ٹیپوسلطان اور تحریکِ آزادی

 

از: آصف اقبال قاسمی

شاستری پارک، دہلی-۵۳

 

شیرِ میسور ٹیپو کی جشنِ سالگرہ پر عدمِ رواداری اور انارکی کا جو کھیل کھیلا گیا اس نے جہاں ملک کو شرمسار کیا ہے ،وہیں اس فتنہ نے تاریخِ ہند کو داغدار کرنے کی ہورہی منظم سازشوں کے خدشات کو بھی تقویت دی ہے۔

میسور کے حکمراں ٹیپو سلطان کے جشنِ پیدائش پر ریاست کرناٹک میں پھیلائی گئی انارکی جس میں تین افراد کی موت بھی ہوئی ،ملک میں بڑھ رہے عدمِ تحمل کے رجحانات اور رواداری کے فقدان کی ایک نئی شکل پیش کرتی ہے۔ بہارانتخاب میں شکست کے بعد ایسا محسوس ہورہا تھا کہ بی جے پی اور بھگوا بریگیڈ خود احتسابی میں مصروف ہوجائیں گی اور اپنی منفی فطرت میں تبدیلی کا ٹھوس منصوبہ بنائیں گی،لیکن انتخابی نتائج کے اعلان کے فورا بعد ٹیپو سلطان کی جینتی پر جس طرح سے انارکی کا کھیل کھیلا گیا وہ اس بات کی غماز ہے کہ عدمِ برداشت کی اس نئی داستان میں لوگوں کو الجھا کربی جے پی اور آرایس ایس اپنی شکستِ فاش سے عوام کی توجہ ہٹائے رکھنا چاہتی ہے۔اب معاملہ عظیم مجاہدِ آزادی اور شہید وطن ٹیپو سلطانکی سالگرہ پر جشنِ ولادت کا ہے۔کرناٹک میں ریاستی سرکار کی جانب سے مملکت ِ خداداد کے حکمراں اور اٹھارہویں صدی کے عظیم بادشاہ ٹیپو سلطان کے یوم ِ پیدائش 10/نومبر کو’یوم ٹیپو سلطان‘ منائے جانے کے فیصلے سے سخت گیر تنظیموں وشو ہندو پریشد،بجرنگ دل،ہندو جاگرن اوران سب کی سرپرست بی جے پی نے جس ردِ عمل اور انارکی کا مظاہرہ کیا اس نے تو غیر ملکی میڈیاکی نظر میں بھی ملک کی عدم روادار فضا اور مذہبی تنوع کے وجود کو سوال کے کٹہرے میں لا کھڑا کردیا ہے۔اسی سلسلے کا ایک بد نما پہلو اس وقت سامنے آیا جب معروف ڈرامہ نگار گریش کرناڈنے ریاستی حکومت کو یہ تجویز دی کہ ریاست کرناٹک کی راجدھانی بنگلور کے انٹر نیشنل اےئر پورٹ کا نام تبدیل کرکے ٹیپو سلطان کے نام سے موسو م کیا جائے،انھوں نے اپنی ایک تقریر کے دوران سچ کہا کہ اگر ٹیپو سلطان مسلمان نہ ہوتے تو ان کو بھی وہی تاریخی عزت اور سمّان ملتا جو مہاراشٹر میں شیواجی کو ملا ہے۔ اس تجویز نے تو انتہا پسندوں کو حواس باختہ ہی کردیااور انھوں نے کرناڈ کو بھی ایم۔ایم گلبرگی جیسے انجام کی دھمکی دے ڈالی۔

