احوال وکوائف

 

بہ قلم: مولانا اشتیاق احمد قاسمی

استاذ دارالعلوم دیوبند

 

”تعزیتی نشست“

گرامی قدر حضرت الاستاذ مولانا شیخ عبدالحق صاحب اعظمی رحمة اللہ علیہ ۳۰/ربیع الاوّل ۱۴۳۸ھ مطابق ۳۰/دسمبر ۲۰۱۶/ بروز جمعہ تقریباً سات بجے رحلت فرماگئے، انا للہ واِنّا الیہ راجعون، آپ کا داعیِ اجل کو لبیک کہنا، رؤف ورحیم مولائے کریم سے جا ملنا، آپ کے لیے تو خوشی کی بات تھی؛ مگر یہی پس ماندگان کے لیے غم واندوہ کا پیغام تھا، آپ کی وفات سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا، مسندِ حدیث بے رونق اور اُداس ہوگئی اور آنے والی نسل کے لیے آبِ حیواں سے سیرابی موقوف ہوگئی، سنیچر کے دن تعلیم نہ ہوسکی، اتوار کے دن بھی متعدد درس گاہوں میں سبق کے ساتھ دعائے مغفرت اور ایصالِ ثواب کا اہتمام کیاگیا اور دارالعلوم کی طرف سے چھٹے گھنٹے میں، تعزیتی نشست کا اعلان ہوا، سارے طلبہ اور اساتذہٴ کرام سابق دارالحدیث تحتانی میں جمع ہوئے، تلاوتِ قرآن مجید، کلمہٴ طیبہ، دُرود شریف اور دیگر اذکار کے ورد کا اہتمام کیاگیا، پھر سب اکٹھا ہوئے، ان میں حضرت کے سارے فرزندان، داماد اور اعزاء بھی تھے۔

$ سب سے پہلے گرامی قدر استاذِ محترم حضرت مولانا قمرالدین احمد صاحب گورکھپوری مدظلہ العالی تشریف لائے اور خطبے کے بعد آپ نے تعزیتی معنی سے لبریز حدیث شریف پڑھی: ”لِدُوا لِلْمَوْتِ وَ ابنوا للخَرَابِ“ (بیہقی) فرمایا: بچہ جنو، نتیجہ اس کا موت ہے اور عمارت بناؤ نتیجہ اس کا ویرانہ ہے، اس کے بعد آپ نے غمگین لہجے میں ایک شعر پڑھا۔

بس اتنی سی حقیقت ہے ، فریب خوابِ ہستی کی

کہ آنکھیں بند ہوں اورآدمی افسانہ ہوجائے

اس کے بعد فرمایا: حضرت اقدس مولانا عبدالحق صاحب اعظمی رحمة اللہ علیہ اللہ کے پیارے ہوگئے، یہ بہت اچھی بات ہے کہ قرآن وحدیث کی خدمت میں لگے ہونے کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے یہاں گئے، ان شاء اللہ ان کا مقام بہت بلند ہوگا، پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث شریف سنائی کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے تعریف کی، تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ”وَجَبَتْ“ (واجب ہوگئی) پھر دوسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی بیان کی تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ”وَجَبَتْ“ (واجب ہوگئی) اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! کیا واجب ہوگئی؟ تو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: لوگوں نے جس کی تعریف کی اس کے لیے جنت واجب ہوگئی اور لوگوں نے جس کی برائی بیان کی، اس پر جہنم واجب ہوگئی۔ (بخاری ومسلم) پھر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین بار ارشاد فرمایا: أنتم شُھَدَاءُ اللہ في الأرض (مسلم) ترجمہ: آپ سبھی لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہیں، پھر آپ نے ایک مصرع پڑھا۔   ع

زبانِ خلق کو نقارہٴ خدا سمجھو

حضرت مولانا عبدالحق صاحب اعظمی رحمة اللہ علیہ کے سلسلے میں ہر ایک کی زبان پر تعزیتی کلمات ہیں، ان شاء اللہ خدائے پاک کے یہاں بہت اونچا مقام پائیں گے، نماز جنازہ میں کتنی بڑی تعداد شریک ہوئی؟ فوارے کے پاس سے ”بابِ قاسم“ تک مجمع تھا، یہ بھی مغفرت اور بلند مرتبہ ہونے کی علامت ہے، پھر آپ نے فرمایاکہ شہزادوں کے درمیان جھگڑا ہوگیا، تو ایک نے کہا: ”الفرقُ بیننا وبینکم بالجنائز“ ہمارے اور تمہارے درمیان فرق جنازہ سے واضح ہوجائے گا، جس سے خلقِ خدا خوش ہوگی، اس کے جنازے کا مجمع زیادہ ہوگا۔ حضرت مولانا مرحوم حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کے عزیز شاگردوں میں تھے، حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی اور حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب سے استفادہ فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو مغفرت اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائیں (آمین)

