حقوقِ نسواں،دورِ حاضر کے پرفریب نعرے اور اسلامی تعلیمات

 

از: مولانا اسرارالحق قاسمی

 

عورتوں کے حقوق اوران کے احترام کے عہد کو دہرانے کے لیے ہر سال ۸/مارچ کو یوم خواتین کے طورپر منایا جاتا ہے ، اس کا سلسلہ کم و بیش سو سال سے جاری ہے ، پہلے یہ دن صرف روس اور چین وغیرہ میں منایا جاتا تھا؛ مگر۱۹۷۵/میں اقوامِ متحدہ نے باقاعدہ اس دن کو عالمی سطح پر خواتین کے دن کے طورپر منائے جانے کی قرار داد پیش کی اور اس کے بعد سے اب تک یہ سلسلہ پوری دنیا میں جاری ہے ۔ اس دن عام طورپر حقوقِ نسواں کے علم برداد افراد اور ادارے مختلف جلسے جلوس کے ذریعے یا تحریروں اور تقریروں کے ذریعے سے خواتین کے حقوق کو بیان کرتے ہیں اور دنیا کے مختلف ملکوں میں ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو ختم کرنے کا عزم دہراتے ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے سیکڑوں ممالک کا سیاسی و معاشرتی ماحول مختلف ہے اور ہر جگہ کے مسائل و مشکلات الگ الگ ہیں ،اسی مناسبت سے وہاں کی خواتین کے مسائل بھی مختلف ہوں گے، عام طورپر جنسی نابرابری کا زیادہ چرچا کیا جاتا ہے یعنی یہ کہ عورتوں کو اپنے گھروں میں یا کام کرنے کی جگہوں پر جنسی تفریق سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور ان کے ساتھ مردوں کے مقابلے میں امتیاز برتا جاتا ہے ، تیسری دنیا کا معاشرہ تو خیر اس دور میں بھی اس حوالے سے پیچھے ہی سمجھا جاتا ہے ،لیکن آپ کو حیرت ہوگی کہ وہ ممالک جہاں کے بارے میں عام تصوریہ ہے کہ وہاں کے ہر شہری کو مکمل حقوق اور آزادی حاصل ہیں، وہاں کی صورتِ حال بھی اندوہناک ہی ہے؛ چنانچہ یومِ خواتین کے موقع پر جو دنیا بھر سے خواتین کے احتجاج کی خبریں اور تصویریں سامنے آتی ہیں، ان میں ایک بڑی تعداد یورپی ممالک کی خواتین کی ہی ہوتی ہے ۔

اصل معاملہ کیا ہے؟اصل معاملہ یہ ہے کہ خواتین کے لیے سال کے ایک مخصوص دن کا متعین کیا جانا بذاتِ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ عورتوں کو معاشرے میں وہ درجہ حاصل نہیں ہے جو مردوں کو حاصل ہے اور یہ بات اتنی باریک اور گہری نہیں ہے کہ اس کوسمجھانے کے لیے باقاعدہ دلائل کی ضرورت پڑے ، بس آپ یہ سمجھیے کہ مردوں کے لیے تو کسی عالمی ادارے کی جانب سے کوئی مخصوص دن متعین نہیں کیا گیا ہے ،جس میں اگر ان کے حقوق و اختیارات کا نہیں تو کم ازکم اسی بات پر زور دیا جائے کہ معاشرے میں ان کی ذمے داریاں کیا کیا ہیں اور انھیں اپنے بیوی بچوں اور دوسرے افراد کے ساتھ زندگی میں کس طرح کا برتاوٴ کرنا چاہیے ۔ پس آٹھ مارچ کے دن کو خواتین کے لیے مخصوص کرلینا اور اس دن آزادی نسواں اور حقوق نسواں وغیرہ پر لکچرز دینا ،لکھنا اور بولنا محض ایک رسم تو ہوسکتی ہے؛ لیکن اس کا کوئی معقول اور درست نتیجہ سامنے آنے کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ عورتوں کی آزادی یا ان کے حقوق کی بات کرنے والے یا اس کے لیے تحریکیں چلانے والے لوگ چاہتے کیا ہیں ،یہ اب تک دنیا کے سامنے نہیں آسکا ، اس ضمن میں اگر آپ اس تحریک کے علمبرداروں کی تحریریں پڑھیں ، ان کی تقریریں سنیں اور ان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے عورتوں کی آزادی اور حقوق کا سارا دائرہ جنسی آزادی میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے ، سارے ایسے لوگوں کو حقوق نسواں کا علمبردار کہا جاتا ہے جنھوں نے اپنی تحریروں میں جنسی انارکی کو پیش کیا ہو ۔ اب کوئی بھی انصاف پسند انسان بتائے کہ کیا یہی عورتوں کی آزادی ہے اور کیا بس یہی عورت کا حق ہے کہ وہ جہاں تہاں اپنے وقار ، عصمت اور عفت کی بے حرمتی سہتی پھرے ۔دراصل یہ اشرف المخلوقات کی رسوائی اور شیطان صفت انسانوں کی گندی سوچ کا نمونہ ہے ۔

