اسلام کا معاشی انقلاب

 

از: مولانامحمد اللہ قاسمی، شعبہٴ انٹرنیٹ، دارالعلوم دیوبند

 

اسلام نہ صرف روحانیت ہے اور نہ صرف مادیت؛ بلکہ دونوں کا حسین سنگم ہے۔ اسلام نے مادہ سے احتراز کی تاکید نہیں کہ ہے کہ انسان جوگ اور رہبانیت اختیار کرلے جیسا کہ ہندوازم ، بدھ ازم اور عیسائیت وغیرہ میں ہوا ، اور نہ انسانی معاشرہ کو مکمل طور پر مادیت کے حوالہ کیا گیا کہ انسان اپنی مادی خواہشات کے سامنے اپنی روحانی تقاضوں سے غافل ہو کر اپنی دنیا اور آخرت دونوں خراب کر لے، جیسا کہ آج کل مغرب کے ساتھ ہورہا ہے۔ اسلام نے انسان کی دنیوی زندگی فلاح و ترقی میں مادیت کے کردار کو نہ صرف تسلیم کیا ہے؛بلکہ اسلامی نظام میں مادیت کو نہایت اعتدال و توازن کے ساتھ جگہ بھی دی ہے۔ اسلام نے کسبِ حلال کو اہم ترین فریضہ قرار دیا ہے اور تجارت، زراعت، صنعت اور ملازمت وغیرہ کے ذریعہ اپنی روزی خودکمانے کی تاکید کی ہے ۔

اسلامی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی اصول بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہیے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ مال صرف مال داروں میں ہی گھومتا رہے، مال دار کا مال دن بدن بڑھتا رہے اور غریب روز بروز کنگال ہوتا جائے۔معاش کے سلسلے میں جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ سرمایہ کی گردش ہے۔ سرمایہ کی گردش اگر اس طرح ہو کہ وہ ہر طبقہ کے لوگوں تک پہنچتا رہے تو سب لوگ خوش حال ہوں گے اور اگر وہ صرف چند لوگوں کے درمیان گھومے تو خوش حالی بھی چند لوگوں کے حصے میں آئے گی اور بقیہ لوگ بدحالی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ سرمایہ کی گردش معاشرہ کے جتنے زیادہ افراد کے درمیان ہوگی، اتنی ہی زیادہ اس کی قیمت بڑھتی چلی جائے گی۔اسلام نے ایسا معاشی نظام برپا کیا کہ دولت پر بااثر لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ رہے اور دولت کا بہاؤ امیروں کے ساتھ ساتھ غریبوں کی طرف بھی رہے: کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَةً بَیْنَ الْأَغْنِیَاءِ مِنْکُمْ (سورة الحشر ، آیت ۷)

اسلام کی معاشی پالیسی

اسلام افراد معاشرہ کے درمیان معاشی مساوات پیدا کرنا چاہتا ہے۔ معاشی مساوات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک شخص کے پاس جتنی دولت ہو اتنی ہی دولت دوسرے کے پاس بھی ہو؛ کیوں کہ ایسی مساوات غیر فطری بھی ہے اور ناقابلِ عمل بھی۔ معاشرے کے ہر فرد کے پاس یکساں مال و دولت ہو ایسا ممکن نہیں ہے۔ذہنی صلاحیت میں کمی بیشی کے لحاظ سے مختلف افراد کے درمیان فرق ضروری ہوتا ہے؛ کیوں کہ اس کے بغیر حقیقی معنوں میں کوئی موٴثر تمدنی نظام قائم نہیں ہوسکتا ہے؛ مگر دو انسانوں کے درمیان یہ فرق کا تناسب لامحدود نہیں ہونا چاہیے اور عہدہ کے اعتبار سے اعزازات، رعایتوں اور فضول رسمی تحفظات کے چونچلے ختم کردینے چاہئیں۔ اسلام جس مساوات کو چاہتا ہے، وہ یہ ہے معاشرہ کے تمام افراد کو یکساں مواقع حاصل ہوں اورمال و دولت کی کمی بیشی کے ساتھ ساتھ افراد معاشرہ کے معیارِ زندگی اور مظاہرِ معیشت میں زیادہ فرق نہ ہو۔ اسلام نے وہ تمام فرق جو محض عہدہ اور حیثیت کی بنا پر قائم کیے جا تے ہیں، ان کو مٹا دیا اور صرف نام نہاد مساوات کی جگہ حقیقی تمدنی مساوات اور معاشی انصاف قائم کیا ہے۔

