ“ یعنی دیہات میں جمعہ کے ناجائز ہونے کی تحقیق۔

اس کتاب میں حضرت نے اپنے بغض فی اللہ والی طبیعت کا خوب مظاہرہ فرمایا ہے ۔ کتاب پڑھنے کے لائق ہے، پھر صاحب کتاب نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا۔

ناچیز راقم الحروف نے مدرسہ ریاض العلوم گورینی جون پور میں تین سال تعلیم حاصل کی ہے، حضرت مفتی صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع نصیب ہوا ہے، عموماً جمعرات کو مغرب یا عشاء بعد حضرت کی خدمت میں چلاجاتاتھا، ان کی خدمت میں کچھ دیر گزارکر آتا، ان کی باتیں سنتا، ان سے کچھ سوالات کرتا اور ان کے معمولات کو اپنے ذہن ودماغ میں بساتا تھا۔

دارالعلوم دیوبند کی بخاری شریف کا سوال نامہ

ریاض العلوم گورینی میں مشکوٰة شریف پڑھ کر میں دارالعلوم دیوبند آگیا تھا، ارادہ تھا کہ یہیں سے سند فراغ حاصل کروں؛ چنانچہ سال پورا ہوا، اس وقت ناظم تعلیمات حضرت الاستاذ مولانا قمرالدین صاحب گورکھپوری مدظلہ العالی تھے، معلوم ہوا کہ بخاری شریف کاپرچہ حضرت مفتی محمد حنیف صاحب رحمة اللہ علیہ سے بنوایاگیا ہے، اس سے ہم لوگوں کو بڑی خوشی ہوئی۔ پرچہ دارالعلوم دیوبند کے معیار کے مطابق تھا، نہ بالکل سہل اورنہ اتنا مشکل کہ حل نہ ہوسکے۔

ریاض العلوم گورینی میں ہماری ”قطبی“ کا سوال نامہ بھی حضرت مفتی صاحب نے بنایا تھا اور کاپی بھی خود چیک کی تھی، نمبر بہت اچھا دیتے تھے، نمبر دینے میں بخیل نہیں تھے۔

دارالعلوم وقف دیوبند سے تدریس کا خط

حضرت مفتی صاحب ہندوستان کے لائق وفائق گنے چنے مفتیوں میں سے تھے اور حدیث شریف کے منجھے ہوئے مدرس بھی، جب حضرت نے مدرسہ ریاض العلوم گورینی سے علاحدگی اختیار کرلی اور بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ، چلے گئے، تو دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم حضرت اقدس مولانا محمد سالم صاحب دامت برکاتہم نے حضرت مفتی صاحب کو ایک طویل خط لکھا اوراس میں دارالعلوم آنے اور بخاری شریف پڑھانے کی خواہش ظاہر فرمائی، وہ خط پورے ایک صفحہ کا تھا، اس کے ایک ایک جملہ میں حضرت مفتی صاحب کی قدر افزائی نظر آتی تھی؛ لیکن حضرت مفتی صاحب چوں کہ حضرت مولانا ابرارالحق صاحب کے حکم یا مشورہ سے بیت العلوم گئے تھے، اور زندگی بھر رہنے کا ارادہ کرلیاتھا؛ اس لیے آپ نے ایک طویل مکتوب کے ذریعہ حضرت مولانا محمد سالم صاحب سے معذرت کرلی، ان دونوں خطوں کی فوٹوکاپی مجھے حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب بستوی شیخ الحدیث مدرسہ ریاض العلوم گورینی نے دی تھی؛ لیکن وہ ضائع ہوگئی، اب جب مضمون لکھنے بیٹھا ہوں تو اس کا بہت افسوس ہورہا ہے۔

