خیرالکلام فی کشف أوہام الأعلام

(۱۰)

 

از: مولانا مفتی عمرفاروق لوہاروی

شیخ الحدیث دارالعلوم، لندن

 

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی یہ فرمایا ہے

$ ”صحیح بخاری“ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے؛ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

قال رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: بینا أنا علیٰ بئرٍ أنْزِعُ منھا، اذ جائنی أبوبکرٍ وعمرُ، فأخذ أبوبکرٍ الدَّلْوَ، فنزع ذَنُوبًا أو ذَنوبَیْنِ، وفی نزعِہ ضعفٌ، فغفر اللہ لہ، ثم أخذھا ابنُ الخطابِ مِنْ یدِ أبی بکرٍ، فاسْتَحالتْ فی یدہ غَرْبا، فلم أر عَبْقَرِیًّا مِن الناسِ یَفْرِی فَرِیَّہُ حتّی ضربَ الناسُ بِعَطَنٍ (صحیح بخاری، کتاب التعبیر، باب نزع الماء من البئر حتی یروی الناس، ص:۱۰۳۹، ج:۲، قدیمی: کراچی)

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(میں نے خواب میں دیکھا) اس دوران کہ میں ایک کنویں پر تھا،اس سے پانی نکال رہا تھا کہ میرے پاس ابوبکر وعمر (رضی اللہ عنہما) آئے، ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے ڈول لیا، انھوں نے ایک یا دو ڈول کھینچے، ان کے کھینچنے میں ضعف تھا، اللہ تعالیٰ ان کی بخشش فرمائیں، پھر اس ڈول کو ابن الخطاب نے ابوبکر (رضی اللہ عنہما) کے ہاتھ سے لیا، تو وہ ان کے ہاتھ میں بہت بڑے ڈول میں تبدیل ہوگیا: بہت بڑا ڈول بن گیا، میں نے لوگوں میں سے کسی ماہر کو نہیں دیکھا، جو ان کے جیسا حیرت انگیز کارنامہ انجام دیتا ہو، یہاں تک کہ لوگ اونٹوں کو ہانک کر بٹھانے کی جگہ میں لے گئے۔“

حافظ ابن حجرعسقلانی، علامہ عینی، علامہ قسطلانی، علامہ محمد تاودی رحمہم اللہ اور ”الکنز المتواری“ کے جامع فرماتے ہیں:

رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمایا: ثم أخذھا ابن الخطاب مِن یدِ أبی بکر ”پھر اس ڈول کو ابن الخطاب نے ابوبکر (رضی اللہ عنہما) کے ہاتھ سے لیا۔“ ایسی بات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈول لینے میں مذکور نہیں ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ انھوں نے ڈول میرے ہاتھ سے لیا۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت عمر، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہما کی وصیت سے خلافت کی باگ ڈور سنبھالیں گے، بخلاف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کہ ان کی خلافت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح وصیت سے نہ ہوگی؛ اگرچہ ان کی خلافت کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی اشارات فرمائے، جو صراحت کے قریب تھے۔

”فتح الباری“ لابن حجر العسقلانی میں ہے:

قول: ”ثم أخذھا ابن الخطاب من ید أبی بکر“ کذا ھنا، ولم یذکر مثلہ فی أخد أبی بکر الدلو من النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ففیہ اشارة الیٰ أن عمر ولی الخلافةَ بعھد من أبی بکر الیہ، بخلاف أبی بکر فلم تکن خلافتہ بعھد صریح من النبی صلی اللہ علیہ وسلم ؛ ولکن وقعت عدّة إشارات إلیٰ ذلک فیھا ما یقرب من الصریح (فتح الباری، ص:۴۳۰، ج:۱۲، دارالریان: القاھرة)

”عمدة القاری“ للعینی میں ہے:

قولہ: ”ثم أخذھا ابن الخطاب“ أی ثم أخذ الدلو عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

قولہ: ”من ید أبی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ“ فیہ إشارة إلی أن عمرولی الخلافة بعھد من أبی بکر، بخلاف أبی بکر فإن خلافتہ لم تکن بعھد صریح من النبی صلی اللہ علیہ وسلم ؛ ولکن وقعت عدة إشارات إلیٰ ذلک فیھا ما یقرب من الصریح (عمدة القاری، ص:۱۵۶، ج:۲۴؟ دار إحیاء التراث العربی: بیروت)

”إرشاد الساری“ للقسطلانی میں ہے:

