امانت اورخیانت

 

از:مفتی تنظیم عالم قاسمی                          

استاذ حدیث دارالعلوم سبیل السلام، حیدرآباد       

 

امانت داری ایمان کا حصہ ہے‘ جو شخص اللہ اورآخرت پر یقین رکھتا ہے وہ کسی کی امانت میں خیانت نہیں کر سکتا۔ اسے اس بات کا احساس ہو تا ہے کہ اگر میں نے کسی کا حق دبالیا یا اس کی ادائیگی میں کمی اورکو تاہی کی تو میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے، وہ یقینا اس کا حساب لے گا اوراس دن جب کہ ہر شخص ایک ایک نیکی کا محتاج ہوگا حق تلفی کے عوض میری نیکیاں دوسروں کو تقسیم کردی جائیں گی، پھر میری مفلسی پر وہاں کو ن رحم کرے گا؟ اس طرح کے تصورات سے اہل ایمان کا دل کانپ اٹھتا ہے اورپھر خیانت یا حق تلفی کر نے سے باز آجاتا ہے؛ لیکن جس کے دل میں ایمان ہی نہ ہو یا ماحول اورحالات نے ایمان کی روشنی سلب کر لی ہو تو خیانت کر نے میں ایسے شخص کو کوئی تردد نہیں ہوتا؛ اسی لیے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت داری کو ایمان کی علامت اورپہچان قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا

”لَا اِیمانَ لِمَنْ لا أ مانةَ لَہ، وَلَا دِینَ لِمَنْ لَا عَھْدَ لَہ“(سنن بیھقی-۱۲۶۹۰)

ترجمہ: ” جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں “۔

اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم کے متعدد مقامات پر امانت داری کی تاکید فرمائی ہے، ارشاد باری ہے:

فَلْیُؤَدِّ الَّذِیْ اؤْتُمِنَ أَمَانَتَہُ وَلْیَتَّقِ اللہَ رَبَّہ (بقرة: ۲۸۳)

ترجمہ: ”تو جو امین بنایا گیا ا س کو چاہیے کہ اپنی امانت ادا کرے اورچاہیے کہ اپنے پروردگار اللہ سے ڈرے “۔

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں امانت داری کو تقویٰ سے جوڑ دیا ہے یعنی جس کو موت کے بعد کی زندگی حساب وکتاب اورعدالت الٰہی پر یقین ہو جس کے دل میں خوف خدا اوراس کی گرفت کا احساس ہو ا سے چاہیے کہ امانت میں خیانت نہ کرے جس کا جو حق ہے پورا پورا ادا کردے؛ اس لیے کہ اس دنیا میں خیانت کر نے والا قیامت کے دن چین وسکون سے نہیں رہ سکتا، وہاں ایک ایک کا حق ادا کر نا ہوگا اوربڑی دشواریوں کا سامنا ہوگا؛ لیکن جس کو آخرت پر یقین نہیں وہ جوچاہے کرے دنیا میں چند روزہ زندگی کے بعد آخراپنے کیے ہوئے پر افسوس ہوگا اوربڑے خسارے میں ہوگا۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی ہے کہ زمانہ قیامت سے جیسے جیسے قریب ہوگا ایمانی قوت کم ہوتی چلی جائے گی اس کے نتیجے میں امانت داری بھی اٹھ جائے گی اورحال یہ ہوگا کہ مسلمانوں کی بڑی بڑی آبادی ہوگی مگر امانت داری پوری آبادی میں ایک آدھ بڑی مشکل سے دستیاب ہوگا اوروہ بھی حقیقت میں امین نہ ہوگا۔ لو گ مثال کے طور پر کہیں گے کہ فلاں قوم میں ایک امانت دار شخص ہے ، آدمی کی تعریف ہوگی کہ کیسا عقلمند ، کیسا خوش مزاج اورکیسا بہادر ہے ؛ حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان داری نہ ہوگی ۔ (صحیح بخاری‘ کتاب الفتن)