معاشرہ میں سرمایہ کی صحیح گردش کا دوسرا میدان کاروبار اور تجارتی لین دین ہے جو عام لوگوں کے درمیان قائم ہوتا ہے۔ معاصر دنیا میں اس سلسلے میں دو نظریے پائے جاتے نہیں ہیں: ”ایک قومی ملکیت کا نظریہ“ اور دوسرے بے قید ملکیت یا بالفاظ دیگر ”سرمایہ داری کا نظریہ“۔ قومی ملکیت کے نظریہ کے تحت اسٹیٹ کے تمام کاروبار کو قومی ملکیت بنا کر قومی ملکیت میں دے دیے جاتے ہیں اور لوگ اپنی اپنی وسعت کے لحاظ سے کام کرتے ہیں اور پھر اس قومی ملکیت سے اپنا حصہ پاتے ہیں۔ قومی ملکیت کا نظام سوویت روس میں بزور اور بہت جوش و جذبہ کے ساتھ نافذ کیا گیا؛ لیکن غیر فطری ہونے کی وجہ سے ناکام ہوگیا۔

 دوسر ی طرف ”سرمایہ دارانہ نظام“ میں ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بے روک ٹوک اپنی آمدنی مسلسل بڑھاتا چلا جائے۔ اس پر نہ اخلاقی کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے مال میں غریبوں کوکچھ دے اور نہ اس پر ایسی کوئی پابندی ہوتی ہے کہ وہ غریبوں کا مال سودی اور ناجائز ذرائع سے حاصل کرنے سے گریز کرے۔ سرمادارانہ نظام میں اصل مقصود حصولِ زر ہوتا ہے، اس میں رحم دلی، حاجت برآری اور غریب پروری کا کوئی خانہ نہیں ہے۔ اس بے قید نظامِ معیشت کا خاصہ یہ ہے کہ جب یہ اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو دولت ہر طرف سے کھنچ کھنچ کر صرف چند مٹھیوں میں جمع ہوجاتی ہے اور کاروبار پر ان کی اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے اور عوام کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ ان مٹھی بھر سرمایہ داروں کی ملازمت کریں یا ان کے ایجنٹ بن کر ان کے کاروبار کو فروغ دیں۔

مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام نے دولت کا توازن ختم کردیا ہے۔ اسلامی نظام میں معاشرے میں دولت کی گردش بیع و شراء اور جائز تبادلہ پر مبنی تھی؛ لیکن مغرب کے مالی نظام کی بنیاد سود ٹھہرایا گیا جو انسانی تاریخ کے ہر دور میں غریبوں کا خون چوسنے اور کمزور کو مزید کمزور اور دست نگر رکھنے کا ذریعہ رہا ہے۔ آج اسی نظام کا نیتجہ ہے دولت چند ہاتھوں کی باندی بنی ہوئی ہے اور وہ جس طرف چاہتے ہیں دنیا کے مالی نظام کو گھما پھرا رہے ہیں۔ آج جو مال دار ہے وہ مزید مال دار ہورہا ہے اور غریب شخص غربت کے دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام لوٹ گھسوٹ کا نظام ہے،اس نظام کا خمیر ہی بخل و حرص سے اٹھایا گیا ہے۔