$ پھر حضرت الاستاذ مولانا حبیب الرحمن اعظمی مدظلہ العالی تشریف لائے اور آپ نے نہایت ہی درد بھرے لہجے میں ایک شعر پڑھا۔

کچھ ایسے بھی اس بزم سے اُٹھ جائیں گے جن کو

تم ڈھونڈنے نکلوگے؛ مگر پا نہ سکوگے

فرمایا کہ ہم دونوں ایک ہی خاندان کے ہیں، حضرت کا میرے اوپر بہت احسان ہے، جب میں مکتب کی تعلیم سے فارغ ہوا، اور منشی کا امتحان دے چکا تو میرے دادا (میاں صاحب) کا ارادہ ہوا کہ اب میں تعلیم چھوڑ کر دوکان پر بیٹھ جاؤں، حضرت اس وقت مطلع العلوم بنارس میں مدرس تھے، گھر آئے تو میں نے مدرسہ میں پڑھنے کا ارادہ ظاہر کیا، آپ نے والد صاحب سے بات کی، انھوں نے دادا سے کہا؛ بالآخر میرا داخلہ بیت العلوم سرائے میر میں کرادیا، دو سال تک میں پیدل ہی جاتا آتا رہا، پھر میرا داخلہ دارالعلوم مئو میں کرایا وہاں مشکوٰة تک پڑھ کر میں دارالعلوم دیوبند آیا، حضرت سے میں نے جلالین اور ہدایہ پڑھی ہیں۔

حضرت کو میں نے قریب سے دیکھا ہے، دارالعلوم سے فراغت کے بعد مزید تحصیلِ علم کے لیے حضرت ندوة العلماء لکھنوٴ تشریف لے گئے؛ مگر بیس پچیس دن کے بعد واپس چلے آئے اور فرمایا کہ وہاں کا دینی ماحول اچھا نہیں ہے، مجھے اپنے سلسلے میں خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں میری دینی حالت میں تبدیلی نہ آجائے۔ مطلع العلوم بنارس میں حضرت پندرہ پندرہ اسباق پڑھاتے تھے، رات کو دوبجے تک مطالعہ کرتے تھے، بخاری، ترمذی، ابوداؤد اور ہدایہ کے علاوہ نحو وصرف بھی پڑھاتے تھے، آپ کو سارے علومِ شرعیہ میں درک حاصل تھا، آپ کی علمی، دینی اور روحانی حالت بہت عمدہ تھی، رمضان المبارک کے مہینے میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کے پاس جاتے تھے، میں بھی ساتھ ہوتا تھا، حضرت نے آپ کو خلافت بھی دی تھی۔ جب حضرت مفتی محمد نظام الدین صاحب اعظمی دارالعلوم مئو سے دارالعلوم دیوبند آگئے تو ”فتویٰ نویسی“ کا کام بھی حضرت مولانا خود انجام دیتے تھے، ہزار سے زیادہ فتاویٰ رجسٹر میں محفوظ ہیں۔ (جن کی ترتیب کا کام حضرت کے داماد انجام دے رہے ہیں) حضرت کے مزاج میں زود رنجی تھی؛ فوراً ہی راضی بھی ہوجاتے تھے؛ لیکن ان کا غصہ دیر پا نہیں تھا اور یہ بات والدہ مرحومہ سے منتقل ہوئی تھی، ناراض ہونے کے بعد معافی بھی مانگنے لگتے تھے، اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائیں، بڑے اچھے کرم فرما تھے۔

$ پھر حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب زیدمجدہ مہتمم دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور فرمایا کہ حضرت مولانا عبدالحق صاحب رحمة اللہ علیہ جب مطلع العلوم میں مدرس تھے، اس وقت میں بہت چھوٹا تھا، جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس میں تعلیم حاصل کررہا تھا، حضرت نے ”نحومیر“ کا میرا امتحان لیا ہے، حضرت مطلع العلوم سے جامعہ اسلامیہ ہفتہ میں ایک بار ضرور تشریف لاتے تھے۔ حضرت کی وفات سے بہت بڑا علمی نقصان ہوا ہے، اللہ تعالیٰ دارالعلوم دیوبند کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے۔ پھر ورثاء کے کہنے پر حضرت مہتمم صاحب مدظلہ العالی نے اعلان فرمایا کہ حضرت مرحوم کے صاحب زادگان یہاں موجود ہیں، آپ حضرات میں سے جن کا کوئی حق باقی ہو وہ ان سے وصول کرسکتے ہیں، یا معاف کردیں؛ تاکہ آخرت میں پوچھ نہ ہو۔

اخیر میں حضرت اقدس مہتمم صاحب زیدمجدہ نے رقت آمیز دعا فرمائی، اسی دعا کے ساتھ مجلس اختتام پذیر ہوئی، اساتذہٴ کرام نے انفرادی طور پر بھی حضرت کے صاحب زادوں اور عزیزوں کو تعزیت پیش فرمائی۔

 

$$$

 

------------------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2، جلد:101 ‏، ربیع الآخر۔جمادی الاولی 1438 ہجری مطابق جنوری۔فروری 2017ء