اس جشن ِ ولادت کی یہ کہہ کر مخالفت شروع کی گئی کہ ٹیپو سلطان’ ہندوٴوں کے تئیں متعصب‘ تھا، جس نے اپنے دور ِ حکومت میں کئی مندر توڑوائے اورتبدیلی ٴ مذہب کی مہم کی سرپرستی کی تھی۔ اسے ملک کی بد نصیبی کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ جس بادشاہ نے اپنے دور حکمرانی میں ملک کو سامان ِ زندگی کے معاملے میں خودکفیل بنادیا ہو ،جس نے ملک کے غریب کسانوں کو ان کا حق دلانے اور انھیں خوشحال بنانے کے لیے جاگیردارانہ بربریت کا استیصال کردیا ہو اور عدل ومساوات اور مذہبی رواداری کے ساتھ باہم متحد ہوکرانگریزوں کے دانت کھٹے کردیے ہوں،اسی بادشاہ کی شبیہ کو زک پہنچانے، ان کی خدمات کو یکسر فراموش کرنے اور ان سب سے بڑھ کر ان کے تئیں نسل ِ نو میں نفرت کی تخم ریزی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

سب سے پہلے ہم قارئین کے سامنے ٹیپوسلطان پر لگائے گئے اس طرح کے بے بنیاد الزام کے تعلق سے تاریخی دستاویز اور موجودہ صورتحال کے تناظر میں یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ فرقہ پرستوں کی جانب سے لگائے گئے الزامات ٹیپو کی شبیہ کو مسخ کرنے کی ایک عالمی سازش کا حصہ ہیں۔ہندوستان میں ایسے کئی مسلم بادشاہ گزرے ہیں جن کی زندگی اور خدمات کی ترجمانی سنگھی فکر کے حامل مورخین نے غلط پیرایے میں کی اور اُن کے طرز ِ حکمرانی کو جان بوجھ کر پیچیدہ اورمتنازع بنا دیا گیا اور یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے۔ان میں سے ایک مجاہد آزادی ٹیپو سلطان  (۱۰/نومبر۱۷۵۰ ۴/مئی۱۷۹۹/)بھی ہیں۔

آئیے ذرااب تاریخ کے دریچے کھولیں۔تاریخ شاہد ہے کہ ٹیپو سلطان ایک نرم دل ، عدل پرور،مساوات ، مذہبی رواداری کے علمبردار اور بار بار معاف کردینے والے بادشاہ تھے۔وہ ایک ایماندار اور روشن خیال حکمراں تھے جنھوں نے اپنے دورِ حکومت میں نہ صرف بین المذاہب رواداری کو باقی رکھا بلکہ اس کی جڑوں کو مستحکم کرتے ہوئے ہندووٴں کو اعلی عہدوں پر فائز بھی کیا،ان کی حکمرانی میں وزیراعظم،پیش کار،علاقائی نگراں اور خزانچی جیسے بڑے عہدے غیرمسلموں کے پاس ہی تھے۔’پونیا پنڈت‘ ٹیپو کے وزیر اعظم تھے تو’کرشنا راوٴ‘ خزانچی تھا۔’شامیا اینگر ‘نامی شخص اُن کا وزیر برائے پوسٹ وپولیس تھا،اسی طرح متعدد ہندووٴں کو انھوں نے مختلف ڈپلومیسی مشن کے لیے مامور کررکھا تھا اور ایک برہمن کو تو انھوں نے ’مالا بار‘ علاقہ کی پوری ذمہ داری دے رکھی تھی۔ انھیں اپنی عبادت کے لیے مکمل آزادی دی، غیرمسلموں کی اپنے مذہبی پروگرام کے انعقاد پر حوصلہ افزائی بھی کرتے، تاکہ ہماری مذہبی رواداری اور مشترکہ تہذیب باقی رہے اور انگریزی ثقافت اس پر حاوی نہ ہونے پائے ۔تاریخی حوالے سے یہ بات ثابت ہے کہ ٹیپوسلطان سرنگیری،کولور،میلکوٹ جیسے سیکڑوں مندروں اور اہم مٹھوں کو امداد بھیجتے تھے، وہ سلطنت ِ خداداد میں واقع مندروں کی سرپرستی بھی کرتے تھے ؛بلکہ ایک موقع پرتو مندر کی تعمیر کاحکم بھی دیا تھا، سرنگیری مٹھ پر جب مراٹھیوں نے حملہ کیا اور اسے لوٹ لیا تو ٹیپو ہی نے اس کی باز آباد کاری کرائی۔ یہ تاریخ کی عجب ستم ظریفی ہے کہ آج مراٹھی اور ان کے لیڈر شیواجی کو ملک کی تاریخ میں ایک ’ہیرو‘کا مقام حاصل ہے اور ٹیپو کو ایک مخصوص مذہب کا نمائندہ بادشاہ بتا کر انھیں جابر اور سفاک بتایا جارہا ہے۔ٹیپو کے تعلق سے اس طرح کے دیگرتاریخی حقائق کا تذکرہ تاریخ نویس محب الحسن# نے اپنی انگریزی کتاب ’ہسٹری آف ٹیپو سلطان‘ میں مختلف اور معتبر مصادر کی مراجعت کے ساتھ کیا ہے ۔ اسی کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ۱۹۱۶/میں میسور کے محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر’راوٴ بہادر‘ کو سرنگیری مندر میں ٹیپو کے خطوط کا ایک مجموعہ ہاتھ لگا جو دراصل ہندووٴں کے تئیں ٹیپوسلطان کی مدارات اور مذہبی رواداری کے سیکڑوں واقعات کی دستاویزکی حیثیت رکھتا تھا۔ اگر فرقہ پرستی کے عینک کو اتار کر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو تاریخ کی دیگر کتابوں میں بھی یہ حقائق حرف جلی کے ساتھ نظر آتے ہیں جیسا کہ ان کی جانب جسٹس کاٹجو نے بھی اشارہ کیا ہے ۔