امانت داری کی اس قدر اہمیت کے باوجود آج کے معاشرہ میں اسے کوئی وزن نہیں دیا جاتا ، اچھے اچھے لوگ بھی جو عرف میں دین دار سمجھے جاتے ہیں وہ بھی امانت اور حق کی ادائیگی کا پاس ولحاظ نہیں رکھتے ، انھیں اس بات کا احساس نہیں ہوتاکہ امانت کی حفاظت اور اس کا مکمل طور پر اداکرنا دینی وشرعی فریضہ ہے، بعض لوگوں میں امانت داری کا جذبہ ہو تابھی ہے تو وہ صرف مال کی حدتک محدود رہتا ہے کہ اگرکسی شخص کے پاس کسی کا مال رکھا ہو تو وہ اسے ادا کردیتا ہے، عام طور پر لوگوں کا ذہن اسی مالی امانت کی طرف جاتا ہے ؛ حالانکہ امانت کی اوربھی مختلف قسمیں ہیں، جن کی اہمیت بعض صورتوں میں مالی امانت سے بھی بڑھی ہوئی ہوتی ہے، ان کی حفاظت بھی ایک مسلمان کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنی مالی امانت کی ہوتی ہے ؛ اسی لیے فتح مکہ کے موقع پر خانہٴ کعبہ کی کنجی جب عثمان بن طلحہ بن عبد الدار شیبی کو دینے اوران کی امانت ان کو واپس کر نے کی تاکید کی گئی تو امانت کو جمع کے صیغے کے ساتھ استعمال کیاگیا، ارشاد باری ہے: إِنَّ اللہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَی أَھْلِھَا(النساء آیت ۵۸) ”اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مستحقین کو پہنچا دیا کرو“ قابل غور بات یہ ہے کہ کنجی کو ئی اہم مال نہیں ؛ بلکہ یہ خانہٴ کعبہ کی خدمت کی نشانی ہے جس کا تعلق مال سے نہیں عہد ے سے ہے، پھر بھی اس کو امانت سے تعبیر کیا گیا اورپھر جمع کا صیغہ استعمال کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیاگیا کہ امانت کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں جن کی ادائیگی تمام مسلمانوں پرلازم ہے، ذیل میں امانت کی چند ایسی صورتیں بیان کی جارہی ہیں جن کی طرف عام طور پر لوگوں کا ذہن نہیں جاتا ؛ چنانچہ وہ ان امانتوں میں خیانت کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں اورانھیں کسی معصیت کا خیال بھی پیدا نہیں ہوتا؛ حالانکہ شریعت کی نظر میں ان چیزوں میں بھی خیانت قبیح اورموجب گناہ عمل ہے جس سے ہر مسلمان کا بچنا نہایت ضروری ہے مثلاً:

نااہلوں کو عہدے اورمناصب سپرد کردنا

حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جس عہدہ اورمنصب کا جواہل ہو اسی کو وہ عہدہ سپرد کیا جائے؛ اس کے لیے سب سے پہلے غور کر نا چاہیے کہ اس کے ماتحتوں میں کون ایسا شخص ہے، جس میں پیش نظر ملازمت یاعہدے کی مکمل شرطیں پائی جارہی ہیں، ایسا کوئی شخص مل جائے تو وہی اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے لہٰذا کسی پس وپیش کے بغیر وہ عہدہ اورملازمت اس کو سپرد کریا جائے اوراگر مطلوب صلاحیت کا حامل کوئی شخص دستیاب نہ ہو تو موجودہ لوگوں میں جو سب سے زیادہ لائق وفائق ہو اس کو منتخب کیا جائے، غرض یہ کہ حکومت کے ماتحت جتنے بھی عہد ے اورمناصب ہوتے ہیں وہ امانت ہیں اورارباب حکومت اس کے امین ہیں، اگر حکومت نے اپنے ماتحت کسی شخص کو اس کا مجاز بنایا ہے تو وہ بھی امین ہے ‘ان سب کو چاہیے کہ عہدے اورمنصب پوری دیانت داری سے تقسیم کریں‘ صلاحیت اورشرائط کو اس کے لیے معیار بنایا جائے نہ کہ قرابت اورتعلق کو۔ اگر کسی شخص کو ذاتی تعلق یا سفارش کی بنیاد پر یارشوت لے کر کوئی عہدہ اورمنصب سپرد کیا جاتا ہے تو یہ خیانت ہے اورتمام ذمہ دار اس خیانت کے مرتکب ہوں گے ، ایک موقع پر رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپر د کی گئی ہو پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی وتعلق کے پیش نظر دے دیا ، اس پر اللہ کی لعنت ہے نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہو جا ئے۔ (جمع الفوائد :ص: ۳۳۵)

