قومی یک جہتی کی تفہیم و توسیع میں

علمائے دیوبندکا کردار

 

از: مولانا ابرار احمدقاسمی اجراوی

 

وطن عزیز کے موجودہ تشویش ناک حالات ، اہل فکر و نظر سے مخفی نہیں ہیں۔رواداری، تحمل، برداشت اور اتحاد ویک جہتی کا تصور مفقود ہوتا جارہا ہے،ایک خاص فلسفہٴ زندگی کو ہر ہندستانی پر تھوپنے کے تانے بانے ترتیب دیے جارہے ہیں۔ اس ملک کی اقلیتوں کو مختلف حیلے حوالے سے خوف و ہراس کی چہار دیواری میں محصور کیا جارہا ہے۔عقیدہ، اظہار رائے اور ضمیر کی آوازی پر پہرے بٹھائے جارہے ہیں، دستور زباں بندی عام ہوتا جارہا ہے۔ مذہب اور فرقہ کے نام پر ملک میں نفرت کا زہر گھولاجارہا ہے۔ اس سے صرف ہندستان اور بر صغیر میں ہی نہیں؛ بلکہ ہماری ساکھ عالمی سیاسی پیمانے پر مجروح ہورہی ہے۔ملک کے مذہبی طبقے کو خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے؛ اس لیے اس تناظر میں قومی یک جہتی کے تصور کو واضح کرنااور اس کی اہمیت و افادیت سے ملک کے باشعور اور سیکولر افراد کو آگاہ کرانا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔

قومی یک جہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیا ہے؟ یہاں پر قومی یک جہتی کے تصور اور حقیقی خدو خال کو واضح کرنا ضروری ہے؛ تاکہ کسی غلط فہمی اور خلطِ مبحث کا اندیشہ نہ رہے۔قومیت اور یک جہتی دونوں مل کر ہندستان کی تہذیبی، لسانی، تاریخی اور رنگی ونسلی رنگا رنگی کی نمائندگی کرتے ہیں۔زبان و ادب، رہن سہن ، تصورات اور رسم و رواج میں اشتراک و یگانگت اور تہذیبی وثقافتی مظاہر میں مماثلت قومی یک جہتی کی تشکیل میں معاون ہوتے ہیں۔سیاسی اور قومی وحدت کا مفہوم انھیں مماثلتوں سے برآمد ہوتا ہے اور پھر ہندستان کی مخصوص پہچان اور علامت ،کثرت میں وحدت کا چہرہ ظہور پذیر ہوتا ہے۔قومی یک جہتی کا مفہوم تمام حدود قیود سے آزادی سے عبارت نہیں ہے، قومی یک جہتی نہ تو شخصی آزادی پر قدغن لگاتی ہے اور نہ ہی عقیدہ اور ضمیر کے معاملات سے اس کا رشتہ ہے۔قومی یک جہتی کا عقائد ، مذہبی امور اور نجی معاملات سے کوئی علاقہ نہیں ہے؛ بلکہ اپنے مخصوص عقائد و فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے ہندستانیت اور وطنیت و قومیت کے رنگ میں رنگ جانے کا نام قومی یک جہتی ہے۔ قومی یک جہتی کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ملک کی دوسری اقلیتیں سکھ، عیسائی بدھ اور خصوصا مسلمان ملک کے اکثریتی طبقے کے رنگ میں رنگ جائیں، اقلیت اکثریت میں ضم ہوجائے اور ان کی تہذیب و اقدار کو اپنا کر اپنی تہذیبی اقدار اور مذہبی شناخت سے یکسر دست کش ہوجائے۔ قومی یک جہتی کا مطلب اس سے بہت مختلف، بڑا وسیع اور کئی جہات پر پھیلا ہوا ہے۔ قومی یک جہتی کا مطلب ہے،مشترکہ امور اور مسائل میں ملک کی تمام مذہبی اور قومی اکائیوں کو اور بلا تفریق تمام شہریوں کو اپنے نظریہ و عمل میں یکسانیت پیدا کرنا اور وطن کی بنیاد پر ہمارے جو مشترکہ مسائل اور قومی و تہذیبی اقدار ہیں، ان کے بقا و تحفظ کے لیے مشترکہ اور متحدہ طور پر جدو جہد اور باہمی تعاون کرنا۔جدید تعلیم کے علم بردار اور بانی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سرسید نے بھی قومی یک جہتی کی یہی تعریف کی ہے، سب سے پہلے قوم کے وسیع مفہوم کی انھوں نے اس طرح تشریح کی ہے۔ایک تقریر میں کہتے ہیں:

”لفظ قوم سے میری مراد ہندو اور مسلمان دونوں سے ہے یہی وہ معنی ہیں جس سے میں لفظ نیشن(قوم) کی تعبیر کرتا ہوں۔“

اپنے اس نقطہٴ نظر کی وضاحت تفصیل کے ساتھ ایک دوسرے خطبے میں یوں کرتے ہیں:

”در حقیقت ہندوستان میں ہم دونوں باعتبار اہلِ وطن ہونے ایک قوم ہیں اور ہم دونوں کے اتفاق اور باہمی ہمدردی اور آپس کی محبت سے ملک کی اور ہم دونوں کی ترقی و بہبودی ممکن ہے اور آپس کے نفاق اور ضد وعداوت، ایک دوسرے کی بد خواہی سے ہم دونوں برباد ہونے والے ہیں۔“

مگر سر سید کے نزدیک بھی قومیت میں اشتراک کا مطلب اپنی شناخت اور مذہبی و ملی پہچان سے محروم ہوجانا نہیں تھا کہ مسلمان یا کوئی دوسری مذہبی اکائی اپنی مذہبی شناخت کو چھوڑ کر ہندوانہ یا کوئی اور رسم و رواج اختیار کرلے؛ چناں چہ اپنے ایک لکچر میں کہتے ہیں:

”یکتائی و یک جہتی سے میرا مقصد یہ نہیں کہ سب لوگ اپنے اپنے عقائد کو چھوڑ کر ایک عقیدے پر ہوجائیں، یہ امر تو قانونِ قدرت کے خلاف ہے، جو ہو نہیں سکتا۔“

قومی یک جہتی کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے،اس سے پہلے بھی قومی یک جہتی کے تصور کو ملیا میٹ کرنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر حملے کی کوشش کی گئی ہے۔اور جب بھی یہاں کی مشترکہ تہذیبی اقدار کو جنونیوں نے نشانہ بنایا ہے، مدارس کے بوریہ نشیں علماء نے ایسے عناصر کا دست و بازو پکڑنے کا حوصلہ دکھایا ہے۔ اس حوالے سے علمائے دیوبند نے جو کلیدی رول ادا کیا ہے، وہ ہندستانی تاریخ کے اوراق میں جلی حروف میں درج ہے۔ متحدہ قومیت کے تصور کے نقش و نگارکو ابھارنے اور مشترکہ مسائل پر توافق و تطابق پیدا کرنے کے لیے ہمارے اکابر و اسلاف نے ہر دور میں زور دار اور طاقت ور آواز اٹھائی ہے۔سب سے پہلے دار العلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی نے قومی یک جہتی کو رو بہ عمل لانے کے لیے سب کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی دعوت دی تھی۔مولانا نے اپنے ذہن رسا سے اس نکتے کو دریافت کرلیا تھا کہ ایک کثیر قومی، کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی ملک میں گروہی، جماعتی اور مذہبی اختلافات کسی بھی طرح مفید نہیں ہیں؛اس لیے انھوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے ’اتحاد واتفاق‘ کی پر زور صدا لگائی ہے،ایک موقع پر انھوں نے کہا تھا:

” فی زماننا کفار کا غلبہ ہے۔ وقت نہیں ہے کہ مسلمانوں میں تفریق کو ہوا دی جائے، جس سے ان کا کلمہ متفرق ہوکر مزید ضعف پیدا ہو؛ بلکہ توڑنے کے بجائے جوڑنے کی فکر کی جائے۔“(سوانح قاسمی، ج:۱، ص:۴۸۰)

تحریکِ ریشمی رومال کے بانی اور دار العلوم دیوبندکے اولین طالب علم اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانی ، سرخیل مجاہدین آزادی شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی نے آزادی سے بہت پہلے قومی یک جہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے حوالے سے پیدا ہونے والے مستقبل کے خطرات اور اندیشوں کو بھانپ لیا تھا؛ چناں چہ جمعیة علماء ہند کے عمومی اجلاس(منعقدہ نومبر ۱۹۲۰ء) کے آخری دن مولانانے اجلاس کی کارروائیوں کے بحسن و خوبی اختتام تک پہنچنے پرجہاں تشکر کا اظہار کیا اور منظورشدہ تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی اپیل کی، وہیں اس تحریر ی بیان میں ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرتے ہوئے انھوں نے یہ بھی کہا تھا:

”کچھ شبہ نہیں کہ حق تعالی شانہ نے آپ کے ہم وطن اور ہندوستان کی سب سے زیادہ کثیرتعدادقوم(ہنود)کو کسی نہ کسی طریق سے آپ کے ایسے پاک مقصد کے حصول میں موٴید بنادیا ہے اور میں ان دونوں کے اتفاق و اجتماع کو بہت ہی مفید اور منتج سمجھتا ہوں اور حالات کی نزاکت کو محسوس کرکے جو کوشش اس کے لیے فریقین کے عمائد نے کی ہے اور کر رہے ہیں اس کی میرے دل میں بہت قدر ہے؛ کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ صورتِ حال اگر اس کے خلاف ہوگی تو وہ ہندوستان کی آزادی کو نا ممکن بنادے گی اور دفتری حکومت کا آہنی پنجہ روز بروزاپنی گرفت کو سخت کرتا جائے گا۔ اور اسلامی اقتدار کا اگر کوئی دھندلا سا نقش باقی رہ گیا ہے تو وہ ہماری بد اعمالیوں سے حرف غلط کی طرح صفحہٴ ہستی سے مٹ کر رہے گا؛ اس لیے ہندوستان کی آبادی کے یہ دونوں عنصر؛ بلکہ سکھوں کی جنگ آزما قوم کو ملا کر اگر صلح و آشتی سے رہیں گے تو سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کوئی چوتھی قوم خواہ وہ کتنی ہی بڑی طاقت ور ہو ان اقوام کے اجتماعی نصب العین کو محض اپنے جبر و استبداد سے شکست دے سکے گی۔“(شیخ الہند مولانا محمودحسن: ایک سیاسی مطالعہ، ابو سلمان شاہ جہاں پوری(مرتب)، ص:۲۱۵-۲۱۶،فرید بک ڈپو نئی دہلی، ۲۰۱۱ء)

سلطان القلم اور اپنے عہد کے مشہور عالم دین مولانا سید مناظر احسن گیلانی نے بھی اپنے ایک مضمون میں قومی و وطنی تہذیب پر شرح و بسط کے ساتھ علمی انداز میں مدلل گفتگو کی ہے۔ انھوں نے مختلف انبیاء حضرت نوح، حضرت ہود اور حضرت لوط علیہم السلام کی قوم سے بحث کرتے ہوئے یہ لکھا ہے: جب قرآن میں مذکوران پیغمبروں سے ان کی قوم کے عقائد و اعمال اور خیالات و مسلمات قطعی مختلف تھے، اس کے باوجود ان اقوام کا انتساب ان پیغمبران حق کی طرف کیا گیا۔ انھیں قوم نوح، قوم ہود اور قوم لوط سے خطاب کیا گیا۔اس بنیاد پر انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قومی وحدت کے لیے نہ وطنی وحدت کی ضرورت ہے، نہ نسلی اتحاد کی، نہ زبان کی یکسانیت ضروری ہے؛ بلکہ جس خطے میں بھی کسی پیغمبر وقت کو کسی نسلی اکائی کی اصلاح و ارشادکے لیے بھیجا گیا ہے ،وہ سب ایک قوم ہیں۔ لکھتے ہیں:

”پھرقرآن نے کس بنیاد پر ان جماعتوں اور امتوں کو ان مختلف پیغمبروں کی قوم قرار دیا؟ اس کے سوا اور کیا تھا کہ جو پیغمبر انسانوں کی جس جماعت کی اصلاح و احیاء کے لیے کھڑا کیا جاتا تھا، وہی لوگ اس کی قوم قرار دئے جاتے تھے۔ اب اگر اسی بنیاد پر ، ہندوستان کے مسلمان، ہندوستان کے ان تمام باشندوں کو جن کی ہدایت و ارشاد، ان کا دینی فریضہ ہے اور جن کو اندھیرے سے روشنی میں لانے کے لیے، مسلمانوں کی ایک جماعت، گنگا اور جمنا کے کنارے، کرشنا# اور گوداوریؔ کی وادیوں میں آباد کی گئی۔ ان کے اسلاف اس غرض سے اس ملک میں آئے۔ اگر مسلمان ان ساری جماعتوں کو اپنی قوم قرار دیں، تو قرآن کی اصطلاح سے کیا اس کی توثیق نہیں ہوتی؟ یقینا اس بنیاد پر ہندی مسلمانوں کی قوم، ہندوستان کے قدیم قبائل ڈراویڈیؔ، کولؔ اور بھیلؔ  بھی ہیں، آریہ اور راجپوت بھی ہیں، کائستھ اور برہمن بھی ہیں کہ ان ہی لوگوں کے لیے، ان ہی کی اصلاح ودرستی کے لیے اس ملک میں وہ آئے اور ہندوستان میں قیام کیا۔یقینا اسی اصلاح کی بنا پر چینیؔ مسلمانوں کی قوم، چین# ہی کے وہ باشندے ہیں جن کی طرف چینؔ کے مسلمان مبعوث تھے اور قسطنطنیہ و تھیرس، بلقان، البانیہ، ہرزی گونیا و بوسنیا کے مسلمانوں کی قوم، یورپ کے وہ باشندے ہیں جو ان ملکوں میں ان کے ساتھ آئے ہیں۔ قازون و سرائے باغچہ کے مسلمانوں کی قوم روس کے وہ باشندے ہیں، جن کے درمیان مسلمانوں کی یہ جماعت آباد ہوگئی ہے۔ مصری مسلمانوں کی قوم ان زمینوں کی رہنے والی ہے جو ارد گرد ممالک میں رہتے ہیں اور جن کو اسلام کی دعوت دینا ان کا قرآنی فریضہ ہے۔“(مضامین مولانا گیلانی، مظفر گیلانی(مرتب) ص:۱۱۷-۱۱۸، بہار اردو اکادمی پٹنہ، ۱۹۸۶ء)

اور پھر اس طویل بحث سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”الغرص قوم کے لفظ کو قرآن نے جس مفہوم میں استعمال کیا ہے، ہم کبھی غلطی نہیں کریں گے، اگر اس قرآنی اصطلاح کو پیش نظر رکھ کر ہندوستان کے ہندوٴوں، بودھوں، جینیوں اور اچھوتوں کو ہم اپنی قوم قرار دیں اور اسی تبلیغی علاقہ کی وجہ سے اگر ہندی مسلمان، ہندووٴں کے بھائی اور ہندو ان کے بھائی سمجھے جائیں، تو قرآن سے بجز اس دعوی کے اور کس دعوی کی توثیق ہوسکتی ہے؟“(مضامین مولانا گیلانی، ص:۱۱۸)