اس موقع پر اس سچائی کو تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ بعض موقع پر انھوں نے غیرمسلموں کے ساتھ سخت گیری کا معاملہ کیا، لیکن ساتھ میں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرناہوگا کہ اس طرح کے معاملے ٹیپو کے مذہبی جذبات سے وابستہ نہ تھے بلکہ یہ سخت گیری بادشاہی حکم کی سرتابی کا نتیجہ تھی اور حکم عدولی جیسے جرم کے پاداش میں دی جانے والی سزا میں تو انھوں نے مسلمانوں اور ہندووٴں کے درمیان کوئی امیتاز ہی نہیں برتا۔ٹیپو کی سب سے نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ مذہب اور سیاست کو علیحدہ علیحدہ رکھتے تھے اور ملک کے مفاد میں بنائے جانے والی حکومتی پالیسیوں میں کبھی بھی مذہبی عقائد کواثر انداز نہیں ہونے دیا۔یہ الزام تو عقل کے بھی خلاف ہے کہ ٹیپو ہندو۔مسلم ہم آہنگی کے مخالف تھے اور انھوں نے ہندووٴں پر ظلم کیا؛ کیوں کہ برطانوی سامراج جیسی طاقت سے لوہا لینے کی مہم میں بھی اگر وہ اندورن ِ خانہ مذہبی تعصب کے برتاوٴکو رَوا رکھتے اور آپسی انتشار کی لکیر کھینچتے تو اس عمل سے تو ٹیپو کی انگریزوں کے خلاف معرکہ آرائی کمزور پڑجاتی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کو ملک سے بے دخل کرنے کے لیے ہورہی جد وجہد ماند پر جاتی۔