 جب بھی عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو لازماً اسلام کے معاشرتی نظام پر اشکال کیا جاتا ہے ۔ یہ کہاجاتا ہے کہ اسلام نے عورتوں پر بہت ظلم کیا ہے ۔ اس کو حقوق سے محروم رکھا ہے اور اسے قیدی بناکر رکھ دیا ہے؛حالاں کہ دوسری طرف آزادیِ نسواں کے علمبرداروں کا حال یہ ہے کہ وہ عورتوں سے دفتروں میں ،کارخانوں میں کام بھی کروا رہے ہیں اور دوسری طرف انھیں سے بچے بھی پیدا کروا رہے ہیں ،بچوں کی پرورش بھی عورتوں کے ذریعے ہی کروا رہے ہیں ،آج کے دور میں جو بہت زیادہ ترقی یافتہ اور روشن خیال اور آزادیِ نسواں پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں وہ اپنی عورتوں کو اگر بہت زیادہ با اختیار بنادیتے ہیں تو یہ کرتے ہیں کہ بچوں کی پرورش کے لیے کوئی دوسری عورت رکھ لیتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ طرح طرح کی زیادتی کی جاتی ہے ،اب کوئی بتائے کہ وہ دوسری عورت کیا عورت نہیں ہے ؟جہاں تک اسلام کی بات ہے تو اس سلسلے بس اس حقیقت کوجان لینا ہی کافی ہے کہ عورتوں کے حقوق و اختیارات کی بات کرنے والے لوگ ،ممالک اور ادارے تو ابھی سو ڈیڑھ سو سال پہلے سامنے آئے ہیں؛ جب کہ اسلام نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی عورتوں کو ہر قسم کے مظالم سے اور زیادتیوں سے آزادی دلائی تھی ،سب سے پہلے اسلام نے یہ تصور عام کیا کہ بحیثیت انسان کے مردو و عورت دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور دونوں اشرف المخلوقات ہیں ، ورنہ اس سے پہلے کے مذاہب اور تہذیبیں تو عورت کو انسان بھی ماننے کے لیے تیار نہیں تھے، چہ جائے کہ انھیں حقوق دیتے۔ جو حقوق عورتوں کو اسلام نے دئے ہیں اور جس فیاضی سے دئے ہیں، وہ دنیا کی کوئی بھی تہذیب یا ادارہ آج تک نہ دے سکا ۔ اسلام نے عورت کو ہر حیثیت سے ایک منفرد مقام دیا ہے اور باقاعدہ اس کا تعین کیا ہے۔اگر بیوی ہے تو گھر کی ملکہ ہے ، بیٹی ہے تو والدین کے لیے رحمت ونعمت ہے ، بہن ہے تو اس کی پرورش کرنے والے بھائی کے لیے جنت کی بشارت ہے اور اگر ماں ہے تو اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے ، عورت کے حوالے سے اسلام کا یہ مجموعی تصور ہے ،کیا اتنا پاکیزہ اور جامع تصور کوئی بھی تہذیب پیش کر سکتی ہے؟اس کے علاوہ اسلام نے عورتوں کے تعلیمی ،معاشرتی و معاشی حقوق و اختیارات کو بھی واضح طورپر بیان کیا ہے۔ما ں کی گود کو بچے کی پہلی تعلیم گاہ قرار دیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ عورت کا تعلیم یافتہ ہونا اور مہذب ہونا کتنا ضروری ہے ۔انھیں حلال روزی کمانے اور اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنے کا پورا اختیار ہے ، کسی کو اجازت نہیں کہ اس کے مال میں تصرف کرے ۔ شادی بیاہ کے معاملے میں اگر چہ ولی کولڑکا تلاش کرنے اور پسند کرنے کا اختیار ہے؛ لیکن لڑکی کی مرضی اور خواہش کے بغیر کہیں بھی اس کی شادی نہیں کی جاسکتی ،اس کی رضامندی ضروری ہے ۔ اسلام نے اعتدال کو ملحوظ رکھتے ہوئے عورت کی فطری حالت اور ساخت کو بھی مد نظر رکھا ہے اور اسی وجہ سے کچھ معاملوں میں مردوں کے احکام الگ ہیں؛ جب کہ عورتوں کے الگ ہیں اور اس میں کسی اچنبھے کی بات بھی نہیں ہے ؛ کیوں کہ ہم سب دیکھتے اور جانتے ہیں کہ چاہے انسان کا معاملہ ہو یا حیوان کا یا کسی بھی چیز کا جتنی اس کی صلاحیت اور وسعت ہوتی ہے اسی کے مطابق اس پر ذمے داری عائد کی جاتی ہے یااسی کے مطابق اس کو اختیارات دئے جاتے ہیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں کی زندگی بھر کے تمام تر مرحلوں میں مکمل رہنمائی کرتا ہے اور عورتوں اور مردوں دونوں کے لیے حقوق اور اختیارات طے کرتا ہے ، اگر دونوں اپنے اپنے دائرے میں رہ کر انھیں برتیں تو انسانی معاشرہ ہر طرح سے خوشحال اور مامون بن سکتا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں خود مسلمانوں کا بھی ایک بڑا طبقہ دین اسلام کی تعلیمات و ہدایات سے دور ہوچکا ہے ، جس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں بے شمار خرابیاں جنم لے چکی ہیں اور بہت سے بدباطن لوگ مسلمانوں کی عملی خامیوں کو اسلام سے جوڑ کر دیکھتے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ مسلمان اپنے معاشرے میں مردو و زن کے حقوق و اختیارات کے حوالے سے اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں ، اس کے لیے باقاعدہ تحریک چلائی جائے ، ان شاء اللہ اس سے نہ صرف ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے افراط و تفریط کا خاتمہ ہوگا؛ بلکہ دوسرے لوگ بھی ہمارے طرزِ عمل سے متاثر ہوکر اسلامی تعلیمات کی طرف متوجہ ہوں گے۔

 

$$$

 

--------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ4، جلد:101 ‏، رجب 1438 ہجری مطابق اپریل 2017ء