عظیم مجاہد آزادی اور دار العلوم دیوبند کے سابق شیخ الحدیث ، حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی نے بھی اپنے استاد حضرت شیخ الہندکے نقشِ قدم کی پیروی کی اور اپنی تمام تر اسلام پسندی کے باوجود،قوم کی بنیاد پر نہیں؛ بلکہ وطنیت کی بنیاد پر متحدہ قومیت کی تعمیر کی بات کی تھی۔ ان کے اس تاریخی ، اور جرأت مندانہ بیان کا کہ”اقوام اوطان سے بنتی ہیں“متحدہ قومیت اور قومی یک جہتی کے عظیم تاریخی تصور کو تقویت بخشنے میں کلیدی رول رہا ہے۔گرچہ ان کے اس بیان سے اول وہلہ میں ایک نئے سیاسی اور مذہبی تنازعے نے جنم لیا تھا اورصرف عوام الناس ہی میں چہ میگوئی عام نہیں ہوگئی تھی؛ بلکہ مشہورمشرقی شاعرڈاکٹرعلامہ اقبال بھی غلط فہمی کا شکار ہوگئے تھے؛ مگر بعد میں جب ان کے بیانات کی روشنی میں حقیقتِ حال ان پر منکشف ہوئی، انھوں نے حضرت مدنی کے موقف سے اتفاق کیا تھا۔اور خطوط کے ذریعے اپنے سابقہ موقف سے رجوع کرلیا تھا۔حضرت مدنی نے متحدہ قومیت کے تصور کو اسلامی اور تاریخی بنیادوں پرمدلل کرنے اور اس کو ملک کے طول و عرض میں ایک قدر مشترک کے طور پر متعارف کرانے کے لیے ”متحدہ قومیت اور اسلام“ نام کا ایک کتابچہ بھی لکھاتھا۔ جس میں انھوں نے مذہب کی آڑ میں علاحدگی پسندی کی تحریک کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا ہے۔

”بہار کے گاندھی“ کے لقب سے مشہور، ممتازسیاسی رہ نما عظیم مجاہد آزادی، عالم دین مولانا مظہر الحق(۱۸۶۶-۱۹۳۰ء) بھی تا عمر قومی یک جہتی کے فروغ اور ہندو مسلمان دونوں کو مشترکہ پلیٹ فارم پر لانے کے لیے کوشاں رہے۔۱۹۰۸ء میں گیا میں بہار کانگریس کی جو ریاستی کانفرنس منعقد ہوئی تھی، اس میں مولانا کی شب و روز تگ و دو کی وجہ سے ہی ہندو مسلم اتحاد کا زبردست مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔اور دونوں قوموں نے کانفرنس کے انتظام و انصرام سے لے کر اس کو کام یاب بنانے تک کے عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مولانا مظہر الحق نے کئی عوامی پروگرام میں اس ملک کی دونوں بڑی قوموں کو نفع و نقصان میں شریک و مساوی قرار دیا ۔ ان کا یہ قول تو بہت مشہور ہے، جو انھوں نے ۱۹۱۶ء میں کانگریس کی لکھنوٴ کانفرنس کہا تھا:

”ہندو مسلم ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں، ڈوبیں گے تو ساتھ پار لائیں گے تو ساتھ۔“