نااہلوں کو عہدے سپر د کر نے سے گناہ تو ہو تا ہی ہے خود دنیوی اعتبار سے بھی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، اس سے مستحقین اورباصلاحیت افراد کے بجائے ناکارہ اورنااہل لوگ عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں ان میں کام کی صلاحیت نہیں ہوتی ؛ اس لیے پورا شعبہ بگڑ جاتا ہے اورپھر عوام کے لیے یہ اذیت رسانی کا باعث ہوتا ہے ، آج کل ملکی حالات کا جائز ہ لیں تو معلوم ہو گا کہ نیچے سے لے کر اوپر تک تمام شعبوں میں کہیں رشوت اورسفارش اورکہیں تعلق اورقرابت کی بنیاد پر عہدے اورملازمت تقسیم کی جارہی ہیں؛ یہاں تک کہ عصری تعلیم گاہوں میں اساتذہ کی تقرری میں رشوت کالین دین عام ہوگیا ہے، اس کے نتیجے میں یہ تعلیم گاہیں باصلاحیت افراد سے محروم ہیں تقریباً تمام شعبوں کا یہی حال ہے، اس لیے حکومت کا نظام فساد کا شکار ہوگیا ہے اورآج ہر شخص اپنی جگہ بے چین ومضطر ب نظر آرہا ہے ۔

 رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: اِذَا وُسِّدَ الأَمْرُ الٰی غَیْرِ أَھْلِہ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ (صحیح بخاری:۵۹) ”جب دیکھو کہ کاموں کی ذمہ داری ایسے لوگوں کو سپرد کردی گئی جو ان کے اہل اورقابل نہیں تو قیامت کا انتظار کرو“

یعنی جب نااہل افراد کو کوئی ذمہ داری یا عہدہ اورمنصب سپرد کیا جائے تو فساد یقینی ہے اوراب دنیوی نظام کو فساد سے کوئی بچا نہیں سکتا ؛ اس لیے اب قیامت کا انتظار کرو، اس میں خلافت سے لے کر ایک ادنیٰ ملازمت بھی شامل ہے۔

اس خیانت کا تعلق صرف حکومت اورسرکاری عہدوں سے ہی نہیں؛ بلکہ نجی کمپنی ‘انجمن اورعوامی اداروں سے بھی ہے جو ان اداروں اورکمپنیوں کو مفید اوربافیض بنانا چاہتے ہیں انھیں چاہیے کہ جس کام کے جو لائق اوراہل ہے، اسے وہیں رکھا جائے ،کسی بھی وجہ سے اگر کم تر صلاحیت والے افراد کو فوقیت دی جائے تو ادارہ کبھی ترقی نہیں پاسکتا ، دینی مدارس میں بھی تقسیم اسباق اوردیگر امور میں اس اصول کو پیش نظر رکھنا چاہیے ورنہ اس سے تعلیمی نظام متاثر ہوگا اورذمہ داران خیانت کے مرتکب ہوں گے۔

مزدور اورملازمین کاکام چوری کرنا:

جو شخص کسی کا مزدور یاملازم ہو اسے چاہیے کہ مالک اورذمہ دار سامنے ہو یا نہ ہومکمل دیانت داری کے ساتھ کام کر ے، نہ تو وقت میں کمی کرے اورنہ کام میں سستی اورنہ ہی اپنی صلاحیت کو استعمال کر نے سے گریز کرے، ان تینوں میں سے کچھ پایاگیا توخیانت شمار ہوگی؛ اس لیے کہ ایک ملازم کی صلاحیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے تنخواہ طے ہوتی ہے اگر اس نے کام کر نے میں پوری صلاحیت صرف نہ کی اورکسی بھی وجہ سے دلچسپی لیے بغیر محض ظاہری طور پر کام کر دیا تو کام میں وہ معنویت پیدا نہیں ہوگی جو ذمہ دار کو مطلوب تھی؛ اس لیے وہ تنخواہ بھی مشکوک ہو جا ئے گی اور خیانت کا بھی گناہ ہوگا ۔اسی طرح اگر مزدور وملازم سے پانچ چھ گھنٹے کام کرنے کا وقت طے ہوجائے اورپھر کام کر نے والا وقت میں چوری کرے ، وقت کے بعد آئے یا متعین وقت سے پہلے چلا جائے تو یہ بھی خیانت ہے، ایک مسلمان ملازم جو کائنات کے مالک کو سمیع وبصیر سمجھتا ہے اوراس پر پورا یقین رکھتا ہے اسے احساس ہو نا چاہیے کہ اگر چہ میرا مجازی مالک اورذمہ دار مجھے نہیں دیکھ رہا ہے ؛ لیکن رب تو مجھے دیکھ رہا ہے، اس کی گرفت سے جوبچ گیا وہی کامیاب اورفلاح پانے والا ہے ؛ اسی طرح کام میں سستی اورٹال مٹول کر نا بھی خیانت ہے، وہ کام جو پانچ گھنٹے میں ہوسکتا تھا اس کو دس گھنٹے میں تکمیل کر نا ؛ تاکہ مزید پیسے ملتے رہیں اوراس کے معاش کا مسئلہ حل ہو تا رہے ، یہ بری سوچ اورناپسندیدہ عمل ہے، امانت داری کا تقاضا ہے کہ مکمل تندہی سے کام کو انجام دیا جائے پورا وقت اورپوری طاقت اس کے لیے صرف کی جائے، ورنہ وہ مالک کے ساتھ خیانت کر نے کا مرتکب ہوگا اوراس کا بھی حساب روزمحشر میں دینا ہوگا۔

