نئی کتابیں

تیسیر الانشاء (الجزء الأول)

 

 

 

نام کتاب           :        تیسیرالانشاء (الجزء الأول)

    موٴلف             :        جناب مولانا محمد ساجدقاسمی، استاذ دارالعلوم دیوبند

    تعداد صفحات       :        ۱۶۴     قیمت: (درج نہیں)

    ناشر               :        دارالمنار دیوبند

    بہ قلم             :        مولانا اشتیاق احمد قاسمی، استاذ دارالعلوم دیوبند

=================

دین اسلام کے فروغ اوراس کی اشاعت کے لیے مدراسِ اسلامیہ قائم ہیں، ان میں دو قسم کے علوم پڑھائے جاتے ہیں: ”علوم عالیہ اور علوم آلیہ“ اوّل کا تعلق براہِ راست کیانِ اسلام کی حفاظت سے ہے؛ وہ قرآن وحدیث، فقہ اوران تینوں کے اصول ہیں۔ دوسرے کی حیثیت معاون کی ہے، ان سے علومِ اسلامی کے سمجھنے کی استعداد پیداہوتی ہے؛ مثلاً: منطق، فلسفہ، بلاغت، معانی، بیان، تاریخ، سیرت اورجغرافیہ وغیرہ۔ ان سے طالب علم فہم وتفہیمِ کتب وشریعت میں مدد لیتا ہے اور یہ سب فنون چوں کہ عربی زبان میں ہیں؛ اس لیے ابتدائی جماعتوں میں نحو وصرف کے ساتھ عربی زبان کے ریڈرس پڑھائے جاتے ہیں، انھیں کے ضمن میں جملہ نگاری کرائی جاتی ہے، لکھنے اور بولنے کی مشق کرائی جاتی ہے،”مفتاح العربیہ“ کے دو حصے انشاء کی غرض سے ہی لکھے گئے ہیں، اس طرح طالب علم بہ تدریج مضمون نگاری تک پہنچتا ہے اوراُس میں کتابوں کے سمجھنے کی استعداد پیداہوجاتی ہے، پھر قدیم نثر ونظم پڑھتے ہیں ان کے ذریعے اس کے پاس لغات کا بھی اچھا خاصا ذخیرہ جمع ہوجاتا ہے۔ یہ طلبہ قرآن وحدیث اور فقہ اسلامی کو اچھی طرح سمجھ کر امت کی رہنمائی کرتے ہیں، اس طرح مدارس کے قیام کا مقصد سامنے آتا ہے۔ زبان کو محض زبان اور ادب کی حیثیت سے پڑھانا، ان کے مقاصد واہداف میں داخل نہیں ہے، اس کے لیے دنیا بھر میں بہت سے سرکاری اور غیرسرکاری ادارے ہیں؛ اس لیے قدیم فضلاء کی ایک بڑی تعداد عظیم ترین استعداد کے باوجود خالص زندہ عربی زبان بولنے اور لکھنے پر قادر نہیں اور یہ کوئی عیب کی بات بھی نہیں لیکن کیا عربی زبان کو زندہ زبان کی حیثیت سے پڑھانا نہیں چاہیے؟ نہیں، ایسا نہیں! دارالعلوم دیوبند میں عربی زبان کو زندہ زبان کی حیثیت سے پڑھانے کی مہم حضرت اقدس مولانا وحیدالزماں کیرانوی نے چلائی، وہ اور ان کے تلامذہ اس میں کامیاب ہوئے، مولاناکیرانوی نے جس طرح ابتدائی ریڈرس لکھے، اسی طرح صفِ عربی، تکمیل ادب اور تخصص فی الادب کے ذریعے جدید نثر ونظم، اسالیبِ بیان اور تاریخِ ادب عربی جیسے مضامین کا اضافہ فرمایا، نئی جہت کی اس محنت سے اچھے اچھے قلم کار، انشاء پرداز اور قابلِ قدر زبان داں پیدا ہونے لگے اور مولانا کا خواب شرمندہٴ تعبیر ہوا کہ آج اکثر فضلائے دیوبند عربی میں لکھنے اور بولنے پر قادر ہیں اور بہت سوں کی تقریر وتحریر زبان کی حدوں سے بلند ہوکر ”ادب“ کے بامِ عروج پر پہنچی ہوئی نظر آتی ہے؛ انھیں موفَّق فضلائے دیوبند میں زیرتعارف کتاب کے موٴلف بھی ہیں، ان کی بہت سی نگارشات اہلِ علم سے دادِ تحسین حاصل کرچکی ہیں، ”القرائة العربیہ“ یونیورسٹیوں میں داخلِ نصاب ہے، ترجمہ نگاری کا بھی موصوف کو بہت اچھا ذوق ہے، متعدد کتابوں اور مقالات ومضامین کے ترجمے شائع ہوچکے ہیں، دارالعلوم دیوبند میں عربی زبان وادب کے مقبول ومعروف استاذ ہیں، انھوں نے طلبہ مدارس کو بالکل ابتداء سے عربی زبان کو زندہ زبان کی حیثیت سے پڑھانے کا تجربہ حاصل کیا ہے، ان کی خواہش ہے کہ نحووصرف کے قواعد وضوابط کو محض نظری نہ پڑھایا جائے؛ بلکہ ان کو تطبیقی اور تمرینی انداز میں اس طرح پڑھایا جائے کہ طالب علم ترجمہ نگاری اور انشاپردازی پر قادر ہوجائے، طلبہ کے پاس قدیم لغات کے ذخیرے کے ساتھ، جدید لغات کا بھی اتنا ذخیرہ ہوکہ وہ گردوپیش کے ماحول اور موجودہ زندگی کے نشیب وفراز کو تعبیر کرسکیں اور ترجمتین پر ان کو قدرت ہو۔ اس مہم کو تین مرحلوں میں سرکرنے جارہے ہیں، یہ پہلا مرحلہ ہے، اس میں چھتیس اسباق ہیں، تمرینات میں آیات، تاریخ اور روزمرہ کا اہتمام کیاگیا ہے اور بالکل اخیر میں فرہنگ بھی ہے؛ تاکہ مبتدی طلبہ بہ وقت ضرورت دیکھ سکیں۔

کتاب ماشاء اللہ بہت عمدہ ہے، طلبہٴ مدارس کے لیے بڑی کارآمد بھی، امید ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کے اساتذہ و ذمہ داران کتاب کو بہ نظرِ استحسان دیکھیں گے اور اپنے نصاب کا جُز بنائیں گے، پہلا حصہ اپنی ظاہری ومعنوی خوبیوں سے مزین ہے، کاغذ، کتابت، طباعت اور ٹائٹیل دیدہ زیب ہیں، اللہ کرے یہ کتاب بھی موٴلف کی سابقہ تالیفات کی طرح قبولیت حاصل کرے! (آمین)

 

$$$

 

-----------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ12، جلد:100 ‏، ربیع الاول 1438 ہجری مطابق دسمبر 2016ء