(ثم أخذھا) أی الدلوَ (عمرُ بنُ الخطّابِ مِن یدِ أبی بکر) فی قولہ: مِن یدِ أبی بکر إشارةٌ إلیٰ أن عمرَ یلي الخلافةَ مِن أبی بکر بعھد منہ، بخلاف أبی بکر فلم تکن خلافتُہ بِعھدٍ صریحٍ منہ صلی اللہ علیہ وسلم ؛ ولھذا لَم یقلُ: مِن یدی، نعم وقعت عِدَّةُ إشاراتٍ إلیٰ ذلک فیھا ما یقرب من الصریح (إرشاد الساری، ص:۴۵۸، ج:۱۴، العلمیة: بیروت)

”حاشیة التاودی بن سودة علی صحیح البخاری“ میں ہے:

(ثم أخذھا ابن الخطاب من ید أبی بکر) ھکذا ھنا، ولم یذکر مثلہ فی أخذ أبی بکر الدلو من ید النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ففیہ إشارة إلی أن عمر ولی الخلافة بعھد من أبی بکر، بخلاف أبی بکر فلم یکن بعھد صریح من النبی صلی اللہ علیہ وسلم ؛ ولکن وقعت إشارات إلی ذلک تقرب من الصریح (حاشیة التاودی بن سودة علی صحیح البخاری، ص:۳۳۱، ۳۳۲، ج:۶، العلمیة، بیروت)

ہمارے دیار کی مطبوعہ ”صحیح بخاری“ کے نسخوں کے حاشیے میں یہ بات قسطلانی کے حوالے سے مذکور ہے؛ لیکن قدیمی: کراچی کے نسخے میں کتابت کی غلطی سے ما یقرب من الصریح کی بجائے ولم یقرب إلی الصریح ہوگیا ہے۔ ملاحظہ ہو: حاشیہ: ۱۲، ص:۱۰۳۹، ج:۲ اسی حاشیہ کے حوالے سے کتابت کی مذکورہ غلطی کے ساتھ یہ کلام ”الکنز المتواری“ میں منقول ہے:

قال الجامع:

قال الإمام محمد قاسم فی الحاشیة: قولہ: ”من ید أبی بکر“ إشارة إلی أن عمر یلی الخلافة من أبی بکر بعھد منہ، بخلاف أبی بکر فلم تکن خلافتہ بعھد صریح منہ صلی اللہ علیہ وسلم ولذا لم یقل: ”من یدی“ نعم وقعت عدة إشارات إلی ذلک فیھا ولم یقرب إلی الصریح (الکنز المتواری، ص:۱۲۴، ج:۲۳، موٴسسة الخلیل الإسلامیة: فیصل آباد)

بندہ کہتا ہے:

رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا کہ انھوں نے ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے ہاتھ سے ڈول لیا، ایسے ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انھوں نے میرے ہاتھ سے ڈول لیا؛ چناں چہ ”صحیح بخاری“ کتاب التعبیر ہی میں مذکورہ باب: باب نزع الماء من البئر حتی یروی الناس کے بعد ایک باب چھوڑکر واقع باب: باب الاستراحة فی المنام میں ھَمّام عن أبی ھریرة کی روایت میں یہ بات صراحتاً وارد ہے:

قال رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: بینا أنا نائمٌ رأیتُ أنّی علیٰ حوضٍ أسقی الناس، فأتانی أبوبکر، فأخذ الدلوَ مِن یَدی لیُرِیْحَنی، فَنزعَ ذَنوبَین، وفی نزعِہ ضعفٌ، واللہ یَغفِر لہ، فأتی ابنُ الخطاب، فأخذ منہ، فلم یَزَلْ یَنْزِع حتّی تَولّی الناسُ والحوضُ یَتَفَجَّرُ (صحیح بخاری، کتاب التعبیر، باب الاستراحة فی المنام، ص:۱۰۴۰، ج:۲، قدیمی: کراچی)

ملحوظہ:

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ نے ”باب الاستراحة فی المنام“ کے تحت ہَمّام عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت کی تشریح کے موقع پر ”مِن یدی“ کے بغیر ”فأخذ أبوبکر الدلوَ لیُریْحَنی“ کے الفاظ نقل فرمائے ہیں۔ ”فتح الباری، ص:۴۳۳، ج:۱۲، دارالریان: القاہرة) اور ”باب نزع الماء من البئر حتی یروی الناس“ کے تحت روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی تشریح کے دوران بھی ہمّام عن أبی ہریرة کی روایت کا حوالہ دیتے ہوئے ”مِن یدی“ کے الفاظ تو نقل نہیں کیے؛ مگر ”مِنّی“ کا لفظ ذکر فرمایا ہے:

ووقع فی روایة ھمام الآتیة بعد ھذا ”فأخذ أبوبکر مِنّی الدلوَ لیریحنی“ (فتح الباری، ص:۴۳۰، ج:۱۲، دارالریان: القاھرة)

واللہ تعالیٰ أعلم وعلمہ أتم وأحکم

یہ حدیث تو کتاب التمنی میں ہے، کتاب الفتن میں نہیں

$ ”صحیح بخاری“ میں ہے:

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ ھَمَّامٍ سَمِعَ أَبَا ھُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَوْ کَانَ عِنْدِی أُحُدٌ ذَھَبًا لَأَحْبَبْتُ أَنْ لاَ یَأْتِیَ (عَلَیَّ) ثَلٰثٌ وَعِنْدِی مِنْہُ دِینَارٌ لَیْسَ شَیْءٌ أَرْصُدُہُ فِی دَیْنٍ عَلَیَّ أَجِدُ مَنْ یَقْبَلُہُ (صحیح بخاری، کتاب التمنی، باب تمنی الخیر الخ، ص:۱۰۷۳، ص:۱۰۷۳، ج:۲، قدیمی: کراچی)

”․․․․․․․نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اگر اُحُد پہاڑ سونے کا ہونے کی حالت میں میرے پاس (میری مِلک میں) ہوتا، تو میں پسند کرتا کہ (مجھ پر) تین راتیں اس حال میں نہ گذریں کہ اس میں سے ایک ایسا بھی دینار رہے، جس کو میرے دَین کی ادائیگی کے علاوہ روکے رکھتا، دراں حالے کہ میں اس کو قبول کرنے والا شخص پاؤں۔“

بالفاظِ دیگر: ”اگر اُحُد پہاڑ سونے کا ہونے کی حالت میں میری مِلک میں ہوتا، تو میں یہ پسند نہ کرتا کہ (مجھ پر) تین راتیں گڑنے کے بعد ایک ایسا بھی دینار رہے، جو وفائے دَین کے علاوہ کے لیے روکے رکھوں، دراں حالے کہ میں اس کو قبول کرنے والا شخص پاؤں۔“

بندہ کہتا ہے:

شیخ عبدالغنی نابلسی رحمہ اللہ (وفات:۱۱۴۳ھ) نے ”ذخائر المواریث فی الدلالة علیٰ مواضع الحدیث“ میں اسحاق بن نصر کی مذکورہ روایت کی تخریج کو ”صحیح بخاری“ کتاب الفتن کی طرف منسوب کیاہے، ملاحظہ ہو: ذخائر المواریث، ص:۱۳۳، ج:۴، دارالمعرفة: بیروت․ یہ موصوف کا وہم ہے؛ کیوں کہ یہ روایت کتاب الفتن میں نہیں ہے؛ بل کہ کتاب التمنی، باب تمنی الخیر وقول النبی : لو کان لی أحُدٌ ذھباً میں ہے۔

روایت میں ”الوادی“ بمعنی ”مکہ مکرمہ“ یا ”جنگلات“؟

$ ”صیح مسلم“ میں ہے:

عَنْ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ رضی اللہ عنہ أَنَّ نَافِعَ بْنَ عَبْدِ الْحَارِثِ لَقِیَ عُمَرَ بِعُسْفَانَ، وَکَانَ عُمَرُ یَسْتَعْمِلُہُ عَلَی مَکَّةَ، فَقَالَ: مَنِ اسْتَعْمَلْتَ عَلَیٰ أَھْلِ الْوَادِی؟ فَقَالَ: ابْنَ أَبْزَی، قَالَ (فقال): وَمَنِ ابْنُ أَبْزَی؟ قَالَ: مَوْلًی مِنْ مَوَالِینَا، قَالَ: فَاسْتَخْلَفْتَ عَلَیْھِمْ مَوْلًی؟ قَالَ: إِنَّہُ قَارِیٴٌ لِکِتَابِ اللہ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِنَّہُ عَالِمٌ بِالْفَرَائِضِ، قَالَ عُمَرُ: أَمَا إِنَّ نَبِیَّکُمْ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ: إِنَّ اللہ یَرْفَعُ بِھَذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ (صحیح مسلم، کتاب فضائل القرآن، باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ الخ، ص:۲۷۲، ج:۱، قدیمی: کراچی)

