شیخ ثانی مولانا عبدالحق صاحب رحمہ اللہ کے متعلق

کچھ یادیں کچھ باتیں

 

از قلم: مولانا مبین اخترقاسمی مئو

 

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا

تمھیں سوگئے داستاں کہتے کہتے

ولادت:

آپ کی پیدائش جگدیش پور ضلع اعظم گڈھ میں ۶/رجب المرجب بروز دوشنبہ ۱۳۴۷ھ (۱۹۲۸/) کو ہوئی۔

تعلیم وتربیت:

ابتدائی تعلیم اپنے ہی گاؤں کے ایک مکتب مدرسہ امدادالعلوم میں حاصل کی، پھر مدرسہ بیت العلوم سرائے میر میں داخل ہوئے اور فارسی وعربی کی متعدد کتابیں پڑھ کر شرح جامی کی تکمیل کی، اس کے بعد دارالعلوم مئوناتھ بھنجن میں داخل ہوکر اپنے مربی خاص شیخ الحدیث مولانا محمد مسلم صاحب جونپوری کی زیرنگرانی موقوف علیہ تک تعلیم مکمل کی۔ دورئہ حدیث کی تکمیل کے لیے ایشیاء کی عظیم اسلامی یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور وہاں داخلہ لے کر اساطین علوم وفنون اور ماہرین تعلیم وتدریس سے اکتساب فیض کیا، ۱۳۷۴ھ (۱۹۵۴/) میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی سے بخاری شریف پڑھ کر ”میکدہٴ مدنی“ کے میخواروں میں شامل ہوگئے۔

مایہٴ ناز وقابل ذکر اساتذہ:

بیت العلوم سرائے میر میں مولانامحمد سجاد صاحب، مولانا عبدالقیوم صاحب، مولانااحمد علی صاحب، مولانا سعید صاحب اور مولانا فیض الرحمن صاحب، دارالعلوم مئوناتھ بھنجن میں شیخ الحدیث مولانا محمدمسلم صاحب، شیخ القراء مولانا قاری ریاست علی صاحب اور مولانا محمد امین صاحب ادروی۔ دارالعلوم دیوبند میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد صاحب مدنی، شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب امروہوی او رعلامہ ابراہیم بلیاوی وغیرہم ہیں، شیخ الحدیث مولانا فخرالدین صاحب اور محدث کبیر ابوالمآثر والمفاخر مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی سے بھی آپ کو اجازت حدیث حاصل تھی۔

تدریسی خدمات:

فراغت کے بعد مدرسہ مطلع العلوم بنارس میں مدرس ہوئے، جہاں آپ نے سولہ سال تدریسی فرائض بحسن وخوبی انجام دیے، شیخ الحدیث اور صدرمدرس بھی ہوئے، پھر جامعہ حسینیہ گریڈیہہ بہار (جھارکھنڈ) میں مذکورہ بالا عہدوں پر فائز ہوکر چلے گئے؛ لیکن ارباب مطلع العلوم کے اصرار پیہم پر ایک سال بعد دوبارہ مطلع العلوم بنارس میں آگئے، کچھ دنوں بعد دارالعلوم مئو ناتھ بھنجن میں تدریسی خدمت پر مامور ہوئے اور تقریباً چودہ سال مئوناتھ بھنجن کو اپنی علمی جولان گاہ بنائے رکھا، دارالعلوم مئوناتھ بھنجن میں بخاری شریف مکمل، ترمذی شریف اور دیگر اہم کتابیں پڑھاتے رہے، اس دوران فتویٰ نویسی کی ذمہ داری بھی آپ کو تفویض کی گئی، جس کو آپ نے بہ طرز احسن ادا کیا اور تقریباً ۱۳ ہزار فتوے لکھے جو کئی ضخیم مجلد رجسٹروں میں آپ کے پاس محفوظ ہیں۔ ۱۹۸۲/ میں دارالعلوم دیوبند میں ”قضیہ نا مرضیہ“ پیش آنے کے بعد ارباب شوریٰ کی نظر انتخاب آپ پر پڑی تو انتظامیہ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے دیوبند چلے گئے اور چونتیس سال کے طویل عرصے تک ہزاروں تشنگانِ علوم دینیہ کو اپنے سرچشمہٴ فیض سے سیراب کرتے رہے۔