جہاں تک ٹیپو پر جبراً تبدیلی ٴمذہب کا الزام ہے تو یہ سراسر بے بنیاد اور تاریخ کی رُوح کو مسخ کردینے کے مترادف ہے۔ٹیپو یقیناایک مسلم بادشاہ تھے ؛لیکن مذہب کو انھو ں نے اپنی بادشاہت سے جدا رکھا اور رعایا کے ساتھ مذہبی رواداری اور عقائد کی آزادی کا برتاوٴ کیا،تاریخ اس پر شاہد ہے۔تاہم ٹیپو کی تاریخ میں تبدیلی ٴمذہب کے عنوان سے اِکا دُکّا واقعہ ملتا ہے۔اس کا تاریخی تجزیہ کرتے ہوئے موٴرخ محب الحسن نے اپنی اُسی کتاب میں لکھا ہے کہ دراصل یہ تبدیلی ٴمذہب باغیوں کی بغاوت کی سزا تھی اور اس کی حیثیت مذہبی نہیں بلکہ سیاسی تھی اور اس کے پیچھے کوئی مذہبی محرک کارفرما نہ تھابلکہ بغاوت کے سرکو دبانے کے لیے ٹیپو نے یہ موٴثّر حربہ استعمال کیا تھا۔ انگریزوں کے خلاف مشکل معرکوں کو سَر کرنے اور ہندوستان کو برطانوی بربریت سے پاک کرنے کے لیے ہر طرح کی بغاوت کا دبانا لازمی تھاجس کے لیے اگر ٹیپو نے یہ راہ اختیار کی تو اس میں بُرا کیا ہے اور کیا اس جرم کی تعقیب میں باغیوں کا قتل تبدیلی ٴ مذہب کا بہتر متبادل ہوسکتا تھا؟ اس سزا میں سیاسی نقطہٴ نظر سے بادشاہ اور باغی رعایا دونوں کے لیے بڑی مصلحتیں ہیں جنھیں ہر صاحب ِ بصیرت سیاست داں اور سپہ سالار ِ جنگ سمجھ سکتا ہے۔ اپنے ایک خط میں وہ خود لکھتے ہیں کہ ’ میں نے ’نائرس‘نامی شخص کو قبول ِاسلام اس لیے کروایا کہ اس نے اس سے قبل چھ مرتبہ بغاوت کی اور ہر مرتبہ میں نے اسے معاف کردیا‘۔ اس موقع پر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بغاوت پرتبدیلی ٴمذہب کی یہ سزا وقتی مصلحت پر مبنی تھی اور صرف ’مالابار ‘اور’ کُرگ‘ علاقے میں رَوا رکھی گئی تھی اور باقی مملکت میں یہ بات نہ تھی۔

ٹیپو کی مملکت میں مذہبی پالیسی کا تاریخی تجزیہ کرتے وقت عموما ًہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اُن کی مملکت میں تبدیلی ٴ مذہب کے بعض واقعات برضا ورغبت بھی پیش آتے تھے۔کُرگ کے لیڈر ’ رنگا نایر ‘ جیسے متعدد لوگوں نے ٹیپو سلطان کی سخاوت ،انسانیت دوستی اور بلندیٴ اخلاق سے متاثر ہوکر مذہب ِاسلام کواپنایا تھا،وہیں کچھ ایسے بھی تھے جو سلطان کی قربت اور ان کی چاپلوسی کے لیے ایسا کرتے تھے،تاہم ٹیپو نے بلا وجہ جبراً تبدیلی ٴمذاہب کرایا ہو، اس دعوی پر کوئی ٹھوس تاریخی ثبوت نہیں ہے۔ٹیپو کے معاملے میں حقائق جاننے کے لیے ہم نہ تو عیسائیوں کی تصنیف کردہ تاریخی کتابوں پراعتماد کرسکتے ہیں ؛کیوں کہ انگریزی رائٹرس کی تحریریں ان کے تئیں انتقامی جذبہ سے متاثر ہیں اور نہ ہی آج کے سنگھی فکر کے حامل تاریخ نویسوں کی تحریر کردہ دستاویزات لائق اعتماد ہیں؛کہ انھوں نے بھی اس معاملہ میں عیسائی لابی کی تقلید کا حلف لیا ہوا ہے،چنانچہ جس تاریخی کتاب کا حوالہ دے کر ٹیپو کے تعلق سے واویلا مچایا گیا وہ انگریزی مفکرین سے متاثر ہوکر فکشن کے طرز پر لکھی گئی ایک کتاب ہے جو دیگر تاریخی کتابوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ اعتماد کے لائق نہیں۔