”حضرت عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نافع بن عبدالحارث حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عُسْفان میں ملے، دراں حالے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مکہ مکرمہ کا حاکم بنارکھا تھا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (دریافت) فرمایا: آپ نے مکہ والوں پر کس کو (اپنی نیابت میں) حاکم بنایا ہے؟ انھوں نے عرض کیا: ابن اَبْزٰی کو، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابن ابزٰی کون ہے؟ انھوں نے عرض کیا: ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک غلام ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ نے ان پر ایک آزاد شدہ غلام کو (اپنا) نائب بنایا؟ عرض کیا: وہ اللہ عزوجل کی کتاب کا پڑھنے والا اور فرائض کاجاننے والا ہے، حضرت عمررضی اللہ عنے فرمایا: سنو! تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کی بدولت بہت سے لوگوں کو بلند (مرتبہ) کرتے ہیں اور بہت سے لوگوں کو پست کرتے ہیں۔“

اس روایت میں جو لفظ ’الوادی“ وارد ہے، اس سے مراد ”مکة المکرمة“ ہے۔ دو پہاڑوں کی درمیانی جگہ کو ”وادی“ کہاجاتاہے اور مکة المکرمة کو بھی دو پہاڑوں: جبل ابی قُبیس اور جبل قُعَیْقِعان، کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے ”الوادی“ کہا گیا ہے۔

”فضائل اعمال“ میں وہم واقع ہوا ہے اور ”مکہ والوں پر حاکم“ کی بجائے ”جنگلات کا ناظم“ یعنی ”الوادی“ بمعنی ”جنگلات“ لکھا گیا ہے؛ چناں چہ ”فضائل اعمال“ میں ہے:

”عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نافع بن عبدالحارث کو مکہ مکرمہ کا حاکم بنا رکھا تھا، ان سے ایک دفعہ دریافت فرمایا کہ جنگلات کا ناظم کس کو مقرر کررکھا ہے؟ انھوں نے عرض کیا کہ ابن اَبْزٰی کو․․․․“ (فضائل اعمال، ص:۲۱۸، فضائل قرآن، ص:۱۸، روایت:۷، زمزم پبلشرز: کراچی)

یہی روایت ”المصنف لعبد الرزاق“ میں ہے،اس میں ”اہل الوادی“ کی تفسیر ”اہل مکة“ سے کی گئی ہے۔ مکمل روایت حسب ذیل ہے:

أخبرنا عبدالرزاق عن معمر عن الزھری قال: أخبرنی عمرو (عامر) بن واثلة أن نافع بن عبد الحارث تلقی عمر بن الخطاب إلیٰ عُسفان، فقال لہ عمر: من استخلفت علیٰ أھل الوادی؟ - عینی أھل مکة - قال: ابن أبزی، قال: من ابن أبزی؟ قال: رجل من موالی، قال: استخلفت علیھم مولیً؟ قال: إنہ قاریٴ لکتاب اللہ، قال: أما إن نبیکم صلی اللہ علیہ وسلم قال: إن اللہ یرفع بھذا القرآن أقواما ویضع بہ آخرین (المصنف لعبد الرزاق، باب التلقی، ص:۴۳۹، ج:۱۱، المجلس العلمی: ڈابھیل)

”مسند أبی یعلی“ کی روایت میں صراحتاً عبدالرحمن بن اَبْزٰی کے مکہ مکرمہ والوں پر نائب بنانے کاذکر ہے،اس میں ”أہل الوادی“ کا لفظ سرے سے ہے ہی نہیں؛ چناں چہ اس کے الفاظ یہ ہیں:

․․․․․ عن الحسنبن مسلم أن عمر بن الخطاب استعمل ابنَ عبد الحارث علیٰ أھل مکة، فقدم عمر، فاستقبلہ نافع بن عبدالحارث،استخلف علیٰ أھل مکة عبدالرحمن بن أبزٰی، فغضب عمر حتی قام فی الغرز، فقال: أتستخلف علیٰ آل اللہ عبدَالرحمن بن أبزٰی؟ فقال: إنّی وجدتہ أقرأھم لکتاب اللہ وأفقھھم فی دین اللہ، فتواضع لھا عمر حتّی اطمأنّ علی رحلہ، فقال: لئن قلتَ ذاک لقد سمعتُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: إن اللہ سَیَرْفع فھذا الدین أقواما ویضع بہ آخرین (مسند أبی یعلی، مسند عمر بن الخطاب، حدیث: ۲۰۵، ص:۱۱۱، ج:۱، العلمیةء بیروت)

