حرفِ آغاز

تورہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول

(فضلائے مدارس کی خدمت میں چند ضروری گذارشات)

 

مولانا محمد سلمان بجنوری

 

گذشتہ ماہ، اسلام بیزار طبقہ اوراس کے ساتھ مستشرقین اور استشراق کے موضوع پر چند گذارشات پیش کی گئی تھیں، ظاہر ہے اُن کے مخاطب بھی ہمارے فضلائے مدارس ہی تھے؛ لیکن ان میں طرز تخاطب عمومی انداز کا تھا اور وہ کام، ملت اسلامیہ کا ہر وہ فرد کرسکتا ہے جو دین کا علم اور اس کی صحیح فکر رکھتا ہو؛ لیکن آج خاص طور پر مدارس اسلامیہ سے سند فراغت لے کر نکلنے والے نوجوان علماء سے چند گذارشات کی جارہی ہیں، اللہ کرے یہ باتیں ان کے دلوں تک رسائی حاصل کرسکیں۔

مدارس اسلامیہ، بالخصوص ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند سے شروع ہوکر ساری دنیا میں پھیل جانے والے مدارس اسلامیہ کے مقاصد قیام سے جو شخص بھی واقف ہوگا اس کے لیے یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ یہ مدارس اپنے موجودہ کردار میں ملت اسلامیہ کی تمام دینی ضرورتوں کے ذمہ دار ہیں، ان کے فرائض میں جہاں علوم اسلامیہ کے ورثہ کی اس کی صحیح شکل میں حفاظت واشاعت اور دین کی، صحیح تفسیر وتشریح اور تعبیر ہے وہیں ہر دور میں پیش آنے والے معاملات ومسائل میں امت کی دینی رہنمائی اور مسلمانوں کی دینی ضروریات کی تکمیل بھی ان کی ذمہ داری ہے۔

اور یہ بھی ظاہر ہے کہ مدارس اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کی ادائیگی اپنے فضلاء و فرزندان ہی کے ذریعہ کرسکتے ہیں، اس لیے یہ ساری ذمہ داریاں درحقیقت فضلاء مدارس ہی کی ہیں؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے جس کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں کہ ہم یہ ذمہ داریاں کما حقہ پوری کرنے میں فی الحال پورے طور پر کامیاب نظر نہیں آرہے ہیں، جس کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں؛ مگر سب سے بڑا سبب اپنی ذمہ داریوں کے تئیں احساس کی کمی اوراس کے لیے ضروری تیاری میں کوتاہی کی ہماری روش ہے، جس کو بدلنا اور اپنے اسلاف واکابر کی طرح ”نگہِ بلند، سخنِ دلنواز اور جانِ پر سوز کے رخت سفر سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے درج ذیل گذارشات پر غور فرمائیں:

(۱) اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ علوم نبوت اور دین وشریعت سے محکم وفاداری کا سبق پختہ یاد کرکے جائیں اور یہ سبق زندگی کے کسی مرحلے میں بھی نہ بھولیں، آپ کو دنیا کاکوئی مفاد یا دباؤ اس وفاداری سے سرِمو ہٹانے میں کامیاب نہ ہو، اگر دین وشریعت یا علم نبوت کے نقصان کی قیمت پر آپ کو دنیا کی بڑی سے بڑی دولت یا منصب ملنے کا یقین ہو تو اس کو کمال بے نیازی سے ٹھکرادیں اوراس طرح کا کوئی لالچ آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آنے دے۔

(۲) فراغت کا مفہوم یہ نہ سمجھیں کہ آپ عالم بن گئے ہیں؛ بلکہ یہ سمجھیں کہ اب آپ کو پڑھنا سکھادیا گیا ہے، اب ساری زندگی آپ کو پڑھنا ہے۔ اپنے پڑھنے اورمطالعہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھے بغیر آپ صحیح معنوں میں عالم کہلانے کے حق دار نہیں ہوسکیں گے۔ ہم میں سے کم ہمت لوگ مدرسہ سے فارغ ہونے پر اپنے آپ کو عالم سمجھنے لگتے ہیں اور پڑھنے کا اہتمام نہیں کرتے جب کہ واقعہ یہ ہے کہ سالہا سال کے مطالعہ کے بعد تو انسان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا کیا نہیں جانتا اور جس کو یہ معلوم ہوجائے وہی عالم کہلانے کا مستحق ہوتا ہے۔