تاریخی سچائی یہ ہے کہ میسور کے حیدر علی کے بیٹے اور مملکت خداداد کے اس سلطان کا شمار ہندوستان کے اُن چند حکمرانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ملک کی آزادی کے لیے برطانوی سامراج کے خلاف کئی کامیاب جنگیں لڑیں ۔جس زمانے میں بنگال اور شمالی ہند میں برطانوی سامراج اپنے مقبوضات میں مسلسل اضافہ کررہے تھے،اُسی دور میں جنوبی ہند میں دو ایسے مجاہد بادشاہ پیدا ہوئے جن کے نام تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف میں ثَبت ہیں ،یہ دو نام حیدر علی اور ٹیپو سلطان ہیں۔پورے ملک میں انگریزوں کو اگر کہیں سخت مقابلہ کا سامنا کرنا پڑا اور اُن کے جارحانہ قدم کہیں رُک پائے تو وہ سلطنت خداداد ہی کا حصہ تھا جس کے روحِ رواں ٹیپو سلطان تھے۔ میسور کے اس بہادر بادشاہ نے انگریزوں کے دانت کھٹے کردیے اور اس تاریخی جملہ کے ساتھ کہ ’شیرکی ایک دن کی زندگی، گیڈر کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے‘ مملکت میسور اور انگریزوں کے مابین۱۷۹۹/کی طویل اور مشہور جنگ کے دوران سرنگاپٹم میں شہادت پائی۔ ٹیپو کا یہ پیغام ان کے ہم وطنوں کے دلوں میں انگریز کی غلامی سے نفرت اور آزادی کا شیدائی بنادیا جو بعد میں جدو جہد آزادی کے ثمر آور کوشش پر منتج ہوا، اس طرح ہم ٹیپو کو تحریک ِ آزادی کا نقطہ آغاز کہہ سکتے ہیں۔ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد ہی انگریزی فوج کے قائد جنرل جارج ہیرس# نے کہہ دیا تھا کہ اب ہندوستان ان کا ہے اور ’ میں نے ہندوستان فتح کرلیا‘۔جنرل کا یہ قول بتاتا ہے کہ برطانوی سامراج کی نظر میں ٹیپو سب سے بڑا خطرہ تھے اور ہندوستان پر حکمرانی کے لیے ان کی شہادت کتنی اہم اورضروری تھی۔دوسری جانب اپنی ملک دوستی اور دیش بھکتی کے ہزاروں دعووں کے باوجود تاریخ شاہد ہے کہ سنگھ بریگیڈ نے ہمیشہ برطانوی سامراج کی وفاداری نبھائی،ان کا کوئی بھی لیڈر انگریزوں کے خلاف کبھی نبرد آزما نہ ہوا۔۱۹۲۱/میں گاندھی کی ’عدم ِ تعاون ‘کی تحریک ہو یا پھر۱۹۴۲/میں’بھارت چھوڑو آندولن ‘یا اس جیسی دیگر تحریک ِ آزادی ہو، سنگھیوں کا رویہ ہمیشہ سے انگریزوں کے تئیں وفاداری اور اُن کی مخبری کا رہا ہے۔لہٰذااگر اس ملک میں ٹیپوسلطان جیسے وطن پرست مجاہدین کا یوم ِ پیدائش نہیں منایا جائے گاتوکیا گوڈسے،ساورکراورگولوالکر جیسے سنگھی نظریات کے حامل افراد کا جشن ملک منائے گا؟