واضح ہو کہ ”صحیح بخاری“ وغیرہ میں ایک روایت ہے،جس میں اُمَیّة بن خَلَف کا ابوجہل کے متعلق ”سیّد أہلِ الوادی“ کہنا اور ابوجہل کا امیة بن خَلَف کو ”إنک من أشراف الوادی“ یا ”أنت سیّد أہل الوادی“ کہنا مذکور ہے (ملاحظہ ہو: صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوة فی الإسلام، ص:۵۱۳، ج:۱، نیز کتاب المغازی، باب ذکر النبی ﷺ من یقتل ببدر، ص:۵۶۳، ج:۲، قدیمی: کراچی) اسی طرح حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے اسلام کے سلسلے میں ”صحیح بخاری“ وغیرہ میں منقول روایت میں ان کا اپنے بھائی کو ”ارکبْ إلی ہذا الوادی“ کہنا مذکور ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب إسلام أبی ذر، ص:۵۴۴، ج:۱) ان مقامات میں بھی ”الوادی“ کا لفظ ”مکہ مکرمہ“ کے لیے استعمال ہوا ہے۔

امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے یہ حدیث اپنی” مُسنَد“ میں تخریج فرمائی ہے

علامہ سخاوی رحمة اللہ علیہ (۸۳۱-۹۰۲ھ) حدیث: ”مَا رآہُ المسلمونَ حَسَنًا، فَھُوَ عِنْدَ اللہ حَسَنٌ“ کے متعلق ”المقاصد الحسنة فی بیان کثیر من الأحادیث المشتہرة علی الألسنة“ میں فرماتے ہیں کہ:

”امام احمد رحمة اللہ علیہ نے اس حدیث کی تخریج ”کتاب السنة“ میں فرمائی ہے اور جس نے اسے ”مُسنَد“ کی طرف منسوب کیا،اس کو وہم ہوگیا ہے۔“

پھر علامہ سخاوی رحمة اللہ علیہ نے أبو وائل عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے طریق سے پوری حدیث نقل فرمائی ہے:

حدیث: ”مَا رآہُ المسلمونَ حَسَنًا، فَھُوَ عِنْدَ اللہ حَسَنٌ“

أحمد فی کتاب السنة، ووھِم من عزاہ للمسند، من حدیث أبی وائل، عن ابن مسعود، قال: إن اللّوہ نظر فی قلوب العباد، فاختیار محمدًا صلی اللہ علیہ وسلم ، فبعثہ برسالتہ، ثم نظر فی قلوب العباد، فاختار لہ أصحابًا، فجعلھم أنصار دینہ و وزراء نبیہ، فما رآہ المسلمون حسنا، فھو عند اللہ حسن، وما رآہ المسلمون قبیحا، فھو عند اللہ قبیح وھو موقوف حسن (المقاصد الحسنة، حدیث: ۹۵۹، ص:۴۳۱، دارالکتاب العربی: بیروت)

بندہ کہتا ہے:

امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ (۱۶۴-۲۴۱ھ) نے یہ حدیث اپنی ”مُسنَد“ میں زِرّبن حُبَیْش عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے طریق سے تخریج فرمائی ہے؛ لہٰذا اس کی تخریج کی نسبت ”مسند احمد“ کی طرف کرنے والے کو وہم کی طرف منسوب کرنا بجائے خود وہم ہے؛ چناں چہ ”مسند احمد“ میں مکمل حدیث ان الفاظ کے ساتھ ہے:

․․․․․ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: إِنَّ اللہَ نَظَرَ فِی قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاہُ لِنَفْسِہِ، فَابْتَعَثَہُ بِرِسَالَتِہِ، ثُمَّ نَظَرَ فِی قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِہِ خَیْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَھُمْ وُزَرَاء َ نَبِیِّہِ، یُقَاتِلُونَ عَلَیٰ دِینِہِ، فَمَا رَأَی الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا، فَھُوَ عِنْدَ اللہِ حَسَنٌ، وَمَا رَأَوْا سَیِّئًا، فَھُوَ عِنْدَ اللہِ سَیِّءٌ“ (مسند الإمام أحمد بن حنبل، حدیث: ۳۶۰۰، ص:۸۴، ج:۶، موٴسسة الرسالة: بیروت)

واللہ تعالیٰ أعلم

(جاری)

$ $ $

 

-------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ9، جلد:100 ‏، ذی الحجہ 1437 ہجری مطابق ستمبر 2016ء