شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق صاحب اعظمی

احوال وتاثرات

 

از قلم: مولانا اشرف عباس قاسمی     

استاذ دارالعلوم دیوبند                 

 

دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث،استاذالاساتذہ حضرت مولانا عبدالحق صاحب اعظمی، رحمہ اللہ رحمة واسعة، کی وفات کے ساتھ ہی علم وفضل کے ایک سنہرے دور کا خاتمہ ہوگیا،حضرت مولانا اصحاب عزیمت نابغہء روزگار شخصیات میں سے تھے ،۳۳ سال تک دارالعلوم دیوبند کی باوقار مسندحدیث کو زینت بخشی، بخاری جلدثانی یعنی کتاب المغازی کے بعد کے ابواب آپ سے متعلق تھے،دارالعلوم مئواور دارالعلوم دیوبندمیں مجموعی اعتبار سے چھہ دہائیوں تک صحیح بخاری کادرس دیتے رہے، حضرت کا درس بخاری نہایت مبسوط اور جامع ہوا کرتاتھا،گھنٹوں آپ نہایت اہتمام کے ساتھ درس حدیث دیاکرتے تھے۔

جاں گسل حادثہ اور اس کی تفصیل

آپ کی وفات ایسا جاں گسل حادثہ ہے جس کی کسک شاید مدتوں تک محسوس ہوتی رہے۔ ۳/ربیع الاول۱۴۳۸ھ ۳۰/دسمبر۲۰۱۶ء،جمعہ کا دن گزارکر عشا سے ذرا قبل جوں ہی آپ کے انتقال کی خبر ملی،قلب ودماغ کو سخت صدمہ پہنچا،باچشم تر بہ عجلت تمام ہسپتال پہنچے،دیکھا تو حدیث نبوی کے اس عظیم خادم اورعلم ومعرفت کے اس راہی کوآخر کار قرار آہی گیا تھا،ایک پرسکون منور چہرہ ہمارے سامنے تھا جیسے تھکا مسافر اپنی منزل پر پہنچ کر سوگیاہو، ہم نے آگے بڑھ کر پیشانی کا بوسہ لیا،اور اپنے آنسووٴں کو تھامتے ہوئے ان طلبہ کو پرسکون کرنے کی کوشش کی جو اپنے محبوب استاذ کی جدائی پر زاروقطار رورہے تھے۔ہسپتال سے ایمبیولینس کے ذریعے آپ کو دارالعلوم منتقل کیا گیا اور یہاں اس قدیم دارالحدیث میں آپ کی نعش کو رکھا گیاجہاں تین دہائی تک آپ علم ومعرفت کے جام لٹاتے رہے،ایسا لگ رہاتھا کہ اساتذہ وطلبہ کے ساتھ دارالحدیث کے درودیوار بلکہ پوری فضا حد درجہ سوگوار ہے،اور کیوں نہ ہو جب کہ شیخ کی وفات کے ساتھ ہی دارالعلوم سے علم وفضل کے ایک قیمتی سرمایے کا خاتمہ ہورہاتھا۔

حادثے کی خبر ملک وبیرون ملک مین پھیل چکی تھی؛اس لیے اسی وقت حضرت مہتمم صاحب، حضرت مولاناحبیب الرحمن اعظمی اور حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی وغیرھم نے نودرے میں ہنگامی مٹینگ اور حضرت کے فرزندگرامی مولانا عبدالبر سے اعظم گڑھ بات کرکے جنازے کاوقت بعدظہر طے کردیا،ادھر زیارت کرنے والوں کاتانتا لگا رہا، ظہر سے پہلے ہی لوگوں کا امڈتاہوا سیلاب نظر آنے لگا،تاہم مولانا عبدالبر وغیرہ کے پہنچنے میں تاخیر کے سبب تین بج کر پچپن منٹ پر حضرت مولانا سیدارشد مدنی دامت برکاتھم کی اقتدا میں جم غفیر نے نمازجنازہ اداکی۔تعطیلات کے باوجود جس بڑی تعداد میں لوگ جنازے میں شریک تھے اس سے عنداللہ آپ کی محبوبیت ومقبولیت کا اندازہ لگایاجاسکتاہے،فوارے کے پاس سے لے کر صدر گیٹ تک اس طرح صف بندی ہوئی کہ تا حد نگاہ سرہی سر نظر آرہے تھے۔اس کے بعد مزارقاسمی میں اپنے استاذگرامی شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کی قبر کے بائیں جانب د س بارہ گز کے فاصلے پرآپ کو دفن کردیاگیا،اس طرح ۲۰۱۶ء کے ڈوبتے سورج کے ساتھ ہی علم وعمل کا یہ آفتاب بھی خاک میں زیر زمیں پنہاں ہو گیا۔رحمہ اللہ تعالی رحمة واسعة۔

