اسلام اور تکثیری سماج

(۱/۲)

 

از: مفتی محمد ساجد قاسمی ہردوئی

استاذ تفسیر و ادب دارالعلوم دیوبند

 

اسلام اس حقیقت کو تسلیم کرتاہے کہ تمام انسان ، خواہ وہ کسی مذہب اور فکر سے تعلق رکھتے ہوں، اللہ کی مخلوق ہیں، وہ مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں،ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اور تمام فطری اوصاف میں شریک ہیں۔ ساتھ ہی وہ مذہبی ، فکری، اعتقادی اور لسانی تنوع اور تکثر کوبھی ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتا ہے اور اس اختلاف وتنوع کو اللہ کی سنت قراردیتاہے۔

نیز وہ انسان اور انسانیت کا پورا احترام کرتاہے اور خود برحق مذہب ہونے کے باوجو د دیگر مذاہب ، عقائد اور افکار کے وجودکو نہ صرف تسلیم کرتاہے؛ بلکہ ان کے ماننے والوں کومکمل مذہبی آزادی بھی دیتاہے، اور ان کے ساتھ روادار ی کا معاملہ کرتاہے۔ کسی قسم کے ٹکراوٴ یا دباوٴ کے بجائے اپنے ماننے والوں کوبقائے باہم کے اصول کا درس دیتا ہے۔ پیغمبراسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں یہودیوں کے ساتھ میثاق مدینہ کے ذریعے جس ”مشترک معاشرہ“ کی طرح ڈالی، وہ تکثیری سماج کا پہلا نمونہ تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافتِ راشدہ ، اموی ، عباسی اور عثمانی دور میں اسلامی حکومتوں میں دیگر اہل مذاہب وعقائد کومکمل مذہبی آزادی اور شہری حقوق حاصل رہے، جس کی نظیر دیگر مذہبی حکومتوں میں نہیں ملتی ہے۔

اسلام اور مشتر کہ انسانی صفات

اللہ تعالی نے تمام انسانوں کو مٹی سے پیدا کیا؛ چنانچہ ارشاد فرمایا: ﴿ یأیھا الناس إن کنتم فی ریب من البعث فإنا خلقناکم من تراب﴾ (۱) ترجمہ: اے لوگو!اگر تم دوبارہ زندہ کیے جانے کے سلسلے میں شک میں ہوتو(غورکرو) ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیاہے۔

اللہ تعالی نے تما م انسانوں میں روح ڈالی، اُن کو عزت بخشی، عقل وارادے سے نوازااورعمدہ اوصاف سے آراستہ کیا؛ تاکہ اس عالم کی تعمیرو ترقی میں حصہ لیں۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ﴿الذی أحسن کل شیء خلقہ، وبدأ خلق الإنسان من طین، ثم جعل نسلہ من سلالة من ماء مھین، ثم سواہ ونفخ فیہ من روحہ، وجعل لکم السمع والأبصار والأفئدة قلیلاما تشکرون﴾(۲) ترجمہ: جس نے ہر چیز کی بہتر تخلیق فرمائی، اورانسان کی تخلیق کا آغاز مٹی سے کیا ، پھر حقیر پانی کے قطرے سے اس کی نسل جاری فرمائی، پھر اس کو مکمل کیا اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی ، اورتمھارے لیے کان آنکھیں اور دل بنائے، تم بہت کم شکرکرتے ہو۔

اس لیے ہرانسان جس کے اند ر اللہ تعالی نے اپنی طرف سے روح پھونکی ہے، وہ عزت کا مستحق ہے اور اس کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے؛ البتہ اگر اس کی طرف سے ظلم وزیادتی ہوتی ہے تو پورے انصاف کے ساتھ اسی کے بہ قدر اس سے بدلہ لیاجائے گا اور اس میں حد سے تجاوز نہیں ہوگا۔

 تمام انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”والناس بنوآدم وخلق اللہ آدم من تراب“ (۳) ۔ ترجمہ: تما م لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم کو اللہ تعالی نے مٹی سے پیدا کیا۔

تمام انسان جسمانی عقلی اورنفسیاتی صفات میں ایک دوسرے کے مانند ہیں ، نیز اصل جذبات اورخواہشات میں سب یکساں ہیں،ایسا نہیں ہے کہ ایک انسان پتھرسے بنا ہوا ہے ، دوسرا لوہے سے اور تیسرا سونے سے ؛ بلکہ تمام انسانوں کی اصل ایک ہے اور خلقی اوصاف میں سب برابر ہیں۔ مذکورہ بالا آیات میں مشترکہ اوصاف مسلمان کو دوسروں سے قریب کرتے ہیں ۔علم نفسیات کے مطابق جن دو انسانوں کے درمیان جتنے زیادہ مشترکہ اوصاف ہوں گے ، ان میں اتنا زیا دہ قرب، ہم آہنگی اورشناسائی ہوگی۔