سودو قمار اور اسلامی نظام معیشت

اسلام نے قومی ملکیت اور بے مہار ملکیت کی دو انتہاؤں کے درمیان ایک راہِ اعتدال تجویز ہے۔ وہ انفرادی ملکیت کو تسلیم کرتا ہے؛ لیکن وہ کچھ ایسی پابندیاں بھی عائد کرتا ہے؛ تاکہ دولت کی تقسیم کا توازن بگڑنے نہ پائے۔ اسلام نے دولت کا یہ یک طرفہ بہاؤ کو روکنے کے لیے سب سے پہلے اس بات کی کوشش کی ہے کہ ایسے تمام کاروبار قانوناً ممنوع ہوں، جس میں ایک شخص کا فائدہ اور بہت سے لوگوں کا نقصان ہو، جیسے سود، سٹہ، جوا وغیرہ۔ اسلام نے سود کی تمام شکلوں کو حرام و ناجائز قرار دیا ہے؛ کیوں کہ سود کا نظام ایک یا چند اشخاص کے نفع کو یقینی بنانے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ سود کا مطلب یہ ہوتا ہے سرمایہ دار کے نام خوش حالی کا پٹہ لکھ دیا جائے اور اس کو ہر قسم کے خطرہ اور نقصان سے محفوظ کردیا جائے۔ دنیا کے ہر کاروبار میں نفع و نقصان کا پہلو ہوتا ہے؛ لیکن سودی قرض وہ کاروبار ہے جس میں خسارہ اور گھاٹے کا کوئی امکان نہیں۔ اس میں ہمیشہ نفع ہی ہوتا ہے۔ اگر قرض دار کنگال بھی ہوجائے تو قانون اس کے گھر کا اثاثہ بیچ کر اصل مع سود سرمایہ دار کو ادا کرتا ہے۔ اس طرح سودی معاملات کے نتیجہ میں دولت کے بہاؤ کا رخ عوام کے بجائے مٹھی بھر سرمایہ داروں کی طرف ہو جاتا ہے۔

موجودہ زمانے کا بینکنگ نظام بھی سودی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے، بہ ظاہر اس میں مہاجنی نظام یا ساہوکارانہ نظام جیسی خرابیاں نظر نہیں آتیں؛ لیکن یہ بھی در اصل چند سرمایہ دار سارے ملک کی دولت کم شرح سود پر جمع کرلیتے ہیں اور پھر زیادہ شرح سود پر اس کو کارخانہ داروں اور فیکٹری مالکان کو قرض پر دیتے ہیں۔ اور پھر وہی سامان سودی رقم کے بوجھ کے ساتھ مارکیٹ میں آتا ہے اور تمام خریدار جنھوں نے اپنا روپیہ جمع کرکے صنعتوں کے لیے سرمایہ فراہم کیا تھا، ان ہی کے ہاتھ گراں بیچ کر سود کی رقم حاصل کی جاتی ہے۔ اس طرح سودی معاشیات کے نتیجہ میں خود عوام سے حاصل شدہ دولت اس بات کا ذریعہ بنتی ہے کہ دولت کے بہاؤ کا رخ عوام کے بجائے چند سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی طرف ہوجائے۔ اسلام نے بینکنگ کی مخالفت نہیں کی ہے ؛ کیوں کہ بینکنگ در اصل ایک سادہ سی اقتصادی تدبیر کا نام ہے۔ بڑا کاروبار کرنے کے لیے بڑا سرمایہ چاہیے، اس پہلو سے بینکنگ کی ضرورت مسلم ہے کہ عوام کا وہ پیسہ جو ان کی تجوریوں میں بند ہوتا ہے ، اس سے سرمایہ کاری ہو اور اس کا نفع سب کو پہنچے۔ اس نقطئہ نظر سے اسلام کے مطابق بینکنگ کی صحیح بنیاد مضاربت ہے یعنی عوام کو اصل نفع و نقصان میں برابر کا شریک رکھا جائے۔ مضاربت تجارتی عمل میں معاون بننے کے ساتھ دولت کی گردش کو پھیلاتی ہے اور سود دولت کو سمیٹ کر چند ہاتھوں میں پہنچانے کا کام کرتا ہے۔ مضاربت سے عمومی نفع کی صورت پیدا ہوتی ہے؛ جب کہ سود سے استحصال کو فروغ ملتا ہے۔

یہی حال قمار، جوے، سٹہ اور لاٹری وغیرہ کا ہے جس میں لازماً ایک فریق کا فائدہ اور دوسرے فریق کا نقصان یا مٹھی بھر افراد کا فائدہ اور پورے معاشرہ کا نقصان ہے۔ یہ کاروبار کچھ لوگوں کے لیے سماج کی کسی حقیقی خدمت کے بغیر روپیہ کا ڈھیر لگادیتا ہے اور دوسرے بہت سے لوگوں کو کسی بنیادی سبب کے بغیر مفلس اور کنگال بنادیتا ہے۔

