نئی کتاب

شریعت میں عرف كا اعتبار اور اُس كے حدود و قیود

 

 

 

 

نام کتاب :         شریعت میں عرف کا اعتبار اور اُس کے حدود وقیود

    موٴلف   :         جناب مفتی محمد مصعب علی گڑھی،معین مفتی دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

    شائع کردہ :         مکتبہ ”النور“ دیوبند

    صفحات   :         ۲۵۶

    قیمت     :         درج نہیں

    تبصرہ نگار  :         مولانااشتیاق احمد قاسمی، مدرس دارالعلوم/ دیوبند

شریعت کے احکام کے اصل مآخذ قرآن وسنت ہیں، پھر اجماع، ان تینوں سے احکام نکالنے کا ذریعہ قیاس ہے، یہ اوّلین ماخذ ہیں، ثانوی مآخذ میں سدِ ذرائع، مصالحِ مرسلہ اور عرف وعادت وغیرہ ہیں، جو احکام قرآن وسنت اوراجماع میں صراحت کے ساتھ موجود ہیں، اُن کو عرف وغیرہ کے ذریعہ بدل نہیں سکتے، عرف پر مبنی احکامات میں تبدیلی، عرف میں تبدیلی کی طرح ہوتی رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے زمانے کے بہت سے مسائل امام محمد رحمة اللہ علیہ کے زمانے میں بدل گئے؛ اس لیے کہ اُن کا ماخذ عرف تھا، اُن مسائل کی تفصیل علامہ شامی نے بیان فرمائی ہے اور یہ شریعتِ اسلامیہ کی ابدیت کی وجہ سے ہے، فقہائے کرام نے نصوص کو سامنے رکھ کر اصول مرتب فرمائے ہیں؛ تاکہ اُن کی روشنی میں جزوی احکام کی تخریج کی جاسکے، بعض متجددین نصوص کی موجودگی میں بھی عرف وعادت کی وجہ سے احکام میں تبدیلی کے قائل ہیں، یہ صراحتاً غلطی پر ہیں،اگر یہ صحیح ہوں، تو شریعت ہوائے نفس کا دوسرا نام ہوجائے گی؛ اس لیے ضرورت تھی کہ عرف وعادت کی شرعی حیثیت کو اردو زبان میں بھی واضح کیا جائے۔

جناب مولانا مفتی محمد مصعب علی گڑھی زیدمجدہ دارالعلوم دیوبند کے ”دارالافتاء“ سے تعلق رکھتے ہیں، لکھنے پڑھنے کاشوق بھی خوب ہے، انھوں نے ”تدریب افتاء“ کے سال اپنے لیے ”عرف وعادت“ کا موضوع منتخب کیااور مسلسل کئی سال تک اس پر خامہ فرسائی کرتے رہے، عرف کے موضوع پر عربی اور اردو ساری موجود کتابیں دیکھیں، پھر ایک تفصیلی تحریر تیارکی، عرف وعادت کی لغوی، اصطلاحی تعریف، مآخذ،اقسام،اسباب، فروق، شروط اور مثالوں کے ساتھ اس کی شرعی حیثیت کو تفصیل سے لکھا، عرف پر مبنی اٹھاسی قواعد وضوابط کو بھی عربی کتب سے کھنگال کر جمع کیا، ہر ہر بحث کو نہایت احتیاط سے لکھا، ڈھائی سو صفحات کی کتاب موصوف نے پہلی تصنیف کے طور پر شائع کی، بحث وتمحیص میں موصوف سنجیدہ طبیعت کے حامل ہیں؛ اس لیے مشکل موضوع کی پیش کش بھی بڑے سلیقے سے کرلیتے ہیں۔

موٴلف کی اس تحریر پر چونکہ اکابر اساتذہ کی تنقیدی نگاہ پڑچکی ہے، طباعت سے پہلے اس موضوع پر گہری نگاہ رکھنے والے بزرگوں نے خامیوں کو نکال دیا ہے؛ اس لیے یہ کاوش قارئین کے لیے نہایت مفید ثابت ہورہی ہے، تبصرہ نگار کے نزدیک کتاب اپنے مواد، اسلوب، ترتیب اور طباعت ہرلحاظ سے پرکشش ہے، شاید قارئین کو اردو زبان میں اس موضوع پر اتنی ضخیم کتاب نہ ملے۔

اللہ تعالیٰ موٴلف کی اس اولین کاوش کو شرفِ قبولیت سے نوازیں اور مزید تصانیف کی توفیق ارزانی بخشیں، آمین!

$ $ $

 

----------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ6، جلد:100 ‏، شعبان1437 ہجری مطابق جون 2016ء