حلیہ: پختہ رنگ، بلند قدوقامت، دوہرا بدن، لمبا کرتا ولنگی زیب تن، کشادہ پیشانی، سرپرکشکول نما گول ٹوپی، کبھی کبھی عربی رومال، چہرے سے رعب ہویدا وگہری فکرمندی کے آثار نمایاں، پرہیبت، سادہ طبیعت، باوقار، بلند آواز۔

پہلی دید: راقم الحروف حضرة الاستاذ کے نام سے بچپن ہی سے آشنا تھا، حضرت کے جاہ وجلال اور رعب داب کے بارے میں بہت کچھ سن چکا تھا؛ لیکن ملاقات کے شرف سے ابھی تک محرومی تھی۔ ۲۰۰۵/ میں مادرعلمی دارالعلوم مئوناتھ بھنجن میں تقریب ختم بخاری کے موقع پر آپ کی پہلی مرتبہ زیارت ہوئی جب کہ احقر اس وقت پنجم پرائمری میں زیرتعلیم تھا، پھرجب کبھی بھی مئوناتھ بھنجن میں آپ کا ورودِ مسعود ہوتا، تو شرفِ لقاء کی لذت سے محظوظ ہوتا۔ ۲۰۱۴/ میں جب دورہٴ حدیث کی تکمیل کے لیے دارالعلوم دیوبند جانا ہوا، تو روزانہ آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کا موقع ہاتھ آگیا، روزانہ دیدار کا شرف حاصل ہونے لگا اور آپ سے خصوصی ربط ہوگیا۔ الحاصل راقم کا تعلق حضرت شیخ ثانی سے عرصہٴ دراز سے نہیں تھا؛ بلکہ آپ کی زندگی کے صرف آخری ڈھائی سالہ عرصہ پر محیط ہے، اس قلیل مدت کے اندر آپنے لوح قلب ودماغ پر ایسا نقشِ جاوداں ثبت کیا جو مٹائے نہیں مٹتا، اس مختصرسی مدت میں آپ کو انتہائی قریب سے دیکھنے، جاننے اور مطالعہ کرنے کا موقع ملا، تاہم اس حقیر کو اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ اپنی حرماں نصیبی وافتاد طبع کی وجہ سے جتنا فیض آپ کی صحبت سے اٹھانا چاہیے نہیں اٹھایا جاسکا۔ فیا للأسف! مولانا کا شب وروز، جلوت وخلوت ہمارے سامنے تھا، ظاہر وباطن ہمارے مشاہدہ میں تھا، آپ طلبہ پر بے حد شفیق تھے، ہر طالب علم آپ کاگرویدہ اور فریفتہ تھا؛ البتہ ان کی بے ادبیوں اور بے اصولیوں پر سخت زجر وتوبیخ کرتے اور کڑک دار تنبیہ بھی؛ لیکن ان کی گرج دار آواز میں بلاکا رسیلا پن تھا، ان کی ہوش ربا تنبیہ ذائقہ بخش تھی، ان کی زجروتوبیخ میں چاندنی کی کشش تھی، ڈانٹ ڈپٹ کا انداز بڑا نرالا تھا، بس اتنی دیر کے لیے خفگی اور ناراضگی کا اظہار ہوتا پھر غصہ فوراً کافور ہوجاتا اور اس طرح اپنی نرم گفتاری اور شیریں کلامی سے مانوس کرلیتے جیسے کوئی غلطی یا بے اصولی ہوئی ہی نہیں ہے اگر سامنے والے کے چہرے سے ناگواری کا اظہار ہوتا یا کبھی لہجہ میں سختی ظاہر ہوتی تو معافی کے خواستگار ہوتے۔

سادگی وتواضع کا پیکر:

آپ انتہائی منکسرالمزاج، خوش اخلاق و ملنسار، حلیم وبردبار، ہمدردوغم گسار، شب بیدار وعبادت گذار ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست علمی صلاحیت کے مالک، ماہر اور تجربہ کار مدرس بھی تھے، فن حدیث میں آپ کو یدطولیٰ حاصل تھا۔ زمانہٴ طالب علمی سے ہی اساتذہ ومشائخ کے معتمد خاص بنے رہے، اہل علم نے ہمیشہ آپ کو بلند مقام عطا کیا، ہر جگہ آپ ہی میرمجلس ہوتے جہاں بھی گئے، مرجع خلائق بنے، جس مدرسہ میں بھی گئے شیخ الحدیث رہے، مقبول ترین اور کامیاب مدرس ثابت ہوئے۔ رہن سہن اور وضع قطع میں اکابر کی یادگار اور اسلاف کا جیتا جاگتا نمونہ تھے، صلاح وتقویٰ کی وجہ سے عوام وخواص دونوں میں مقبول ومحبوب تھے، خلوص وللہیت کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، علماء وطلباء کی بڑی عزت وتوقیر فرمایاکرتے تھے اور مفید وصائب مشوروں سے نوازا کرتے تھے، ہر ایک سے بشاشت وانبساط سے ملتے، عام لوگوں پر اپنا علمی رعب جمانے کی کوشش نہ کرتے اور باتوں میں اس طرح مشغول رکھتے جس سے وہ اپنائیت محسوس کرتا۔

ضیافت:

ضیافت ومہمان نوازی آپ کا ایک اہم اور خاص وصف تھا، مہمانوں کی خاطرمدارات میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے، جب بھی کوئی ملنے کے لیے آتا چائے ناشتہ سے خاطر تواضع کرتے، دعوت طعام دیتے؛ اگر کوئی قریبی یا شناسا دولت کدہ پر حاضری دیتا تو پرتکلف دعوت کرتے، لذیذ وعمدہ پکوان تیار کراتے انواع واقسام کے کھانوں سے دسترخوان سجاتے۔

رقت قلبی:

قسام ازل کی طرف سے آپ کو رقت قلبی سے وافر مقدار عطا کی گئی تھی، جو دوران درس ابل پڑتی تھی، باتوں باتوں میں رونا آپ کی فطرت ثانیہ بن چکی تھی دعا وغیرہ میں تو اس کا خوب مشاہدہ ہوتا، اِدھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے اُدھر آوازبھراجاتی اور اشکوں کا سیل رواں جاری ہوجاتا، خاص طور سے جب بخاری شریف کا آخری درس ہوتا تو ایسی رقت طاری ہوجایا کرتی کہ دھاڑیں مار مار رونے لگتے، الحاح وگریہ زاری کرتے، اپنی کمزوری وعاجزی، بے بسی وبے کسی اور گناہوں وخطاؤں کا اقرار واعتراف کرتے، طلبہ بھی زاروقطار رونے لگتے ان کی ہچکیاں بندھ جاتی۔

احسان شناسی:

جن اداروں میں انھوں نے پڑھا، یا پڑھایا، جن کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا یا جن سے استفادہ کیا، ان کا نام بکثرت لیتے بالخصوص دارالعلوم مئوناتھ بھنجن اور دارالعلوم دیوبند ان کی رگ رگ میں رچا بسا تھا، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد صاحب مدنی، محدث کبیر ابوالمآثر مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی، شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب سے آپ کو والہانہ لگاؤ تھا ان کا نام بڑے ادب واحترام سے لیتے، شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب مہاجر مدنی سے آپ کو قلبی وارفتگی تھی، سلوک ومعرفت آپ ہی کے ہاتھ پر طے کیا، حدیث مسلسلات ودیگر کتب حدیث کی اجازت بھی آپ سے حاصل تھی دوران درس آپ کاذکر خیر چھیڑدیتے۔

مئو اور اہل مئو سے آپ کے بڑے گہرے مراسم اور دلی محبت تھی، باشندگان مئو کی تعریف میں رطب اللسان رہا کرتے ”مئو ایک اچھی جگہ ہے ہر چیز کی وہاں آسانی اور فراہمی ہے، مئو کے لوگ نیک اور سیدھے سادے ہوتے ہیں“ کئی مرتبہ سننے کو ملا۔ یہاں کے اداروں، بزرگوں اور اہل علم لوگوں کے احوال جاننے کے بے حد حریص تھے، احقر جب بھی خدمت میں حاضر ہوتا تو اپنے مخصوص لب ولہجہ میں فرماتے: ”ابے مئو کی حال سنا“ اگر کبھی مئو کی کسی علمی شخصیت یا کسی ادارے کے اخبار وکوائف معلوم کرتے اور راقم کی طرف سے لاعلمی کا اظہار ہوتا تو سخت برہم ہوتے اور فرماتے: ”تم کو مئو کے بارے میں کچھ اتا پتا نہیں تم سے زیادہ مجھے معلوم ہے“ اور حقیقت بھی یہی تھی کئی واقعات ایسے سنائے جن کے متعلق احقر کو کوئی علم نہ ہوتا۔