 حضرت موسیٰ نے مدین کے سفر میں دولڑکیوں کی بکریوں کے پینے کے لیے پانی بھر دیا تو ان دونوں نے واپس جا کر اپنے بزرگ باپ سے ان کی تعریف کی اورکہا کہ یہ بڑے امانت دار اورطاقت ور ہیں ان کو اپنے گھر میں ملاز م رکھ لیجیے۔ قرآن نے اس کوان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

 یَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْہُ إِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْأَمِیْنُ (قصص-۲۶)

”اے میرے ابا! ان کو مزدور رکھ لیجیے اچھا مزدور وہ ہے جوطاقت ور اورامانت دار ہو“

اس آیت میں جہاں ملازم اورمزدور کے اوصاف کی طرف رہنمائی کی گئی ہے وہیں اس بات کی طرف بھی اشارہ موجود ہے کہ مزدور امین ہو تا ہے اسے کام کر تے ہوئے اپنی امانت داری کا مکمل ثبوت دینا چاہیے، اس سے خود اس کی زندگی خوشگوار ہوگی اورغیب سے اس کے رزق کے لیے بہتر انتظام کیا جائے گا۔

خاص مجالس کی بات کو عام کر نا

چند لوگ کسی جگہ بیٹھ کر باتیں کریں اورپھر علیحدہ ہو جائیں تو اس مجلس کی تمام باتیں ہر ایک کے لیے امانت ہیں، کسی کے لیے جائز نہیں کہ اجازت اوررضا مندی کے بغیر ان باتوں کو دوسروں کے سامنے نقل کر ے اوراسے پھیلا نے کی کوشش کر ے؛ اس لیے کہ مجلس میں بہت سی راز کی باتیں ہوتی ہیں ،بولنے والا بسااوقات یہ چاہتا ہے کہ اس کے ان منصوبوں اورخیالات سے موجود افراد کے علاوہ دوسرے واقف نہ ہوں‘ اسے وہ راز میں رکھنا چاہتا ہے، ممکن ہے کہ اس کی باتوں کو پھیلا دیا جائے تو اس کو ذاتی نقصان ہو یاملامت اورشرمندگی کا سامنا کر نا پڑے، شریعت نے بھی اس کا لحاظ رکھاہے اورمسلمانوں کو ہدایت دی ہے کہ کسی بھی راز کو راز میں رکھیں اس کو پھیلا نے کی سعی نہ کریں ‘ہاں البتہ کوئی راز ایسا معلوم ہو جا ئے جس کا تعلق فتنہ اورفساد سے ہو جس سے دوسروں کا نقصان ہو سکتا ہے تو اس کو بتادینا چاہیے ، پھر ایسی مجلسوں کی باتوں کو محفوظ رکھنا جائز نہیں؛ بلکہ واجب اورضروری ہے کہ دوسرے شرکاء اس کو عام کردیں۔

 چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ نے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے: المجالس بالأمانة الاثلٰثة مجالس سفک دم حرام اوفرج حرام اواقتطاع مال بغیرحق (سنن ابوداوٴد: ۴۸۶۹) یعنی مجلسیں امانت ہیں مگر تین موقعوں پر ،کسی کے ناحق قتل کی، یا آبرو ریزی کی یاکسی کامال ناجائز طور پر لے لینے کی ساز ش ہو تو متعلقہ لوگوں کو اس سے آگاہ کر دیا جائے، اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ مجلسی بات کا تعلق جب تک کسی کی ایذا رسانی حق تلفی یا نقصان پہنچا نے سے نہ ہو، اس کی حفاظت مجلس کے شرکاء پر ضروری ہے، اسے امانت سمجھ کر اپنے دل میں دفن کر دینا چاہیے بالخصوص وہ باتیں جن کے بارے میں محسوس ہو کہ متکلم اسے مجلس تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہے ؛ لیکن اگر مجلس میں ہو نے والی باتوں کا تعلق راز سے نہ ہو ؛ بلکہ عام باتیں ہوں جیسے دینی وشرعی مسائل ‘قرآن وحدیث کی باتیں‘ تاریخ وسیرت کی گفتگو وغیرہ تو ان باتوں کو عام کر نا اورلوگوں تک پہنچا نا مستحب ہے ؛ اس لیے کہ ان باتوں کو کوئی بھی چھپانا نہیں چاہتا اورنہ اس کے عام کر نے سے کسی کو تکلیف ہوتی ہے۔

غلط مشورہ دینا

مشورہ جب کسی سے لیاجاتا ہے تو وہ ان کے حق میں امین ہوتا ہے اسے چاہیے کہ وہی مشورہ دے جس میں اس کے علم کے مطابق مشورہ لینے والے کا خیروفلاح مضمر ہو۔ دل میں جو بات آئے کسی ذہنی تحفظ کے بغیر صاف صاف کہہ دے ، رسول اکر م  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے مشورہ لینے پر ارشاد فرمایا: المستشار موٴتمن (ترمذی۔۲۸۲۳) ”جس سے مشورہ چاہا جائے وہ امانت دار کی ہے“ ۔

مشورہ لینے والا اپنا خیر خواہ سمجھ کر کسی سے مشورہ طلب کرتا ہے، اب اگر وہ ذاتی حسد اورعناد کی بنیاد پر ایسا مشورہ دے جس میں اس کے لیے نقصان ہو تو گو یا اس نے مشورہ طلب کر نے والے کو دھوکہ دیا اوراس کے ساتھ خیانت کا معاملہ کیا؛ کیونکہ اس نے اپنے علم ودانست کے خلاف مشورہ دیا ہے، کسی ایک شخص کو اگر کسی سے دشمنی وعداوت ہو یا کسی بنیاد پرآپس میں رنجش کا ماحول ہو اوراتفاق سے ایک نے دوسرے سے کسی بابت مشورہ طلب کر لیا، تو اسے اخلاص دل سے محبت کے ساتھ صحیح صحیح مشورہ دینا چاہیے اوراپنا دل صاف کر لینا چاہیے؛ اس لیے کہ مشورہ لینے کا مطلب اس نے اسے اپنا ہمدرد اورخیر خواہ تسلیم کر لیا ہے اورجب ایک شخص دوستی کا ہاتھ بڑھائے تو اخلاق وانسانیت کا تقاضا ہے کہ دوسرا بھی تواضع کی پلکیں بچھا دے اورمحبت کا بدلہ محبت سے دینے کا فیصلہ کرے اوراگر دل میں نفرت اس قدر ہو کہ بھلائی اس کے حق میں سوچ ہی نہیں سکتا تو پھر مشورہ دینے سے صاف انکار کردے ؛ لیکن اگر کدورت اورعداوت کے سبب غلط مشورہ دیا ؛تاکہ وہ ہلاک ہو جائے یا اسے پر یشانیوں کا سامنا کر نا پڑے تو یہ معصیت کاارتکاب ہوگا قیامت کے دن اس کا حساب دینا ہوگا۔

کسی کاراز ظاہر کرنا:

 حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اذاحدث الرجل الحدیث ثم التفت فھی امانة (ترمذی:۱۹۵۹)