اسلام کا نظامِ زکوة و وراثت

دولت کی صحیح تقسیم قائم رکھنے اور معاشرہ میں مساوی گردش کو یقینی بنانے کے مقصد سے زکاة فرض کی گئی، جس کا اصول ہے کہ مال داروں سے وصول کی جائے اور غریبوں کو ادا کی جائے۔ اسلام غنی اور مال دار کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنا زائد اور اضافی مال راہِ خدا میں خرچ کرکے اللہ تعالی کی رضا حاصل کرے اور اخلاقی عظمت حاصل کرے۔ قرآن کریم میں ہے: فِیْ أَمْوَالِھِمْ حَقٌ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (سورة المعارج ، آیت ۲۴، ۲۵)

اسلام نے ہر قسم کی ملکیت کا ایک معیار مقرر کردیا ہے، جس کے پاس بھی اس معیار سے زیادہ دولت پائی جائے گی اس سے ہر سال زکاة کا لازمی حصہ وصول کیا جائے گا۔ زکاة اسلامی معاشیات کا عظیم الشان انقلابی باب ہے۔ اگر کوئی ملک صحیح معنوں میں اسلامی نظامِ زندگی کو قبول کرکے نافذ کرلے تو وہاں افلاس، گداگری اور دیگر معاشی جرائم کا خاتمہ ہوجائے گا۔ نظام زکاة دولت کے سمٹاؤ کو روک کر اس کا بہاؤ معاشرہ کے کمزور افراد کی طرف کردیتا ہے۔

علاوہ ازیں، صدقات و خیرات کی خوب ترغیب دی گئی اور مختلف قسم کے کفارات اور فدیوں کی ایسی صورت تجویز کی گئی جس سے غریب افراد کی حاجت روائی کا سامان بھی پیدا ہوگیا۔ اسلام میں اخلاقی حیثیت سے بخل کو سخت قابلِ مذمت قرار دیا گیا۔ سخاوت و فیاضی بہترین صفت قرار دی گئی۔

اسی نظامِ معیشت کے پیش نظر میراث کا ایسا قانون بنایا گیا کہ ہر مرنے والے کی چھوڑی ہوئی دولت اور جائداد زیادہ سے زیادہ وسیع دائرہ میں پھیل جائے اور معاشرہ کے زیادہ سے زیادہ افراد اس سے مستفید ہوں۔

اسلام کا نظامِ تکافل

اسلام کا نظامِ تکافل اسلامی معاشی انقلاب کا اہم حصہ ہے جس میں کسی مذہب و قومیت کے امتیاز کے بغیر ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کو کسی نہ کسی شکل میں اتنا سامان معاش ہر حال میں میسر ہو جائے جتنا اطمینان کے ساتھ عام زندگی گزارنے اور متعلقہ حقوق و فرائض کی ادائیگی کے لیے ایک انسان کو در کار ہوتا ہے۔ اس نظام کا مقصد ملکی و قومی دولت کی گردش کا دائرہٴ کار چند اغنیاء مال دار لوگوں کے درمیان محدود ہونے سے بچانا ہوتا ہے؛ تاکہ عام لوگ کسی کے رحم و کرم کے محتاج نہ رہیں۔اسلام کا حکم ہے کہ معاشرے کے وہ افراد جو مسکین اور نادار ہوں ، یا کسی عذر کی وجہ سے معذور ہوں اور کوئی معاش تلاش کرنے یا روزی کمانے کے لائق نہ ہوں یا مناسب روزگار نہ ملنے کی وجہ سے محتاجی کا شکار ہوں تو ایسے ضرورت مند افراد کی معاشی کفالت حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں سے ہے۔اسی طرح جو ان کے عزیز و اقارب ہوں ، ان کے ذمہ ایسے افراد کی کفالت ہے اور معاشرہ کے دیگر مال دار لوگوں کو زکاة وصدقات اور عطیات سے ایسے افراد کی کفالت کا انتظام کریں۔ اسلام کے نظامِ تکافل میں اولیت اس بات کو حاصل ہے کہ اسلامی ریاست کا کوئی شخص بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ ہو۔ اس نظام میں امیر کو ترغیب دے کر اور آخرت کا خوف دلاکر یہ درس دیا جاتا ہے کہ وہ غریب اور محروم افراد تک اس کی ضروریاتِ زندگی بہم پہنچائے۔

