نئی کتابیں

كلیاتِ كاشف

 

بہ قلم: محمد سلمان بجنوری

 

نام کتاب                    :        کلیاتِ کاشف

    مجموعہٴ کلام                   :        حضرت مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمی راجوپوری رحمہ اللہ

    تدوین واشراف              :        حضرت مولانا ریاست علی ظفربجنوری صاحب مدظلہ

    ترتیب وتحشیہ                :        مولانا اشتیاق احمد قاسمی، استاذ دارالعلوم دیوبند

    تعداد صفحات                :        ۳۴۵              قیمت:   سو روپے (نٹ)

    ناشر                        :        مکتبہ مجلس قاسم المعارف دیوبند

==========================

عصرِ حاضر میں اردو شاعری کے معیار پر جن لوگوں کی نظر ہے، ان کو کسی شاعر کا مجموعہٴ کلام، اپنی جانب کم ہی متوجہ کرتا ہے، عام طور سے افتادہ مضامین، فرسودہ افکار اور سطحی خیالات سے واسطہ پڑتا ہے اور اگر مضمون میں کوئی بات ہو بھی تو تعبیر کا انتخاب، معیاری اور پسندیدہ ہونا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی ایسا مجموعہٴ کلام سامنے آجائے جو نہ صرف زبان وبیان کے اعتبار سے معیاری ہو؛ بلکہ اس کا ہر صفحہ افکار وتعبیرات میں علامہ اقبال کی یاد تازہ کرتا دکھائی دے تو آپ کو خوشگوار حیرت ہی نہیں ہوگی؛ بلکہ اردو شاعری کے معیار سے مایوسی کا بھی ازالہ ہوگا، کلیات کاشف، کچھ ایسا ہی مجموعہٴ کلام ہے جس کو دیکھ کر موجودہ دور کے سب سے بڑے نقاد جناب شمس الرحمن فاروقی صاحب کے قلم سے یہ الفاظ نکلے کہ:

حضرت مولانا محمدعثمان کاشف الہاشمی کے کلام کا یہ مجموعہ ”کلیات کاشف“ میں نے کچھ بے دلی سے پلٹنا شروع کیا، وجہ اس کی یہ ہے کہ میں آج کل اردو شاعری سے بہت بدظن ہوں، گستاخی نہ ہو تو عرض کروں کہ علماء ہوں یا مجھ جیسے کم علم اردو داں، اب شاعری شاید ان کے بس کی نہیں رہ گئی۔زبان وبیان کے اغلاط اور پست وپامال مضامین دیکھ کر رنج ہوتاہے؛ لیکن پہلا صفحہ جس پرنظر ٹھہری اس پر ایک نظم بعنوان ”اسلامیات پر ریسرچ“ دیکھ کر میں دنگ رہ گیا بے ساختہ اقبال کا وہ قطعہ یاد آگیا جو انھوں نے سراکبر حیدری کو لکھ بھیجا تھا الخ“ (کلیات کاشف،ص۵۸) نیز یہ الفاظ کہ ”میرا خیال ہے کلیات کاشف ہمارے زمانے کے قابل ذکر کلیاتِ شعر میں شمار کیا جائے گا“ (ص۶۰)

کلیاتِ کاشف جس شخصیت کی علمی وادبی صلاحیتوں کا مظہر ہے اُن سے نئی نسل تو تقریباً ناواقف ہے ہی، پہلے بھی ان کا حلقہٴ تعارف، ان کے کمالات کے اعتبار سے محدود ترین رہا ہے، ان کی شخصیت، نہایت بلند مقام؛ مگر گمنام ہے؛ لیکن جو لوگ حضرت مولانا ریاست علی ظفربجنوری مدظلہ کے علمی وادبی مقام بلند اور ان کے شاہ کار ”ترانہٴ دارالعلوم“ سے واقف ہیں ان کے لیے اتنی بات کافی ہوگی کہ مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمی رحمہ اللہ، حضرت مولانا ریاست علی صاحب کے استاذ شعر وسخن ہیں اور ان کے حلقہٴ تربیت میں ڈھلنے والے گوہران آبدار میں حضرت مولانا کے علاوہ بھی بہت سے وقیع نام شامل ہیں، اس حلقہ کے رکن رکین حضرت مولانا عبدالحفیظ رحمانی مرحوم تحریر فرماتے ہیں:

”میری نظر میں صاحب کلام کی شخصیت میں فکر وفن کی متعدد جہات ہیں، وہ بہ یک وقت دیدہ ور مصنف، معتبر مفسر قرآن، قادرالکلام شاعر، اعلیٰ درجہ کے نثر نگار اور بہترین مردم ساز تھے، مولانا ریاست علی ظفربجنوری، مولانا لقمان الحق قاسمی، مولانا صادق علی صادق بستوی (ایڈیٹر ماہ نامہ نقوشِ حیات) مولانا محمد صدیق گونڈوی، مولانا لیاقت حسین منہاج، مولانا فضل الرحمن دربھنگوی، مولانا عبدالجلیل راغبی آسامی، مولانا سیدارشد مدنی صدرجمعیة علماء ہند، مولانا حسن الضمیر کانپوری کے نام بے ساختہ زبان قلم پر آگئے۔“ (کلیات کاشف ص۴۲)

مولانا کاشف الہاشمی صاحب کے مکمل تعارف کے لیے حضرت مولانا ریاست علی صاحب مدظلہ کے یہ الفاظ نہایت اہم ہیں جو مرتبِ کلیات اشتیاق احمد صاحب نے ”حرف گفتنی“ میں نقل کردیے ہیں: ”حضرت کاشف الہاشمی، نکھرا ہوا رنگ، بلند پیشانی، سنہرے چشمہ کے احسانات سے گراں بار بڑی بڑی آنکھیں، نکلتا ہوا قد، ذہانت کا پیکر جمیل، بیٹھیں تو کوہِ گراں کی نشست، چلیں تو ڈھال سے اترتے ہوئے محسوس ہوں، یہی ہیں مملکتِ شعروسخن کے خاموش تاجدار، اس فن میں تلمُّذ کسی سے نہیں، مگر ذروں کو ہاتھ لگادیں تو وہ ستارے بن کر چمکنے لگیں، ان کو ترتیب سے رکھ دیں تو کہکشاں کی تصویر ابھر آئے، مضامین ان کے سامنے خود گرفتاری کی پیش کش کریں اورالفاظ موتیوں کی لڑی بن کر ان کے قلم سے بکھرنے میں فخرمحسوس کریں“ (کلیات کاشف، ص۱۹)

ایسی بلندپایہ ادبی شخصیت کا کلام اب تک نا آشنائے اشاعت تھا؛ لیکن اُن کے سب سے قریبی مرتبہ شناس اور قدرداں، حضرت مولانا ریاست علی صاحب ظفرمدظلہ، ان کے متفرق کلام کو ایک جلد میں محفوظ کیے ہوئے موقع اور اسباب کی فراہمی کے منتظر تھے کہ ان کی نظر میں اس کلام کو مرتب کرنے کے لیے جناب مولانا اشتیاق احمد صاحب قاسمی استاذ دارالعلوم دیوبند، موزوں معلوم ہوے، حضرت موصوف نے یہ کام اُن کے حوالے کردیا اورانھوں نے اپنی فطری مستعدی اور سلیقہ سے یہ کام انجام دے ڈالا، اس طرح کلیات کاشف وجود میں آ گئی۔

کلیاتِ کاشف ہمہ رنگ پھولوں کا گلدستہ ہے، اس میں شعری ادب کی متنوع اصناف پر طبع آزمائیوں کے نمونے موجود ہیں، حمد ونعت،نظم وغزل، رباعیات کے علاوہ مراثی، خراجِ عقیدت اور دعائیہ قصائد سے آپ محظوظ ہوں گے، ہاں! اجنبی اصنافِ سخن کو آپ نہ پائیں گے۔ غرض یہ کہ کلیات کاشف بامقصد ادبیات کے ذخیرے میں ایک حسین اضافہ ہے، موصوف کی ساری صنفوں پر علامہ اقبال ہی غالب نظر آتے ہیں، اصول پسندی اور فکری پابندی میں اقبال سے ایک قدم آگے ہیں، علامہ کی شاعری پر فکری زاویے سے مختلف لوگوں نے اعتراضات کیے ہیں؛ مگر میری نظر میں کلیات کاشف کا قاری ایسی بے راہ روی نہیں پائے گا جو قابلِ گرفت یا باعثِ مذمت ہو، چند حمدیہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