(۳) مطالعہ کے سلسلے میں دو تین باتیں ملحوظ رکھیں ایک تو یہ ابتدائی دور میں مطالعہ کے لیے اپنے محترم اساتذہ اوراکابر علماء سے رہنمائی حاصل کریں۔ دوسرے یہ کہ مطالعہ کو اپنی عادت یا معمول بنالیں۔ اس کے لیے تین طریقے ہیں: یا تو ہر وقت کتاب ساتھ رکھیں اور جب اور جہاں موقع ملے پڑھ لیں، یا مطالعہ کا وقت مقرر کرلیں اوراس وقت میں کوئی دوسرا کام ہرگز نہ کریں یا یہ کہ مطالعہ کی ایک مقدار مثلاً سو صفحات یا دو سو صفحات روزانہ طے کرلیں اور اس مقدار کو پورا کیے بغیر آرام نہ کریں۔

(۴) مطالعہ کی جو یہ بات عرض کی گئی ہے یہ ہر فاضل کے لیے ہے تاکہ اس کے علم میں اضافہ ہو اور وہ صحیح معنوں میں عالم بن سکے پھر جو فضلاء باضابطہ تدریس سے وابستہ ہوں وہ اپنے درسی مطالعہ کو کافی نہ سمجھیں؛ بلکہ درسی مطالعہ کے علاوہ مطالعہ کی یہ مقدار پوری کرنے کی کوشش کریں۔

(۵) جو فضلاء تدریس سے وابستہ ہوں ان سے یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ سبق کے لیے بھرپور تیاری کو معمول بنائیں، ناقص مطالعہ کے ساتھ سبق نہ پڑھائیں۔ کتاب پوری طرح حل کریں اوراس عمل کو طلبہ کا حق ادا کرنے کی پہلی شرط سمجھیں۔

(۶) جو فضلاء وعظ و تقریر کاکام کریں وہ بھی بغیر تیاری کے نہ کیا کریں۔ اپنے ہر بیان کا موضوع طے کرکے پوری تیاری کریں، معتبر کتب تفسیر وحدیث اوراکابر علماء کی تصانیف کا مطالعہ کریں اوراپنے مطالعہ کا خلاصہ اشاروں میں لکھ بھی لیں، غیرمعتبر روایات بیان کرنے سے احتراز کریں، بیان کرنے میں سامعین کی پسندکے بجائے اللہ کی رضا کو پیش نظر رکھیں اورپورے اخلاص کے ساتھ متوجہ ہوکر بیان کریں۔

(۷) جو فضلاء مساجد کی امامت وخطابت سے وابستہ ہوں ان کی ذمہ داری، عوامی اصلاح کے سلسلے میں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے حضرات صرف نماز پڑھانے کو اپنی ذمہ داری نہ سمجھیں؛ بلکہ اپنے محلہ یا مسجد کے حلقے کے تمام لوگوں کے حالات پر نظر رکھیں۔ انفرادی طور پر لوگوں سے رابطہ رکھیں اور ان کے دینی حالات وضروریات کا اندازہ کریں اور ان کے عقائد واعمال میں جو خرابیاں ہوں ان کو دور کرنے کے لیے پوری دل سوزی اور حکمت کے ساتھ کام کریں، کوشش کریں کہ محلہ کے سارے لوگ نمازی بن جائیں، مسجد سے ان کی بھرپور رہنمائی ہو اور وہ پوری طرح مسجد کے نظام سے مربوط رہیں۔

(۸) کسی بھی جگہ کوئی نیادینی کام مثلاً مدرسہ وغیرہ شروع کرنا چاہیں تو اس بات کا پورا خیال رکھیں کہ یہ کام کسی وقتی تقاضے یا ذاتی داعیہ کی بنیاد پر نہ ہو، نہ اس کا فیصلہ جلد بازی میں کیاگیا ہو؛ بلکہ جہاں وہ کام شروع کررہے ہیں وہاں کی ضرورت کا جائزہ لے کر، مشورہ سے کام کاآغاز کریں، ہر حال میں وہاں کی دینی ضرورت اورمصلحت کو ملحوظ رکھیں، کسی قسم کی مقابلہ آرائی کے قریب بھی نہ جائیں۔