خلاصہٴ کلام

اسلام کا یہی انقلابی نظامِ معاش ہے جو ظہورِ اسلام کے بعد دنیا میں رائج ہوا پوری شان کے ساتھ تیرہ صدیوں تک چلا۔ اس نظام کے زمانے میں انسانوں کو کبھی بھی کوئی بڑا معاشی بحران نہیں پیش آیا۔تمام لوگوں کے درمیان دولت کی تقسیم اور اس کا توازن قائم رہا۔ مختلف اسلامی حکومتوں کے زمانے میں عوام الناس کی معاشی فارغ البالی ایک تاریخی حقیقت ہے۔ مسلمان ملکوں کی معاشی بہتری اور دولت کی ریل پیل ہی وہ وجہ ہے جس کی بنیاد پر مشرق کے اسلامی ممالک مغرب کے سرمایہ دار اور استعماری ملکوں کا نشانہ بنے اور آج بھی وہ اس سے نجات نہیں پاسکے ہیں۔

اسلامی نظام میں ہر ملک اور خطہ کے لوگوں کو مقامی سطح پر معاش اور رزق کے ذرائع مہیا تھے اور انھیں اس کے لیے نقلِ مکانی کی ضرورت کم ہی پڑتی تھی؛ لیکن آج دنیا میں سب سے زیادہ نقلِ مکانی معاشی ضرورتوں کی بنیاد پر ہورہی ہے اور لاکھوں افراد ادھر سے ادھر منتقل ہورہے ہیں۔ بے جا معاشی ضروریات کی وجہ سے لوگ زندگی کے حقیقی آرام سے محروم اور ترفہ و عیش کے سامانوں کی کثرت کے باوجود ذہنی سکون کی دولت سے ناآشنا ہیں۔

مغربی نظام سے دولت کی بے جا ہوس لوگوں کے دلوں میں پیدا کررکھی ہے اور دنیا کی چمک دمک دکھا کر لوگوں کو ہر جائز و ناجائز ذرائع سے دولت کمانے پر اکسا رہا ہے۔ مغرب نے مشین ایجاد کرکے ملک کے مال دار ایک معمولی طبقہ کو ساری دولت کا مالک بنادیا اور بقیہ پورے معاشرہ کو اس کا نوکر۔ ایک شخص جس کے پاس بے انتہا دولت ہے وہ فیکٹری لگاتا ہے اور پوری قوم اس کے یہاں نوکری کرتی ہے۔ عوام الناس اپنی محنت سے جو سامان تیار کرتے ہیں، اس کے منافع کا بڑا حصہ خود ایک مالک کے ہاتھ چلا جاتا ہے اور اس کا ایک معمولی ٹکڑا معاشرے کے ایک بڑے حصہ میں تقسیم ہوتا ہے جو اس کی محنت کا عُشرِ عَشیر بھی نہیں ہوتا۔

 اسلامی معاشرہ میں عام پبلک اور حکم رانوں کے درمیان سیاسی اختیارات کے سوا اورکسی حیثیت سے کوئی زیادہ فرق نہیں تھا۔ ایک عام شخص کے جو شہری حقوق ہوتے تھے، وہی بڑے سے بڑے عہدہ دار کے ہوتے تھے۔ سرکاری خزانوں سے وزیروں اور گورنروں کو اتنا ہی حصہ ملتا جتنا عام شہریوں کو۔ یہی وجہ تھی کہ ملک کی دولت معاشرہ کے تمام افراد تک یکساں پہنچتی تھی اور ہر طرف خوش حالی کا دور دورہ تھا؛ چناں چہ عرب میں یہ حال پیدا ہوگیا کہ شہروں میں لوگ صدقات کی رقمیں لیے پھرتے تھے اور کوئی اسے لینے والا نہیں ملتا تھا۔

$$$

 

--------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ12، جلد:100 ‏، ربیع الاول 1438 ہجری مطابق دسمبر 2016ء