اُدھر ستاروں میں روشنی  ہے، اِدھر قیامت  کی  تیر گی  ہے

کو ئی  ا ٹھا کر  چر ا غ  جیسے کسی  کو  ر ا ہیں  د کھا  ر ہا ہے

نشیب بھی ہے، فراز بھی ہے، سکوں ہے سوز وگداز بھی ہے

صلا ئے  کو شش  بشرطِ  معنی، ہر ایک محفل میں پا ر ہا  ہے

یہ  کون  شا ئستہٴ  چمن  ہے ،  یہ  کو ن  شا  ہا  نِ  ا نجمن  ہے

بہا ر  پیر  ا  یہٴ  نظر  ہے ،  بسا  طِ   عا  لم   پہ   چھا  ر  ہا  ہے

                                                                                                                       (کلیات کاشف،ص۶۳)

عالمِ اضطراب میں توحید کے شواہد کو ایسے حسین پیرائے میں بیان فرمایا ہے کہ بس پڑھیے اور سردھنیے۔

نعتیہ اشعار بھی اپنے رنگ وآہنگ میں بڑی کشش رکھتے ہیں، غزلیہ اسلوب میں ڈوبی ہوئی تعبیرات نعت کا حسن بڑھا دیتی ہیں، ”بہ درگاہِ سید الانبیاء اور بہ صہبائے رحمت ملاحظہ فرمائیے!

”نظمیہ شاعری“ میں کاشف الہاشمی کھل کر سامنے آتے ہیں، علامہ اقبال کے حلقہٴ سخن میں بڑی ہنرمندی سے کج کلاہی کی راہ ورسم کو خوش اسلوبی سے نبھاتے ہوئے نظرآتے ہیں، فارسی اور عربی الفاظ کے ذخیرے سے قاری مرعوب کن حد تک متاثر ہوتا ہے۔

نظم کے نمونے پیش کرنے سے بات طویل ہوجائے گی اور بے ربط بھی پھر بھی شکُوہِ بیان کے نمونے کے لیے چند اشعار لکھے جاتے ہیں، شاعر عندلیبِ چمن سے مخاطب ہیں:

اے نوا پردازِ گل، سرمایہٴ گلشن ہے تو         $       جس میں لاکھوں بجلیاں سوتی ہیں وہ ایمن ہے تو

اے ترا سوزِ دروں ہے عزتِ فصل بہار      $       اے ترا جوشِ جنوں ہے بانیِ لیل و نہار

تیرے خوں سے فیض پاتا ہے نہالِ زندگی

    تو جمالِ زندگی ہے، تو کمالِ زندگی

 

اٹھ کہ صبحِ نو سے، دیوارِ چمن زرپوش ہے     $       اٹھ کہ مہر نور افشاں گل سے ہم آغوش ہے

دیدہٴ باطل نے لُوٹا ننگ ونامِ کائنات         $       قید ہوکر رہ گیا کیفِ دوام کائنات

ظلمتِ اوہام سے دست وگریباں ہے حیات  $       آہ کیوں خیمہ زنِ کوہ وبیاباں ہے حیات

وقت آیا ہے کہ تو ہو زمزمہ سازِ چمن

تو بنا سازِ چمن ہے تو ہے سرافراز چمن

(ص۱۷۶)

    ”قلم“ کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں:

جنون وتدبر کی تصویر زندہ        $       بیانِ بہاراں، خزاں کی کہانی

محبت کے بھیدوں کی عقدہ کشائی  $       دلِ کم سخن کی کھلی ترجمانی

نبوت کے بارِ گراں کا محافظ       $       شہادت کے جذبہ کی عنبر فشانی

جِلو میں لیے کاروبار دوعالم        $       سنبھلتا بڑھاپا، مچلتی جوانی

نہ تھی کوئی مخلوق؛ لیکن قلم تھا

قلم زورِ قدرت کا پہلا قدم تھا

(ص۱۷۱)