حضرت مفتی صاحب سے مضمون نگاری کی درخواست

میرے ذہن میں یہ بات رہتی تھی کہ اچھے علم کے ساتھ اچھی قلم کاری بھی ضروری ہے، علم وشریعت کی اشاعت یاتو آدمی زبان سے کرسکتا ہے یا قلم سے، زبان کاایک دائرہ ہے وہ محدود ہے، لیکن قلم کا دائرہ محدود نہیں، قلمی خدمات میں ایک قسم کا استمرار اور خلود ہوتا ہے؛ جب کہ زبان سے کی گئی خدمات جلد حادث ہوجاتی ہیں، یہ جذبہ اس وقت پیدا ہوا جب میں نے حضرت استاذ مفتی عبدالقادر صاحب بستوی مدظلہ کی تصنیف ”شراب ایک زہر قاتل“ دیکھی، وہ کتاب گورینی کی طالب علمی کے زمانہ میں لکھی گئی تھی، میرا جی چاہ رہا تھا کہ کسی استاذ صاحب سے پہلے مضمون نگاری سیکھوں اس کے بعد تصنیف سیکھوں گا۔ چھوٹے چھوٹے مضامین لکھنا پہلے سے حضرت الاستاذ سے سیکھ چکاتھا۔ مزید ترقی کے لیے بہت سوچ کر حضرت مفتی محمد حنیف صاحب کے پاس گیا اور اپنی خواہش کا اظہار کیا، حضرت نے پہلے تو فرمایا: ”مجھے مضمون نگاری نہیں آتی“ میں نے اصرار کیا اور کہا: حضرت! آپ کیسے انکار کررہے ہیں آپ کی تو فلاں فلاں کتاب ہے، وہ میں نے پڑھی ہیں، اس پر حضرت نے فرمایا: ٹھیک ہے، جب دورہٴ حدیث شریف کے بعد افتاء پڑھوگے تو سکھادوں گا۔ میں نے اپنے جی میں کہا:ارادہ تو دیوبند جانے کا ہے، فضیلت کے بعد وہیں افتاء بھی پڑھوں گا (ان شاء اللہ)، اب تو بہ ظاہر حضرت مفتی صاحب سے سیکھنا مشکل ہے، میں مایوس ہوکر واپس چلا آیا۔

ایک دن جمعرات کو بعد نماز ظہر تقریر کے دوران اصلاح باطن کے ضمن میں کہنے لگے کہ بعض طلبہ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے مضمون نگاری سکھادیجیے! میں بالکل قریب سامنے ہی بیٹھا تھا، میں نے سوچا آج ہوئی بے عزتی، اگر نام لے لیا تو بھی اور اشارہ کردیاتو بھی؛ مگر حضرت نے اس مجلس میں نہ تو نام لیااور نہ ہی اشارہ کیا، میں خوش ہوا، بات یہ تھی کہ نفس شہرت طلب ہے، اس کے لیے وہ مختلف حیلے بہانے کرتا ہے، کسی کا جی اخباروں کے ذریعہ شہرت حاصل کرنے کا ہوتا ہے، جیسے طلبہ مضمون نگاری اس لیے سیکھتے ہیں کہ اُن کے مضامین اخباروں میں چھپیں اور ان کو لوگ جانیں، ان کی واہ واہ ہو۔

ہفتہ کے دن درس گاہ میں مجھے مخاطب کرکے کہا: ”ماما آئے تھے مضمون نگاری سیکھنے، کیا مقصد تھا؟“ اب سارے ساتھیوں نے میرا مذاق بنالیا، حضرت نے فرمایا: محنت سے ہدایہ پڑھو، لکھنا بھی آجائے گا اور بولنا بھی، طالب علمی کے زمانے میں یکسوئی مطلوب ہے۔

سبق کے بعد ساتھیوں نے پھر مجھے موضوع بنایا، میں نے کہا: میں تو ایک دن مضمون نگاری ضرور سیکھوں گا، حضرت کا مقصد منع کرنا نہیں؛ بلکہ شہرت طلبی کی اصلاح اور یکسوئی سے پڑھنے کی تلقین ہے۔ اگلے سال دیوبند آگیا اور یہاں میرے اس ذوق کی آبیاری ہوئی، دیواری پرچوں میں بلا ناغہ مضمون لکھنے لگا، اردو کے ساتھ عربی میں بھی لکھنے کی کوشش کی اور الحمدللہ، اللہ تعالیٰ نے مجھے کامیابی عطا فرمائی۔ اسی مسلسل لکھتے رہنے کی برکت ہے کہ آج حضرت مفتی صاحب پر بھی خامہ فرسائی کی جرأت حاصل ہورہی ہے۔ بڑے اچھے لوگ تھے ان کی نظر ظاہر اور باطن دونوں پر ہوتی تھی، آج ہم باطن سے غافل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائیں، گناہوں کو معاف فرمائیں اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائیں، آمین یا ربَّ العالمین!

$ $ $

 

--------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ6، جلد:100 ‏، شعبان1437 ہجری مطابق جون 2016ء