ٹیپو سلطان ایک ممتاز سپہ سالار کے علاوہ ایک اچھے مصلح بھی تھے۔وہ تعلیم یافتہ اور ایک دیندار انسان تھے،دینداری کا حال یہ تھا کہ ہمیشہ باوضو رہتے اور قرآن مجید کی تلاوت اُن کا خاص مشغلہ تھا۔ملک دوستی اور انسانیت نوازی اُن کے رگ وپے میں پیوست تھی۔ انھوں نے جنوبی ہندوستان میں ایک ایسے نظام ِ حکومت کی بنیاد رکھی اورایک ایسی سلطنت قائم کی جو ملک اور بیرون ِ ملک کے لیے اپنی مثال آپ ہے۔انھوں نے بلا تفریق ِ مذہب وملت رعایا کو خوشحال بنانے کے لیے جو فلاحی منصوبے تیار کئے،بعد میں آنے والے حکمراں ایسے منصوبے تو کیا بناتے ،اُن پر عمل آوری بھی نہ کراسکے۔عام انسانوں کے ہمدرد اور شرافت ومساوات کے حامل ٹیپو سلطان نے سب سے زیادہ توجہ کسانوں کے مسائل پر دی،جو طبقہ آج کے دور ِحکومت میں” سب کا ساتھ،سب کا وکاس اور سب کا انصاف“ کے ببانگ دہل نعرہ کے علی الرغم سب سے زیادہ تباہ ہے اور خودکشی پر آمادہ ہے۔موٴرخین کے خیال میں کسانوں کے حق میں اٹھا یا جانے والاایسا انقلابی قدم آج تک تاریخ کی آنکھو ں نے نہیں دیکھا۔جاگیرداری کو ختم کرکے اراضی کی اصلاحات پر جو کام ٹیپو کے دور میں ہوئے ان سے نہ صرف صدیوں بیکار پڑیں زمینیں کاشت کے قابل ہوگئیں بلکہ اس سے کروڑوں کاشتکاروں کی اقتصادی حالت بہتر ہوئی اور ملک نے ترقی کی نئی راہیں دیکھیں ، اسی عہد میں ریاست میں پہلی مرتبہ بینک قائم کئے گئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب تک ٹیپوسلطان بر سر ِ اقتدار رہے،انھوں نے ملک میں کوئی چیز باہر سے نہ آنے دی،یہاں تک کہ نمک بھی اندرون ِ ملک تیار ہونے لگا۔اسی طرح اسلحہ سازی سے لے کر کپڑے،برتنوں کی تیاری،لکڑی کے سامان،ریشمی مصنوعات اور لوہے وغیرہ کی صنعت میں ریاست ِ میسور نہ صرف خودکفیل ہوگئی، بلکہ بہت سارے سامان برآمدبھی کرنے لگی۔انھوں نے اپنی ریاست میں کئی معاشرتی اور اقتصادی اصلاحاتیں کیں جن سے پوری ریاست خوشحال بن گئی۔ ریاست میسور کی خوشحالی کا اعتراف اس زمانے کے ایک انگریز نے ان الفاظ میں کیا ہے ’ میسور ہندوستان میں سب سے سرسبز علاقہ ہے،یہاں ٹیپو کی حکمرانی ہے،میسور کے باشندے سب سے زیادہ خوشحال ہیں،اس کے برعکس انگریز ی مقبوضات صفحہ ٴ عالم پر بد نما دھبوں کی حیثیت رکھتے ہیں،جہاں رعایا قانونی شکنجوں میں جکڑی ہوئی پریشان ہے‘۔