    ”لادینی جمہور“ کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:

اس دور میں ارزاں ہے آئینِ جہاں بانی      $       مے خواری وبدمستی، بے کاری وعریانی

خاکشترِ شاہی سے پھوٹا ہے وہ اک فتنہ        $       شرمندہ ہوئی جس سے شیطاں کی ہمہ دانی

لادینیِ جمہوری اک دن میں نہیں آئی         $       برسوں کا تجسس ہے، صدیوں کی گراں جانی

سفاکیِ مغرب نے انساں کو سکھایا ہے         $       یا خونِ دل امکاں یا گوشہٴ رہبانی

جمہور کے سینہ میں مردہ ہے دلِ زندہ        $       آبادیِ مجلس ہے، انسان کی ویرانی

    اور ملاحظہ فرمائیں: ”رزم حق وباطل“

وہ دمِ شمشیر جس سے قوتیں زیروزبر                  $       وہ نگاہِ تیز جس میں گرمیِ برق وشرر

قلبِ دریا جس سے لرزاں ہے وہ موجِ رُست خیز       $       وہ تڑپ بجلی کی جس سے کانپتے ہیں بحروبر

”لا“ پرستوں کے لیے وہ ضرب ”الا اللہ“ ہے       $       گونجتی ہے زندگی میں جس کی آوازِ اثر

جادہٴ ہستی پہ جیسے خضر کوئی گامزن            $       جس کا ہر نقشِ قدم تابندہ تر پابندہ تر

نشہٴ جبروت وقوت کو مٹانے کے لیے

برق بن کر خرمنِ باطل جلانے کے لیے

=======================

بے خودی اندر وقار خود سری پیدا کرو        $       موت سے آزاد ہوکر زندگی پیدا کرو

اس جہانِ خامُشی میں نغمگی پیدا کرو         $       نغمگی کی روح میں شوریدگی پیدا کرو

فاش کردو شعبدہ کارانِ ہستی کا فسوں        $       سامری پیکر میں حسنِ موسوی پیدا کرو

شکوہٴ تقدیر کب تک خوگر شیون کرے

وسعتِ رحمت نہ دیکھے، تنگ خود دامن کرے

 

اقبال کارنگ وآہنگ، سوز ودرد اور شکوہِ بیان دیکھنے کے لیے درج ذیل عناوین کا مطالعہ کیجیے: خودشناسی، یتیم، اشک، غنچہٴ نورُستہ، شکر وشکایت، لبِ جو، پھول اور بلبل، چاند اور چراغ، چاند کا گیت وغیرہ۔

غزلیہ شاعری سے محظوظ ہونے کے لیے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:

محبت اور ہی کچھ تھی زمانہ اور کچھ سمجھا

کہاں آیا خرد تجھ کو حقیقت آشنا ہونا

محبت میں خیالِ ماسوا اِک جرم ہے کاشف

عبث ہے یہ مآل اندیشیوں میں مبتلا ہونا

(ص۱۸۳)

محبت سوزِ غم ہے سوز غم ہی دشمنِ دل ہے

سکوں دیتا ہے دل کو سوزِ غم ایسا بھی ہوتا ہے

خودی جلوہ، مکان ولا مکان منجملہ جلوہ

تمہیں یوں دیکھتی ہے چشمِ غم ایسا بھی ہوتا ہے

میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ احوالِ جنوں لکھوں

تمہارا نام لکھتا ہے قلم، ایسا بھی ہوتا ہے

(ص۱۸۹)

میں گنہگار ہوں اس سے مجھے انکار نہیں

ہاں گناہوں پہ سزا شیوہٴ غفار نہیں

ہمتیں پست ہیں، خود اہلِ طلب کی ورنہ

تیرا ملنا بہت آسان ہے دشوار نہیں

(ص۱۹۱)

پلا وہ بادہٴ خوش رنگ جس سے ہوش اڑجائیں

”وداعِ ہوش“ میں ہو لذتِ دیوانہ پن ساقی

(ص۱۹۳)

اے میرِ کارواں ذرا کاشفؔ کو ڈھونڈ لیں

وہ بدنصیب آبروے گیر و دار ہے

(ص۲۰۳)

    میر کی زمین میں غزل سنیے!