مذکورہ بالا آیات سے یہ پیغام ملتا ہے کہ مسلمان دوسرے کو بحیثیت انسان قبول کریں ؛اس لیے کہ وہ انسانیت شریک بھائی ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اسی انسانی اخوت کی بنیاد پر حضرت ہود علیہ السلام کو قوم عاد کا بھائی فرمایا؛ چنانچہ فرمایا:﴿وإلی عاد أخاھم ھودا، قال یقوم اعبدوا اللہ مالکم من إلہ غیرہ، أفلاتعقلون﴾(۴)ترجمہ: اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود (علیہ السلام) کو( پیغمبر بناکر بھیجا) انھوں نے کہا کہ اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو، نہیں ہے تمھارا کوئی معبود سوائے اس کے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو۔ اسی طرح متعدد انبیاء علیہم السلام کو ان کی قوموں کا بھائی فرمایا گیا۔

 اسلام اور مذہبی و فکری تنوع

اس دنیا میں مختلف مذاہب افکار اور تصورات کے لوگ رہتے ہیں، یہ اختلاف اورتنوع اللہ تعالی کی مشیت وحکمت کے تحت ہے؛ چنانچہ اللہ تعالی نے ارشادفرمایا:﴿ومن آیاتہ خلق السموت والأرض واختلاف ألسنتکم وألوانکم إن فی ذلک لآیات للعالمین﴾(۵) ترجمہ: اور اس کی نشانیوں میں سے آسمان وزمین کی تخلیق، اور تمہاری بولیوں اور رنگوں کا اختلاف ہے، یقینا اس میں جاننے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ اور دوسری آیت میں ارشاد فرمایا:﴿ ولوشاء اللہ لجعلکم أمة واحدة ولکن یضل من یشاء ویھدي من یشاء، ولتسئلن عما کنتم تعملون﴾ (۶) ترجمہ: اور اگر اللہ تعالی چاہتا تو تم لوگوں کوایک ملت بنا دیتا؛ لیکن جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ، اور جس کو چاہتاہے گمراہ کردیتا ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔ ایک اورآیت میں فرمایا:﴿لکل جعلنا منکم شرعة ومنھاجا ،ولوشاء اللہ لجعلکم أمة واحدة ولکن لیبلوکم فی ماآتاکم، فاستبقوا الخیرات﴾(۷) ترجمہ: تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک دستوراور طریقہ بنایا اور اگر اللہ چاہتا تو تم کو ایک قوم بنا دیتا؛ لیکن (اس نے ایسا نہیں کیا) تاکہ وہ تم کو آزمائے اس میں جو تم کو عطا کیا، لہٰذا خیر کے کاموں میں سبقت کرو۔

مذکورہ بالا آیات سے صاف پتہ چلتاہے کہ اللہ تعالی کی حکمت اور مشیت اس مذہبی اور اعتقادی اختلاف کی متقاضی ہے، اور اس کا مقصد بندوں کا ابتلا اور آزمائش ہے۔ اس مضمون کی آیات اور احادیث مسلمانوں کو تعلیم دیتی ہیں کہ وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ امن وسلامتی سے زندگی بسر کریں۔

اسلام میں انسان کااحترام اور اس کے حقوق کا تحفظ

اسلام ، انسان کا بحیثیت انسان اس کے مذہب اور فکروعقیدے سے قطع نظر احترام کرتاہے۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ﴿ ولقد کرمنا بنی آدم﴾(۸) ترجمہ:ہم نے بنی آدم کو معزز بنایا۔ نیز اللہ تعالی نے اس کو مذہب وعقیدے کے حوالے سے آزادی عطا فرمائی؛ چنانچہ ارشاد فرمایا: ﴿لاإکراہ فی الدین﴾(۹)ترجمہ:مذہب کے معاملے میں کوئی جبر نہیں؛ چنانچہ اس نے غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دی، مثلة( انسان کے ناک کان کاٹنے اور شکل بگاڑنے )سے منع کیا ، ستانے اور خوف زدہ کرنے سے روکا، اس کی عزت و آبرو، حقوق، جا ئیداد کو اہمیت دی۔ تمام انسانوں کو برابر قرار دیا؛ البتہ ان میں فرق مراتب ” عمل صالح“ کی بنیاد پر رکھا۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:﴿یأیھا الناس إنا خلقناکم من ذکرو أنثی وجعلناکم شعوباو قبائل لتعارفوا إن اکرمکم عند اللہ أتقاکم﴾(۱۰) ترجمہ:اے لوگو! ہم نے تم کومردو عورت(آدم اورحوا) سے پیدا کیا، اور تم کو قوموں اورقبیلوں میں تقسیم کیا؛ تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، تم سے زیادہ تقوے والا اللہ کے نزدیک زیادہ معزز ہے۔