انھوں نے اپنے دور حکمرانی میں متعدد اور مفید انتظامی اور فلاحی اقدامات سے ملک کو روشناس کرایا۔ زمینی پیدا وار سے ملک کو حاصل ہونے والی آمدنی کا نظام،ملک میں رائج سکّوں کا چلن، شمسی اور قمری نظام کا امتزاجی کیلنڈر اور جنوبی ہندوستان میں ریشم کی صنعت کا فروغ،یہ سارے اقدامات ٹیپو# کی یادگار ہیں جن سے ان کی ملک دوستی،غریب پروری ،سیکولر مزاجی اور روشن خیالی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ملک کے معروف تاریخ داں عرفان حبیب ٹیپو کی خدمات کے سیاق میں کہتے ہیں کہ میسور اور اس کے اطراف میں ریشم کی صنعت کافروغ دراصل ٹیپوسلطان کی غریب پرورحکمرانی کی رہین ِ منت ہے۔پورے ملک کی ریشمی صنعت کا 70%سے زیادہ حصہ تنہا کرناٹک میں ہوتا ہے جس میں سب سے زیادہ میسور ضلع کی پیداوار ہے۔ ملک میں ریشم کی صنعت کو فروغ دینے کے کا پورا کریڈٹ ٹیپو کو جاتا ہے اوراسے تمام تاریخ نویسوں نے تسلیم کیا ہے۔ عرفان حبیب کہتے ہیں کہ اگر ٹیپو سلطان اپنے دور میں انگریزوں سے مصالحت کرلیتے تو صرف جنوب ہندوستان ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی بادشاہت انھیں مل جاتی جیسا کہ برطانوی سامراج نے انھیں باربار اس کی پیشکش کی تھی۔تاریخی زاویہ سے ٹیپو کو ملک کے دفاعی نظام میں بھی ممتاز مقام حاصل ہے،ملک کے موجودہ ایڈوانس میزائل سسٹم بھی انھیں کے دفاعی اسٹراٹیجی کا حصہ ہے جو ۱۷۹۹/کی جنگ میں برطانوی ترقی یافتہ دفاعی نظام کے مقابلے میں انھوں نے تیارکی تھی،اسی وجہ سے ٹیپو کو برصغیر میں راکٹ سازی کا موجد کہا جاتا ہے، ڈاکٹراے پی جے عبد الکلام مرحوم بھی اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہورہی ہے کہ ’ناسا‘ ہندوستان کے ایک بادشاہ (ٹیپو سلطان) کو راکٹ مین کی حیثیت سے یاد کررہا ہے‘ ۔