”جب ایک شخص کوئی بات کہے اورچلا جائے تو یہ بھی امانت ہے“

 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص نے آپ سے کوئی ایسی بات کہی جس کو وہ دوسروں سے چھپا نا چاہتا ہے، آپ پر اعتمادکرتے ہوئے اس نے اپنے دل کے خیالات کا اظہار کیا ؛ تاکہ آپ کوئی مشورہ دے سکیں یا اس کے د کھ دردمیں کام آئیں، توآپ کے لیے اس کی یہ بات امانت کے درجے میں ہے، اپنی ذات تک اسے محدود رکھیں، دوسروں کو بتانا جائز نہیں اس سے اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی اورتکلیف کا احساس ہوگا، بسا اوقات انسان دوستی اورتعلقات کی بنیاد پر کسی سے کچھ کہہ دیتا ہے اوراسے یقین ہوتا ہے کہ میرا یہ راز اس کے سینے میں محفوظ رہے گا مگر دوسرا شخص اس کا خیال نہیں کرتا بالخصوص جب دونوں میں کسی وجہ سے دوستی رنجش میں تبدیل ہو جاتی ہے، تو اس کے سارے راز دوسروں کے سامنے اگل دیتا ہے ؛ تاکہ اس کی تحقیر ہو اورلوگ اسے برا بھلا کہیں یہ نہایت براعمل اورنچلی حرکت ہے، اس سے خدا ناراض ہوتا ہے اورنہ معلوم خدا کی کون سی ناراضگی ہلاکت کا سبب بن جائے۔

اسی طرح میاں بیوی کے درمیان جو بات ہوتی ہے وہ بھی امانت ہے‘ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے لباس ہے، لباس بدن کے عیوب اورراز کی چیزوں کو چھپاتا ہے اسی طرح زوجین کو چاہیے کہ وہ باہمی گفتگو اورقابل اخفاء چیزوں کو پر دے میں رکھیں اورکسی بھی حال میں دوسروں کے سامنے ظاہر نہ کریں؛ چنانچہ حضرت ابوسعید کی روایت ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان من اعظم الأمانة عند اللہ یوم القیامة الرجل یفضی الی امرأتہ وتفضی الیہ ثم ینشر سرھا(صحیح مسلم۱۲۴۔۱۴۳۷)

”قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بڑی امانت قابل موٴا خذہ یہ ہے کہ انسان اپنی بیوی کے پاس جائے اوربیوی اس سے لطف اندوز ہو اورپھر شوہر عورت کے راز کو دوسروں کے سامنے ظاہر کردے “

راز تو بہر حال راز ہوتا ہے وہ خواہ میاں بیوی کے درمیان ہو یا دودوست اوردوساتھیوں کے درمیان، اسے چھپانے کی شریعت نے تاکید کی ہے۔ شریعت کا مزاج یہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے لوگوں کے عیوب کی پردہ پوشی کی جائے، کسی کی عزت سے کھلواڑ نہ کیا جائے اورنہ کسی کو ایذادی جائے اورراز کے اظہار میں ان میں سے کسی کا ارتکاب ضرور ہو تاہے؛ اس لیے یہ ممنوع اور ناپسندیدہ ہے۔

حق تلفی کر نا

ایک شخص کسی کو بطور امانت رکھنے کوئی چیز دے اوروہ بھول جائے یا اسے یاد تو ہومگر اس کے پاس کوئی شہادت نہیں ہے، یہ نازک گھڑی ہوتی ہے ‘اس میں امانت کامال لینے والے کے ایمان کا امتحان ہے، وہ اللہ کی گرفت پر یقین رکھتے ہوئے مال واپس کردیتا ہے یا اس کا حق دبا کر اپنی آخرت کو تباہ کر لیتا ہے، اگراس نے مال واپس نہ کیا تو یہ حق تلفی ہے اوراس پر سخت وعید آئی ہے، روز محشر اس کا حساب دیناہوگا ۔

جس طرح مادی حق کی ادائیگی سے پہلو تہی حق تلفی ہے‘ اسی طرح بعض حقوق ایسے ہوتے ہیں جو مادی تو نہیں ہیں؛ لیکن شریعت نے انہیں حق اورامانت سے تعبیر کیا ہے ان کی ادائیگی ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے جیسے میاں بیوی کے باہمی حقوق۔ ایک شخص جب کسی عورت کو اپنے نکاح میں لیتا ہے تو اس پر عورت کے کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں اسی طرح زوجیت میں آنے کے بعد عورت سے بھی شوہر کے کچھ حقوق وابستہ ہو جاتے ہیں‘ یہ حقوق امانت کے درجے میں ہیں، ان کی ادائیگی میں ٹال مٹول یاکمی وکوتاہی کر نا حق تلفی اورخیانت ہے جو ان کے لیے جائز نہیں، والدین اوراولاد کے باہمی حقوق بھی امانت ہے اس میں کمی وکوتاہی خیانت ہے اورموجب گناہ ہے ، اسی طرح استاذ اورشاگرد کے درمیان کے حقوق بھی امانت کے درجے میں ہیں، شاگرد کو چاہیے کہ اپنے استاذ کی خدمت‘ عزت واحترام اوران کا ادب کریں تو استاذ کو بھی چاہیے کہ وہ پوری امانت داری کے ساتھ اپنے شاگرد کو علمی غذا فراہم کریں، خود کتاب کا مطالعہ کریں اورپوری محنت سے علمی صلاحیت ان میں منتقل کرنے کی کوشش کریں، اس میں کچھ خامی خیانت کے دائرے میں داخل ہے ۔