ہندستان ایک کثیر ثقافتی اور کثیر مذہبی ملک ہے، اس ملک میں بہت سی قومیں آباد ہیں، اس دھرتی پر بہت سے مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں، ہرقدم پر قومیت، نسل اور زبان تبدیل ہوجاتی ہے۔یہاں کی مٹی میں اجتماعی مزاج کی خوشبوں رچی بسی ہے،یہاں کثرت میں وحدت کے فلسفہ پر ہی عمل کیا جاسکتا ہے۔ قومی یک جہتی کے اسی تصور کو فروغ دے کر ملک کی سالمیت، اس کے اتحادی ڈھانچے اور اس کی سرحدوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے اوراسی راہ سے اس جمہوری ملک کو قوم اور مذہب اوررنگ و نسل اور زبان و علاقہ کی بنیاد پر اختلاف اور تفریق کے مسئلے سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔ ہندوستان میں اتنی قومیں اور اتنے مذاہب آباد ہیں کہ یہاں متحدہ قومیت کے تصور کے علاوہ کوئی دوسری پر امن اور قابلِ قبول راہ بھی نظر نہیں آتی۔ علاقہ اور زبان و مذہب کی بنیاد پر یہاں کوئی تحریک اور کوئی تنظیم، نہ ماضی میں کامیاب ہوسکی ہے، نہ مستقبل میں ہوسکے گی۔ یہاں ہندو مسلم دونوں کے ایک ساتھ قیام اور ان کی مشترکہ تہذیبی اقدر کا فیصلہ آزادی سے بہت پہلے ہوگیا تھا؛ اسی لیے ہمارے رہ نماوٴوں اور مجاہدین آزادی نے جب دستور اور آئین کی تشکیل کی تھی، اس وقت بھی انھوں نے متحدہ قومیت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تصور کوتقویت بخشنے کے لیے جمہوری اور سیکولر طرزِ حکومت کو ہی منتخب کیا اور آئین میں سارے اقوام و مذاہب کو ضمیر اور عقیدہ کی آزادی دی؛ تاکہ یہاں ساری قومیں اور سارے مذاہب اپنے عقائد اور مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے میں تو آزاد رہیں، مگر مشترکہ امور و مسائل اور قومی وتہذیبی اقدار کے تحفظ کے وقت تسبیح کی طرح ایک لڑی میں پرو دیے جائیں۔ ہندستان میں اتنی قومیں اوراتنے مذاہب کے پیروکار رہتے ہیں کہ قومی یک جہتی اور متحدہ قومیت اور فرقہ وارنہ ہم آہنگی اور بقائے باہم کے فارمولے سے بہترکوئی دوسرا فارمولہ قابلِ قبول ہوہی نہیں سکتا۔ علاقائیت اور صوبائیت یا رنگ و نسل اورمخصوص زبان کی بنیاد اس ملک کے لیے سم قاتل ہے۔اس ملک کی رنگا رنگی ہی اس کی پہچان ہے۔

علمائے دیوبند اور ہمارے اکابر و اسلاف ہمیشہ قومی یک جہتی کے اصول پر کاربند رہے ہیں۔ ان کا ہمیشہ یہی موقف رہا ہے کہ ایک دوسرے کی مذہبی حدود میں کسی قیمت پر مداخلت نہ کی جائے، دوسروں کے مذہبی جذبات و خیالات کو مجروح نہ کیا جائے؛مگر مشترکہ قومی اور وطنی مسائل و امور میں یہاں کی ساری قومیں اتحاد و اشتراک اور تعاون کا مظاہرہ کریں۔ اسی میں ہمارے ملک اور ساری مذہبی اور قومی اکائیوں کی فلاح کا راز مضمر ہے اور اسی طرح ہمارا ملک ترقی کی وسیع شاہ راہ پر دور تک چل سکتا ہے اور نہ صر ف بر صغیر میں بلکہ عالمی پیمانے پرہمارا وطن اپنی شناخت مستحکم کرسکتا ہے اور کسی امریکی یا برطانوی صدرِ مملکت یا حکمراں کو ہمارے ہی ملک میں ہمیں یہ نصیحت کرنے کی ہمت و جرأت نہ ہوگی کہ ”ہندستانیوں کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے اصول کو مضبوطی سے تھامنا چاہیے اور ہندو مسلم، سکھ عیسائی کے درمیان مساوات اور برابری کا معاملہ روا رکھنا چاہیے“!

 

$$$

 

------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ4، جلد:101 ‏، رجب 1438 ہجری مطابق اپریل 2017ء