ہونا تو یہ چاہئے کہ ٹیپو کو ایک تاریخی بادشاہ کی حیثیت سے یاد کیا جاتا نہ کہ کسی خاص مذہب سے جوڑ کر،اور علم ِتاریخ کا اصول بھی یہی بتا تاہے کہ تاریخ کے واقعات کا جائزہ اس کے متعلقہ تمام گوشوں کو سامنے رکھ کرکرنا چاہئے ناکہ کسی خاص حصہ کو اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرنا چاہئے ،ایسا کرنیاتاریخ کے ساتھ خیانت ہے۔چنانچہ ٹیپو پر مچائے جارہے واویلا پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے متعدد نامور تاریخ دانوں نے ان الزامات کی پرزور تردید کی ہے اور سیاسی جماعتوں سے اس مسئلے کو اپنا سیاسی ایشو بنانے سے گریز کرنے کی اپیل کی ہے۔ایک موٴقر انگریزی روزنامہ کے مطابق مشہور جدید تاریخ دان دلیپ مینن# نے ٹیپو پر حزب ِاختلاف کی جانب سے لگائے جارہے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ:’ بی جے پی ٹیپو کی جشن ِ پیدائش کی مخالفت کیوں کررہی ہے،ٹیپو کی شخصیت گوکہ پیچیدہ اور موضوع بحث ہے،تاہم انگریزوں کے خلاف سرنگاپٹم میں جام ِشہادت نوش کرنے والا یہ بادشاہ اٹھارہویں صدی کا سب سے بہتر مطلق العنان حکمراں تھا،جہاں تک ہندوٴوں کے خلاف اس کے رویہ کی بات ہے تو اس طرح کی زیادتی تو ’اشوکا‘ نے بھی ہندوٴوں کے ساتھ کی تھی،کیا بی جے پی اشوکا کی مخالفت کرے گی؟تاریخ کا مطلب ماضی کے واقعات اور تجربات کو بعینہ جاننا ہے نہ کہ سیاسی شعبدہ بازی کے لیے ان کا استعمال کرنا‘۔ فوجی موٴرخ مندیپ سنگھ بجوا# نے بھی بی جے پی کے اس موقف کی سختی سے تردید کی ہے اور ٹیپو کی زندگی کے اختلافی اور متنازع پہلووٴں پر واویلا مچانے کے بجائے انتظامی اور فلاحی کاموں میں اُن کی جانب سے اٹھائے گئے مثالی اقدمات کا مطالعہ کرنے اور انھیں اپنانے کی صلاح دی ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال کے بعد غیر آزاد ہندوستان میں نظام الملک آصف جاہ ،حیدر علی اور ٹیپو سلطان جیسی حیرت انگزیز صلاحیت رکھنے والا کوئی تیسرا حکمراں نظر نہیں آ تا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بر صغیر میں انگریزوں کا جتنا کامیاب مقابلہ ٹیپو سلطان نے کیا اور بر طانوی سامراج کے خلاف ۳۵سالوں تک مسلسل نبر دآزمائی کرتے ہوئے جس شجاعت اور سپہ سالاری کا ثبوت دیا وہ کسی اور مسلم یا غیر مسلم حکمراں کے حصے میں نہیں آیا۔ حکمراں ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو عام آدمی سمجھتے تھے ۔علامہ اقبال نے ٹیپو کی عظمت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ” ٹیپو کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی،وہ مذہب وملت اور آزادی کے لیے آخری دم تک لڑتے رہے،یہاں تک کہ اس راہ میں وہ شہید ہوگئے“۔

 ہندوستان کی تاریخ سے مسلم حکمرانوں کے نام ونشان مٹانے کے تعلق سے ہندوتو اور سنگھ پریوار سے وابستہ تنظیموں کا یہ منفی رویہ جگ ظاہر ہے۔ مودی سرکار سے قبل اٹل بہاری واجپئی کے دور حکومت میں بھی سرکار پر تاریخ کو مسخ کرنے کا الزام سامنے آیاتھا اور اب تو سنگھ اپنے اسٹار پرچارک کی قیادت میں تاریخ ِ ہند کو مسخ کرنے کی مذموم کوشش میں پوری تگ ودو کے ساتھ مصروف ہے۔مسلمان بادشاہوں کی عظمت کو تار تار کرنے کے لیے کبھی اورنگ زیب عالمگیر اور ٹیپو سلطان جیسے منصف ،رواداراور ملک دوست مسلم حکمرانوں کو ہندو مخالف بتاکر تاریخ میں لیپا پوتی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو کبھی جے این یو اور اے ایم یو جیسے ملک کے ممتاز اور سیکولر تعلیمی اداروں کو دہشت پسندی کی نرسری بتا کر نیا شگوفہ چھوڑا جارہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کاملک سے باہر برطانیہ کی کیمرون سرکار سے ’ ہندوستان میں عدم ِ برداشت کی کوئی جگہ نہیں‘ کا وعدہ کہاں تک سنگھ پریوار اور خود اپنی پارٹی سے منسلک متشددافراد کو درس ِ رواداری دے پاتا ہے،تاکہ یہ لوگ ملک کی تاریخ کو سیاست کی گلیاروں کا کھیل نہ بنائیں اورمحض سیاسی مفاد کے حصول کے لیے تاریخ کے سفید باب کو سیاہ اور سیاہ کو سفیدبنانے کی سعی بند کرسکیں۔

$ $ $

 

--------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ7-8، جلد:100 ‏، شوال-ذيقعده 1437 ہجری مطابق جولائی-اگست 2016ء