کچھ یادیں کچھ باتیں

۱۴۱۹ھ مطابق۱۹۹۹ء جب دورہٴ حدیث شریف کے لیے دارالعلوم حاضری ہوئی توحسب معمول بخاری شریف جلدثانی کادرس آپ سے متعلق ہوا،عشا کے بعد کسی قدر تاخیر سے درس شروع فرماتے،کوئی جھوری الصوت خوش الحان طالب علم عبارت پڑھتا،اگر کسی نے غلطی کردی تواس کو تیز نگاہوں سے دیکھتے اور مناسب تنبیہ فرماتے،درس شروع کرتے وقت ایسا لگتا کہ بالکل جلال کے عالم میں ہیں،لیکن جوں جوں درس آگے بڑھتاآپ کی طبیعت منشرح ہوتی جاتی،تدریس سے بڑا شغف تھا اوریہی زندگی بھر آپ کا اوڑھنا بچھونارہا،آپ ہر حدیث پر مبسوط کلام فرماتے،دوران درس برمحل لطائف وواقعات سے طلبہ میں نئی جان پڑجاتی تھی،مغازی میں بہ کثرت اشخاص وسنین کا اختلاف سامنے آتاہے، آپ متعدد اقوال ذکر کرکے ان میں تطبیق دیتے،اس دوران طلبہ کا عمومی تاثر یہ رہتا کہ علامہ کرمانی کا جواب کہ عددقلیل عددکثیر کے منافی نہیں ہے،ضرور ذکر کریں گے،اور ہوتا بھی یہی تھا۔حدیث مکرر آجاتی توبھی پوری تشریح ازسرنوفرمادیتے ۔آپ کے درس میں ترتیب اور تسلسل قائم رہتا،جس سے ابحاث کو سمجھنے میں الجھن نہیں ہوتی تھی ،اس طرح گھنٹوں انفرادی شان کے ساتھ آپ کا درس حدیث جاری رہتا،حافظہ بھی بڑا قوی تھا۔

احقرکودرس کے علاوہ کبھی کبھارآپ کی قیام گاہ پر بھی نیازمندانہ حاضری کا شرف حاصل ہوجاتا، ششماہی امتحان کے نتائج کے بعد ایک دن خدمت میں حاضری ہوئی توایک ساتھی نے احقر کی طرف اشارہ کرکے بتادیا کہ حضرت آپ نے بخاری شریف میں پورے دورے میں اکیلے انھیں پچاس نمبر دیے ہیں، تو حضرت فورا متوجہ ہوئے؛حالاں کہ حضرت کو کاپی چیک کیے ہوئے ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرچکاتھا پھر بھی حضرت نے بڑی باریکی کے ساتھ میری کاپی کے مشمولات کے بارے میں سوالات کیے،جیسے وہ اس وقت نگاہوں کے سامنے ہے،جن شروح بخاری کے حوالے دیے گئے تھے ان کے بارے میں سوالات شروع کردیے،احقر کے جواب سے حضرت مسرور ہوئے اور اس کے بعد کئی واقعات سنائے۔بہ ہر حال احقر کی یہ خوش بختی تھی کہ ایسے محدث وقت سے اس طرح بخاری شریف پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی کہ پورے سال کسی سبق کا ناغہ نہیں ہوا،اور ہرحدیث بہ راہ راست سننے کا موقع میسر آیا۔ فللّٰہ الحمد اولا وآخرا۔

بخاری شریف کے ساتھ اوائل سنبل اور مسلسلات کا بھی درس ہوتا،مسلسلات کا سبق ہمارے سال تین بجے شب تک چلاتھا،مسلسل بالشعراء والی روایت پر مزے لے لے کر اپنے بھی کئی اشعار سنائے، بخاری شریف کے آخری سبق کے دن خود آپ پر اور طلبہ پر عجیب کیفیت طاری تھی، سبق کے بعد”وبالاسحار ھم یستغفرون“ پرعمل کرتے ہوئے شاگردوں کے سامنے اپنی تقصیر کا اعتراف کرتے ہوئے بہت روئے اور سب کو خوب رلایا، اور اخیر میں جب فانی بدایونی کا یہ شعر پڑھا تو چیخیں نکل گئیں۔

سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے

کفن  سر کا  وٴ  میر ی   بے   ز  با  نی   د  یکھتے  جا وٴ

اس کے بعد لائٹیں بجھا دی گئیں اور آپ نے کمال تضرع کے ساتھ بارگاہ رب ذوالجلال میں ہاتھ اٹھائے،شاید ہی کوئی آنکھ ہو جو نم نہ ہوئی ہو،شاید ہی کوئی دل ہو جو تڑپ نہ اٹھا ہو،اور جب آپ نے دعا ختم کی توایسا محسوس ہواکہ اس پیر مغاں کے صدقے ہمارے گناہ بھی آنکھوں کی راہ سے بہ گئے۔