حاکموں اوررعایا کے درمیان باہمی حقوق کا بھی یہی حکم ہے جس طرح عوام پر حکومت کے اصول وقوانین کی پاسداری ضروری ہے اسی طرح حکمرانوں کے ذمہ یہ بات لازم ہے کہ ممکن حدتک عوام کو سہولت فراہم کریں، ان کی ضروریات کا خاص خیال رکھیں، اقتدار کے ذمہ دارنے وسعت کے باوجود اگر رعا یا کے حقوق ادا نہ کیے تو گویا اس نے خیانت کی جس کا اسے ضرور حساب دینا ہوگا ‘اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں جن کا تعلق ایسے حقوق سے ہے جو مادی نہیں ہیں ؛ لیکن وہ بھی حق تلفی اورخیانت کے دائرے میں آتے ہیں اوراوراس کا بھی وہی حکم ہے جو مال میں خیانت کر نے کا ہے۔

ناانصافی کرنا

قاضی‘ حاکم اورتمام فیصلہ کر نے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملہ کے حقائق تک پہنچنے کی کوشش کریں اورپوری دیانت داری کے ساتھ فریقین کے دلائل کی سماعت کریں پھر قوت دلائل کی بنیاد پر فیصلہ کریں، اس میں قرابت‘خاندان‘ قوم، علاقہ اورمذہب ومسلک وغیرہ کو ہرگز دخل نہ دیں، اگر فیصلہ کر نے والوں نے کسی ذہنی تحفظ کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا تو گویا اس نے خیانت کی اوربڑے گناہ کا ارتکاب کیا؛ اس لیے کہ قاضی حاکم وغیرہ اپنے ماتحتوں کے حق میں امین ہوتا ہے امانت داری کا انھیں پورا پورا پاس ولحاظ رکھنا چاہیے۔ گاوٴں دیہات وغیرہ کے سرپنچ کا بھی یہ حکم ہے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص دو لوگوں کے درمیان بھی کسی بارے میں فیصل بنایا جائے تو وہ بھی امین ہوتا ہے ‘اللہ تعالی کو حاضر و ناظر رکھ کر اور اپنی گرفت کا احساس کرتے ہوے اسے صحیح صحیح فیصلہ کرنا چاہیے ‘کسی کی جانب داری اس کے لیے باعث ہلاکت ہے ۔

ان ساری تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ امانت کا دائرہ صرف روپے پیسے‘ جائداد اورمال و منال تک محدود نہیں ؛ بلکہ ہر مالی، قانونی اوراخلاقی امانت تک وسیع ہے، عام طور پر امانت کالفظ بولنے سے لوگوں کا ذہن مالی امانت کی طرف جاتا ہے، اوراسی امانت کی ادائیگی کو کافی سمجھا جاتا ہے، جب کہ امانت داری کے مفہوم میں کافی وسعت ہے، اسی وسیع تر مفہوم میں مسلمانوں کا عمل ہو نا چاہیے ۔ آج بہت سے فسادات‘لڑائی جھگڑے اسی امانت داری کے نہ ہو نے کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ اگر مالی‘ قانونی‘ اخلاقی اورتمام طرح کی دیانت کو ملحوظ رکھا جائے تو معاشرہ میں امن چین اورسکون ہوگا‘ بہتر سماج کی تشکیل عمل میں آئے گی اورلوگ خیانت کے گناہ اورآخرت کی گرفت سے بچ سکیں گے ۔

$ $ $

 

--------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ7-8، جلد:100 ‏، شوال-ذيقعده 1437 ہجری مطابق جولائی-اگست 2016ء