اندھیری رات مشکل سے کٹے ہے

ترا چہرہ نگاہوں میں پھرے ہے

سنو جب تم نہیں ہوتے چمن میں

ہمارا سانس کیوں رکنے لگے ہے

مرے پاؤں میں چھالے پڑگئے ہیں

یہ تم جانو کہ چھالا کب پڑے ہے

سمجھ لیتے ہیں اپنا ہر کسی کو

یہ دھوکا غالباً سب کو لگے ہے

(ص۱۷۴)

اک اور ہی مستی ہے کہ ہم جھوم رہے ہیں

مدہوش نہیں کوئی یہاں رطل گراں سے

(ص۲۰۸)

دیکھا انھیں تو آنکھ سے آنسو نکل پڑے

سمجھے ہوے تھے ہم کو جدائی کا غم نہیں

(ص۲۰۹)

نہ دلوں میں پاسِ وفا رہا، نہ جنوں میں تیشہ وری رہی

نہ گلوں میں رنگِ طرب رہا، نہ جنوں میں بخیہ گری رہی

نہ ہمیں رہے نہ وہی رہے، جو رہی تو عِشوہ گری رہی

نہ طلب رہی نہ کرم رہا، نہ متاعِ زخمہ وری رہی

نہ تری نظر کی نوازشیں ، نہ مری طلب کی نہایتیں

نہ وہ دل میں جوششِ مے رہی، جو رہی تو دردِ سری رہی

نہ شہابِ رنگ چمن رہا، نہ وفائے اہلِ وطن رہی

جو خیال تھا وہ دبا رہا، جو شراب تھی وہ دھری رہی

(ص۲۱۶)

کلیات کاشف میں مراثی بھی شامل ہیں، شیخ الاسلام حضرت مدنی کا تفصیلی مرثیہ کہنا چاہ رہے تھے؛ مگر وہ پایہٴ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا؛ لیکن جتنا لکھا ہے وہ مراثی کے باب میں شاہ کار ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری کا مرثیہ، علامہ اقبال کے محمدقلی قطب شاہ پر کہے گئے مرثیے کی یاد دلاتا ہے۔

”رباعیات“ کا اچھا خاصا ذخیرہ شاملِ کلیات ہے اور ایک صفحہ ”قطعات“ کا بھی، پھر مرتب نے ”ترانہٴ دارالعلوم“ کو لغات وشرح کی تعلیق کے ساتھ لاحق کیا ہے کہ یہ بھی حضرت کاشف الہاشمی کے فیضِ صحبت کا نتیجہ ہے۔

بالکل اخیر میں مرتب نے مشکل الفاظ کے معانی کا ایک فرہنگ شامل کیا ہے، اس میں شاعر کے اختیار کردہ الفاظ کے لغوی معنی اور کہیں مرادی معنی کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس وجہ سے بھی کہ اب فارسی کا چلن نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے الفاظ قارئین کے لیے نامانوس ہوسکتے ہیں۔

غرض یہ کہ ”کلیات کاشف“ بہ قول ڈاکٹر فاروقی زمانے کی قابلِ ذکر معروف کلیات میں شامل ہے، اس سے ادبی ذخیرے میں حسین اضافہ ہوا ہے، اسلامی اور شعری ادب کا طالب اس میں وہ تمام خوبیاں پائے گا جو مطلوب ہیں، کتاب اپنے باطنی حسن کے ساتھ ظاہری حسن سے بھی آراستہ ہے، کتابت، طباعت، کاغذ اور ٹائٹل سب کا معیار بلند ہے، لیجیے! گلدستہٴ شعر وادب کو شوق کے ہاتھوں لیجیے اور ذوقِ ادب کی تشنہ کامی دور کیجیے!

 

$$$

 

---------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ4، جلد:101 ‏، رجب 1438 ہجری مطابق اپریل 2017ء