اسلام میں انسان کے احترام کا یہ عالم ہے کہ وہ مردہ شخص کے احترام کا بھی حکم دیتاہے ۔ روایت ہے کہ سہل بن حنیف اور قیس بن سعد قادسیہ میں بیٹھے ہوئے تھے، ان کے پا س سے ایک جنازہ گزرا،تو وہ دونوں کھڑے ہو گئے ، ان کوبتایا گیا کہ یہاں کے کسی ذمی کا جنازہ ہے، تو انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ کھڑے ہوگئے، آپ کو بتایا گیا کسی یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا وہ انسان نہیں ہے؟(۱۱)

نیزاسلام کسی کو مذہب اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتاہے خواہ وہ کسی مسلمان کا بیٹا کیوں نہ ہو۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ابن الحصین انصاری کے دولڑکے تھے جو ہجرت سے پہلے عیسائی مذہب اختیار کرکے شام چلے گئے۔ پھر وہ مدینہ واپس آئے، تو انھوں نے ان دونوں سے مذہب اسلام میں داخل ہونے کے لیے اصرار کیا، ان دونوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا۔ وہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ کے پاس لے کر آئے؛ تاکہ آپ انھیں اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور کریں، ان کے والد کا کہنا تھا کہ اے اللہ کے رسول! کیا میرا لخت جگر میری آنکھوں کے سامنے جہنم میں جائے گا؟ چنانچہ اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی ﴿ لا إکراہ فی الدین﴾(البقرة: ۲۵۶) ترجمہ : مذہب کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔پھر انھوں نے ان دونوں کو چھوڑ دیا۔(۱۲)

تاریخ کا پہلا تکثیری سماج اور اس کا دستور

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد پہلی اسلامی حکومت کی داغ بیل ڈالی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں معاشرے کودولحاظ سے مضبوط کیا:

(۱) مسلمانوں میں اخوت کا رشتہ استوار کیا؛ چنانچہ انصار اور مہاجرین کے درمیان مواخات قائم کی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انصار نے مہاجرین کو اپنے مال اور جائیداد میں شریک کیا۔

(۲) مدینہ میں رہنے والے مسلمان اور یہودیوں کے درمیان ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے مدینہ کے تمام شہریوں کوحقوق و فرائض میں مساوی حیثیت دی گئی۔اور مدینے کا د فاع سب کی مشترکہ ذمے داری رکھی گئی ۔

قریش اور دیگر قبائل اس نومولود حکومت سے برسرپیکار تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ، اسلام اوراس اسلامی حکومت کادفاع کرتے تھے، ساتھ ہی اسلام کی تبلیغ بھی کرتے تھے اور ان سے معاہدے بھی کرتے تھے؛ لیکن وہ کسی بھی عہدوپیمان کی پابندی نہیں کرتے تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پرُامن بقائے باہم کے لیے مدینے میں ایک ” مشترک معاشرہ“ قائم کیا ، آپ نے اس کے لیے یہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، یہ شہری حقوق اور مذہبی آزادی کے حوالے سے تاریخ کا پہلا معاہدہ تھا ، جس میں یہودیوں کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی تھی اور ان کے دفاع اور تحفظ کی ذمے داری لی گئی تھی؛ لیکن یہودیوں نے اس معاہدے کی پابندی نہیں کی؛ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچانک قتل کر نے کی سازش بھی رچی، اور اسی پر بس نہیں کیا؛ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے برسرپیکار قریش اور مشرکین سے رابطہ کیا اور ان کوجنگ کے لیے اکسایا، اور جنگ احزاب کے موقعے پر مسلمانوں کے خاتمہ کاپروگرام بنا یا، اس طرح وہ سنگین جرم کے مرتکب ہوئے اوراس کے نتیجے میں سنگین سزا کے مستحق ٹھہرے۔

یہ معاہدہ ۴۷ دفعات پر مشتمل ہے جن میں سے اکثر دفعات کا تعلق یہودیوں سے ہے،معاہدہ کے مشمولات مذہبی آزادی، حقوق کا تحفظ، جان ومال کا تحفظ، بیرونی حملہ آور دشمن کا مقابلہ،باہمی ہمدردی، کسی اختلافی معاملے کے حل کا طریق کار، مصالحت کا دائرہ اور اختیارات تھے۔