چارسال قبل جب بفضلہ تعالی مادرعلمی دارالعلوم دیوبندمیں تدریس کی خدمت تفویض کی گئی توحضرت کی عنایتیں پہلے دن سے ہی حاصل رہیں،ہماری حقیر درخواست پرحضرت ایک بارخانقاہ میں واقع ہمارے کرایے کے مکان میں وہیل چیئر پر تشریف لائے اور بچوں کے سروں پر دست شفقت پھیر کر انھین اپنی دعاوٴں سے نوازا،یہ بھی حضرت کی شفقت اور خرد نوازی تھی کہ چھوٹے موٹے کام کے لیے کبھی یاد فرمالیتے اور جیسا تیسا بھی انجام پاتا، اس سے خوش ہوکردعاوٴں سے نوازتے رہتے،آخری ملاقات میں جب قیام گاہ پرمزاج پرسی کے لیے حاضری ہوئی تو حضرت نے اپنے ہاتھوں سے اپنی زیرنگرانی شائع”تہذیب الکلام “ کا نسخہ مرحمت فرمایا۔(یہ درس نظامی کی مشہور کتاب ”شرح تہذیب“ کے متن”تہذیب المنطق“مصنفہ:علامہ سعدالدین تفتازانی کا دوسرا جز ہے،دراصل تفتازانی کا یہ متن متین منطق اور کلام دوفنون پر مشتمل ہے،جیساکہ مقدمے میں وضاحت ہے،تاہم عام تاثر یہ ہے کہ علم کلام والا حصہ یا تو مصنف نے تحریر ہی نہیں کیا یا وہ ضائع ہو چکا ہے،لیکن حضرت کو وہ حصہ ایک غیر مسلم کے ہاتھ کا لکھا ہوادستیاب ہوگیا تھا،جس کو آپ نے بڑے اہتمام کے ساتھ ”تھذیب الکلام“ کے نام سے شائع کروایا ہے۔)کتاب کے علاوہ روانگی کے وقت بہ طورخاص دوسیب بھی مرحمت فرمائے،واقعی بڑے شفیق اور خردنواز تھے،یہ آخری ملاقات تھی جس میں آپ نے اپنی خاص عنایتوں سے نوازا،افسوس اس کے بعد قیام گاہ پر آپ سے دوبارہ ملاقات نہیں ہوسکی۔

سوانحی خاکہ

پیدائش اور تعلیم وتربیت

آپ کی پیدائش ۶/رجب بہ روز دوشنبہ ۱۳۴۷ھ مطابق۱۹۲۸ء علم ادب کی سرزمین اعظم گڑھ کے جگدیش پور میں ہوئی،۶ سال کی عمر میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا،اس کے بعد آپ کی کفالت وتربیت مولانا ابوالحسن محمد مسلم صاحب نے فرمائی،گاوٴں کے مکتب سے ابتدائی تعلیم کے بعدبیت العلوم سرائے میر میں داخل ہوئے،یہاں سے عربی فارسی کی مختلف کتابیں پڑھنے کے بعددارالعلوم مئو میں داخلہ لے کرہفتم تک کی تعلیم مکمل کی،۱۹۴۸ء میں دورہٴ حدیث کے لیے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا،شیخ الاسلام حضرت مدنی سے صحیح البخاری وترمذی نصف اول،علامہ ابراہیم بلیاوی سے صحیح مسلم، مولانااعزاز علی صاحب سے سنن ابوداوٴد،ترمذی نصف ثانی اور شمائل پڑھی۔جب کہ دیگر اسباق مولانا فخرالحسن،مولانا ظہور احمداور مولانا جلیل احمد رحمہم اللہ سے متعلق رہے۔ابوالمآثر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی اور شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب کاندھلوی سے بھی آپ کو اجازت حدیث حاصل تھی۔