دارالعلوم مئو میں واپسی کی بات:

آپ کے اسی قدیم تعلقات کی وجہ سے ۱۹۸۲/ میں آپ کے یہاں سے چلے جانے کے بعد یہاں کے لوگوں کو بڑا صدمہ اور کافی رنج ہوا اور حضرت استاذ کے رخصت ہوجانے کی وجہ سے دارالعلوم مئو کے اصحاب خیر اور یہاں کی انتظامیہ کو ایک طرح کا خلا محسوس ہونے لگا اور ایک طرح کا علمی احساس ستانے لگا؛ چنانچہ سابق مہتمم مولانا انعام الحق صاحب اور مشفق وکرم فرما مولانا نذیراحمد صاحب نعمانی (اطال اللہ بقائہ فینا مع الصحة والعافیة) نے دیوبند جاکر آپ کو واپسی کی دعوت دی؛ لیکن حضرت الاستاذ شیخ ثانی نے فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی کی اجازت پر واپسی کو موقوف قرار دیا اور انھوں نے یہ کہہ کر ”دارالعلوم مئو زیادہ اہم یا دارالعلوم دیوبند؟“ واپس بھیجنے سے انکار کردیا اور ان دونوں بزرگوں کو ناکام وطن لوٹنا پڑا۔

مئو میں جائے قیام:

تاہم یہاں آپ کے محبین آپ کو دعوت دینے کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے اور ہرچھوٹے بڑے پروگرام میں آپ کو بلانے کی سعی بلیغ کرتے آپ اپنی تشریف آوری سے ان کے دلوں کی تسکین کا سامان فراہم کرتے، مئو میں جب بھی تشریف لاتے تو آپ کی میزبانی اور سنت ایوبی کا شرف مربی جلیل مولانا نذیراحمد صاحب نعمانی مدظلہ العالی اور آپ کے صاحبزادہٴ محترم حضرت شیخ کے خادم خاص مولانا مفتی انظرکمال صاحب قاسمی زیدمجدہ استاذ مدرسہ مرقات العلوم مئو کو حاصل ہوتا۔ جو آپ کے قیام وطعام میں کوئی کسر باقی نہ رکھتے، رہنے سہنے کا بہترین انتظام وانصرام کرتے آپ کی راحت کا ہر سامان فراہم کرتے اور آپ کو آرام پہونچانے کی ہرممکن کوشش کی جاتی۔ ۲۰۰۹/ میں مولانا انظرصاحب زیدمجدہ کے محلہ فخرالدین پورہ میں رہائش پذیر ہوجانے کی وجہ سے اور مولانا نذیراحمد صاحب دامت برکاتہم کے ضعف بصارت ومتعدد امراض لاحق ہونے کے باعث حضرت شیخ کا قیام یہیں فخرالدین پورہ میں ہونے لگا، جس مکان کی بنیاد آپ ہی کے دست مبارک سے رکھی گئی تھی، سال گذشتہ ۱۸/جولائی کو تشریف آوری کے موقع پر اسی مکان کو اپنی قیام گاہ بنایا جہاں مئو، اطراف مئو، جونپور اور بنارس کے علماء صلحاء اور عقیدت مندوں کا ایک جم غفیر ٹوٹ پڑا اور آپ کی ملاقات سے مشرف ہوا۔

تبلیغی جماعت سے شغف:

دعوت وارشاد سے آپ کو خصوصی مناسبت تھی اس کے لیے ملک وبیرون ملک کا سفر بھی کیا، طلبہ ٴ دارالعلوم کا جہاں بھی اجتماع ہوتا تو ضعیف العمری اور متعدد امراض واعذار کے باوجود ضرور جاتے، طلبہ کو اپنے قیمتی پند ونصائح سے مستفید فرماتے اور آپ ہی کی پرسوز دعا پر اجتماع اختتام پذیر ہوتا۔

بیعت وخلافت:

آپ کی عقیدت ومحبت کا مرجع ومنبع شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب تھے اوّلاً آپ ہی کے دست حق پر بیعت ہوئے، حضرت شیخ الحدیث صاحب کے قیام ہند کے زمانہ میں پابندی کے ساتھ رمضان کا آخری عشرہ سہارنپور میں گذارتے اور حضرت شیخ کے ساتھ اعتکاف فرماتے آپ کے ہجرت فرماجانے کے بعد آپ کے جانشین مولانا پیر محمدطلحہ صاحب مدظلہ العالی سے رجوع کیا اور بیعت کی اجازت سے سرفراز ہوئے۔ حکیم کلیم اللہ صاحب علی گڈھی دامت برکاتہم رکن شوریٰ دارلعلوم دیوبند اور شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے خلیفہ مولانا محمودحسن صاحب کی طرف سے بھی خرقہٴ خلافت سے نوازے گئے، مذکورہ مشائخ کے علاوہ کئی اور لوگوں سے بھی آپ کو خلافت حاصل تھی جس کا نام آپ نے نہیں بتایا، صرف یہ کہہ کر کہ ”بعد میں بتائیں گے“ دنیا سے رخصت ہوگئے اور ہم لوگوں کو تشنہ چھوڑ کر چلے گئے!!! حضرت مولانا عبدالحق صاحب رحمة اللہ علیہ نے جناب مولانا نذیراحمد نعمانی مئوناتھ بھنجن اور جناب مفتی انورعلی صاحب دارالعلوم مئو کو اجازت وخلافت سے سرفراز فرمایا تھا۔

وفات حسرت آیات:

۸۸ سال کی عمر میں مختصرسی علالت کے بعد ۳۰/ربیع الاوّل ۱۴۳۸ھ (۳۰/دسمبر۲۰۱۶/) بروز جمعہ کو سرمایہٴ علم ودولت کا نگہبان مادرعلمی دارالعلوم دیوبند کی عظمت کا پاسبان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روپوش ہوگیا، وفات کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی، اطراف وجوانب سے آنے والوں کا تانتا بندھ گیا، آپ کی نعش کو ”نودرہ“ کے بیرونی حصہ میں رکھ دیاگیا جہاں آخری دیدار کے لیے عقیدت مندوں کا امڈتا ہوا سیلاب اکٹھا ہوگیا اور پرنم آنکھوں اور پرغم دلوں سے آپ کا آخری استقبال کیا۔

اگلے روز جمعیة علماء ہند کے قومی صدر، دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث قائد ملت حضرت الاستاذ مولانا سیدارشد مدنی صاحب حفظہ اللہ کی امامت میں ہزاروں علماء اور طلباء سمیت معززین وعمائدین شہر نے نماز جنازہ ادا کی اور دنیا کا سورج ڈوبنے کے وقت علم حدیث کا یہ آفتاب روپوش ہوگیا- سقی اللّٰہ ثراہ وجعل الجنة مثواہ․

پس ماندگان:

مولانا کے پس ماندگان میں اہلیہ (خدا صحت کے ساتھ عمردراز بخشے) ۶ صاحبزادے ۳ صاحبزادیوں کے علاوہ دنیا بھر میں ہزاروں کی تعداد میں تلامذہ روحانی اولاد کی شکل میں پھیلے ہوئے ہیں، حضرت الاستاذ کے بڑے صاحبزادے مولانا عبدالبر صاحب مشرقی یوپی کی عظیم دینی درسگاہ مدرسہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڈھ میں مدرس ہیں، دورئہ حدیث کی کتابیں بھی زیرتدریس ہیں، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کو حضرت کا سچا جانشین بنائے اور سارے پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین!

مشاہیر تلامذہ:

شام میں شیخ صفوان، مدینہ منورہ میں مولانا عبدالرحمن، مولانا عبدالعزیز اور مولانا عبدالرحمن بن مولانا عاشق الٰہی، بنگلہ دیش میں مولانا ابوالکلام، مولانا محمد جعفر، پاکستان میں مولانا شفیق، دارالعلوم دیوبند میں مولانا حبیب الرحمن جگدیش پوری، مولانا نورعالم خلیل امینی، مفتی محمد راشد، مفتی عبداللہ معروفی، دارالعلوم ندوة العلماء لکھنو ٴ میں مولانا نیاز احمد ندوی، دارالعلوم مئو میں مفتی انور علی، مولانا احمد اللہ، مولانا اشتیاق احمد مدنی، مولانا عبدالقوی ریاضی صاحبان وغیرہ۔

 

$$$

 

----------------------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2، جلد:101 ‏، ربیع الآخر۔جمادی الاولی 1438 ہجری مطابق جنوری۔فروری 2017ء