میثاق مدینہ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود ونصاری کے لیے شہری حقوق کے حوالے سے متعدد دستاویزات جاری فرمائیں۔ آپ نے غزوہٴ تبوک کے بعد نجران کے عیسائیوں کے لیے ایک دستاویز لکھی جوانصاف، رواداری اور مذہبی آزادی کی آئینہ دار ہے۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مذہبی آزادی اور مکمل تحفظ دیا اور ان پربہت معمولی جزیہ مقرر کیا ، آپ نے تحریرفرمایا: ”ولنجران وحاشیتھم جوار اللہ․․․ ولایوٴخذ أحد منھم بظلم آخر، وعلی مافی ھذہ الصحیفة جوار اللہ، وذمة النبی صلی اللہ علیہ وسلم أبدا حتی یأتی اللہ بأمرہ إن نصحوا وأصلحوا فیما علیھم“ (۱۳)ترجمہ: اہل نجران اور ان کے قرب وجوار کے لوگوں کے لیے اللہ کی پناہ ہے․․․ ان میں سے کوئی دوسرے کے ظلم کی وجہ سے ماخوذ نہیں ہوگا، متعلقہ دستاویز کے مطابق ہمیشہ اللہ کی پناہ اور نبی کا عہد رہے گا؛ یہاں تک کہ اللہ تعالی کا امر آجائے، اگر وہ اپنے اوپر عائد ذمے داریوں کے بارے میں خیرخواہی اور بھلائی سے کام لیں۔

یہود کی جانب سے مدینے میں معاہدے کی خلاف ورزی کے بعدبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرے کے شمال میں واقع یہودی بستیوں کو امن وتحفظ کے لیے دستاویز ات لکھ کردیں۔ آپ نے یہودیوں کے قبیلے بنی جنبہ کو دستاویز لکھ کردی، جس میں تحریر فرمایا:”أمابعد فقد نزل علی رسلکم راجعین إلی قریتکم، فإذا جائکم کتابی ھذا فإنکم آمنون لکم ذمة اللہ وذمة رسولہ، وإن رسول اللہ غافر لکم سیئاتکم، ولاظلم علیکم ولاعدی، وإن رسول اللہ جارکم ممامنع منہ نفسہ، وأن علیکم ریع ما أخرجت نخلکم، فإن سمعتم وأطعتم فإن علی رسول اللہ أن یکرم کریمکم و أن یعفو عن مسیئکم، وأن لیس أمیرکم إلا من أنفسکم، أومن أھل رسول اللہ“(۱۴) ترجمہ: حمدوصلاة کے بعد تمہارے قاصد اپنی بستی کو واپسی پر ہمارے یہاں فروکش ہوئے، جب تم کو میری یہ تحریر مل جائے تو تم مامون ہو، تمہارے لیے اللہ اور اس کے رسول کا عہد ہے، رسول اللہ تمہاری غلطیوں کو معاف کررہے ہیں، تمہارے اوپر کسی قسم کی ظلم وزیادتی نہیں ہوگی، رسول اللہ جن چیزوں سے اپنا تحفظ کریں گے ان سے تمہارا بھی تحفظ کریں گے، تمھارے ذمے کھجوروں کی پیداوار ہے، اگر تم سمع وطاعت سے کام لوگے تو رسول اللہ تمہارے معزز لوگوں کی عزت کریں گے اور خطاوار کو معاف کردیں گے،تمہارے اوپر امیر تم میں سے مقرر کیا جائے گا یا رسول اللہ کے لوگوں میں سے۔

    اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی قبائل بنی غادیا، أہل حرباء، اور أذرح کے لیے دستاویزات تحریر فرمائیں، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی جماعتوں کو اسلامی ریاست کا شہری قراردیا۔ جو اپنے اوپر مقرر ٹیکس ادا کرتے تھے اور اسلامی ریاست کے اقتدار اور امن وامان سے فائدہ اٹھاتے تھے۔                                                                                                (باقی آئندہ)

$$$

 

حواشی

(۱)             ۱لحج: ۵۔              (۲)       السجدة: ۷/۹۔         (۳)      سنن الترمذی کتاب التفسیر مع تحفة الأحوذی ۹/۱۵۵۔

(۴)                        الأعراف:۶۵۔        (۵)       الروم: ۲۲۔           (۶)       النحل: ۹۳۔            (۷)       المائدة:۴۸۔

(۸)             الإسراء: ۷۰۔         (۹)         البقرة: ۲۵۶۔         (۱۰)      الحجرات:۱۳۔          (۱۱)       صحیح البخاری ، حدیث نمبر:۱۲۵۰۔

(۱۲)           تفسیر طبری مطبوعہ بیروت، تحقیق علامہ احمد شاکر ۳/ ۲۰ ۲۲۔

 (۱۳)          الطبقات الکبری ابن سعد ۲/ ۱/ ۳۶، ۸۴۔۸۵۔

(۱۴)           طبقات ابن سعد۱/ ۲/ ۲۸۔ ۳۰۔

$$$

 

------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ4، جلد:101 ‏، رجب 1438 ہجری مطابق اپریل 2017ء