تدریس

دارالعلوم سے فراغت کے بعد ندوة العلما ء کا بھی رخ کیا،لیکن وہاں کا ماحول اپنے مزاج سے ہم آہنگ نہ پاکر ایک ماہ بھی قیام نہ کرسکے،اور وطن واپس آگئے،درس وتدریس کا باضابطہ سلسلہ مطلع العلوم بنارس سے شروع کیا،جہاں سولہ سال تک مختلف علوم وفنون کی کتابیں زیر درس رہیں،بڑے انہماک اور دلچسپی سے پڑھاتے،روزانہ رات کو ایک بجے /دو بجے تک مطالعے میں مستغرق رہتے، اس کے بعد طلبہ کے سامنے علم کے درہائے آبدار لٹاتے۔ کچھ عرصہ گریڈیہہ کے ”کول ڈیہا“ میں بھی آپ نے درس دیا، اس کے بعد مشرقی یوپی کی بافیض دینی درس گاہ”دارالعلوم مئو“ میں تدریس کے لیے بلائے گئے،جہاں آپ نے بخاری شریف سمیت فن کی امہات الکتب کا درس دیا،پھر ۱۹۸۳ء میں وہ وقت بھی آیا جب محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی کی نشاندہی پر معزز ارباب شوری نے دارالعلوم میں بخاری شریف ثانی کی تدریس کے لیے آپ کاانتخاب کیا،اور اس وقت سے وفات تک کامیابی کے ساتھ اس خدمت گرامی کو انجام دیتے رہے،(درس بخاری کی خصوصیات ذاتی تاثرات کے تحت تحریرکی جاچکی ہیں)اس طرح ۳۳ سال میں تقریبا ۲۵ ہزار افراد نے آپ سے بخاری شریف پڑھی،عرب وعجم کی نمایاں شخصیات جنھوں نے آپ سے خصوصی اجازت حدیث حاصل کی،ان کی تعداد ان کے علاوہ ہے۔

نکاح اور اولاد

آپ کا پہلا نکاح اعظم گڑھ کے”بسیا“ گاوٴں میں ہوا،جن سے دو بیٹیاں اور بیٹے ”عبدالحکیم“ ہیں، جو اس وقت ممبئی میں مقیم ہیں۔ دوسرا نکاح ”ننداوٴں“ گاوٴں میں ہوا،جس سے ایک بیٹی ہیں۔ دونوں زوجہ کے انتقال کے بعد آپ کا نکاح بنارس میں ہوا،یہ ابھی ماشاء اللہ بہ قید حیات ہیں، اور ان سے چھ فرزندان گرامی ہیں:عبدالبر،عبدالتواب،عبدالمنعم،عبدالمتعال،عبدالمقتدراور احمد۔اول الذکر مولانا عبدالبر صاحب دارالعلوم کے فارغ التحصیل اور اعظم گڑھ کے ایک مدرسے میں مدرس ہیں، آپ کے کئی داماد بھی علم وتحقیق کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔اللہ پاک آپ کی تمام نسبی وروحانی اولاد کو عمل صالح اور عزت وعافیت والی زندگی عطا کریں،اور آپ کے لیے سب کو صدقہ جاریہ بنائیں۔

اوصاف واحوال

آپ کے انداز تخاطب اور لہجے میں تیزی تھی ،لیکن دوسرے ہی لمحے آپ نرم دم گفتگو بھی ہوجاتے،باحوصلہ طلبہ ہی استقامت کے ساتھ سفروحضر میں خدمت کرپاتے، آواز بلند اورچہرہ بارعب تھا ملنے والا یہ محسوس کرتاکہ وہ محدثین متقدمین میں سے کسی سے شرف ملاقات حاصل کررہے ہیں۔ طبیعت میں تواضع اور انکساری تھی،اپنے بزرگوں کے طرز پر ہی سا دگی پسند واقع ہوئے تھے،بدن بھاری ہونے کے باوجودمتداول بیماریاں مثلا عارضہٴ قلب، شوگر، بلڈپریشر وغیرہ سے اللہ پاک نے اخیر تک محفوظ رکھا،عمر کے آخری ایام تک مختلف دینی ودعوتی پروگراموں میں شرکت کے لیے اسفار فرماتے رہے، اللہ پاک نے خاص قسم کی بصیرت سے نوازاتھا،فراست ایمانی سے حالات کے رخ کو تاڑ لیا کرتے تھے،کسی کے بارے میں کسی خدشے کا اظہار کیا، وہ بات سامنے آگئی، یہ بات مشہور تھی کہ حضرت مستجاب الدعوات بزرگوں میں ہیں،چنانچہ بہت سے لوگ صرف دعاوٴ ں لیے بھی حاضر ہوتے،اپنے پاس آنے والے مہمانوں کی بھی ضیافت فرماتے،جوشاگرددارالعلوم سے جانے کے بعد بھی آپ سے نیازمندانہ تعلق رکھتا؛آپ بھی انھیں یاد رکھتے ، ذکر خیر فرماتے ہوئے کہتے کہ فلاں مدرسے میں فلاں میرا شاگرد ہے۔غرضے کہ مختلف النوع خصوصیات کے حامل تھے۔اللہ پاک غریق رحمت فرمائیں۔اللّٰھم اغفر لہ وارحمہ واسکنہ بحبوحة الجنة،آمین یا رب العالمین!

 

$$$

 

----------------------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2، جلد:101 ‏، ربیع الآخر۔جمادی الاولی 1438 ہجری مطابق جنوری۔فروری 2017ء