(۹) تمام فضلاء خواہ وہ مدارس میں تدریس سے وابستہ ہوں یا مساجد میں امامت وخطابت سے، یا دیگر مشاغل کو اختیار کریں، سب حتی الامکان حسب صلاحیت اس بات کی کوشش کریں کہ اپنی مساجد میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کریں اور اس میں اپنے اکابر کی تفاسیر کا مطالعہ کرکے ضرورت کے مضامین بیان کریں، اس سے بڑی حد تک اس ذمہ داری کی تکمیل ہوگی، جو اپنے مسلمان بھائیوں کے تعلق سے ہم پر عائد ہوتی ہے۔ مزید اپنا بے حد علمی فائدہ بھی ہوگا۔ اللہ رب العزت کے کلام عالی مقام سے وابستگی اور اشتغال کی سعادت بھی حاصل ہوگی۔

(۱۰) اور ان تمام علمی ودینی کاموں کے ساتھ اپنی اصلاح وتزکیہ سے ہرگز بے فکر نہ ہوں ؛ کیوں کہ ہماری تمام دینی خدمات میں روح اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب قلب کی حالت درست ہو، نیت، ہرقسم کے دکھاوے اور اغراض سے پاک ہو اور ہماری عملی حالت قابل اطمینان ہو، اس کے لیے علماء وفضلاء، خاص طور پر تزکیہ واصلاح کی طرف متوجہ ہوں اور معتبر مشائخ سے استفادہ کریں۔

خلاصہ یہ ہے کہ اپنی زندگی کا نظام اس طرح بنائیں کہ وہ امت کے لیے ایک مفید ترین انسان ثابت ہوں اور اُن کا کردار اور دینی فہم قابل اعتماد ہو اور اُن کے ذریعہ ان کے اسلاف واکابر کا نام روشن ہو، اس مقصد کے لیے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم سے لے کر،ائمہ مجتہدین، مشائخ امت اور حضرات اکابر دیوبند نے جو روشن ہدایات اور حسین روایات ہمارے لیے چھوڑی ہیں ان کو پڑھیں اور حرز جان بنائیں، اس وقت اختصار کے پیش نظر ہم اس تحریر کا اختتام حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ایک ارشاد پر کرتے ہیں جس سے ایک عالم دین اور حامل علوم قرآن کی شان پر بھرپور روشنی پڑتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

ینبغی لحامل القرآن أن یعرف بلیلہ اذا الناس نائمون، وبنھارہ اذا الناس مفطرون، وبحزنہ اذا الناس یفرحون، وببکائہ اذا الناس یضحکون، وبصمتہ اذا الناس یخوضون، وبخشوعہ اذا الناس یختالون، وینبغی لحامل القرآن أن یکون باکیا محزونا حکیما حلیما سکینا، ولا ینبغی لحامل القرآن أن یکون جافیا ولا غافلا ولا سخابا ولا صیاحًا ولاحدیدًا (الزہد للامام أحمد، ص:۲۰۲)

حامل قرآن کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ اس کو اس کی رات (کے قیام وعبادت) سے پہچانا جائے جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں اور اس کے دن (کے روزے) سے جب لوگ روزے سے نہ ہوں اور اس کے غم سے پہچانا جائے جب کہ لوگ (غفلت سے) ہنس رہے ہوں اوراس کی خاموشی سے جب کہ لوگ غیرضروری باتوں میں مشغول ہوں اوراس کی عاجزی سے پہچانا جائے جب کہ لوگ تکبر میں مبتلا ہوں اور حامل قرآن کے لیے زیبا ہے کہ وہ (اللہ کے خوف سے) رونے والا (امت کے لیے) غمگین، دانا، بردبار وباوقار ہو اور اس کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ وہ سخت مزاج، غافل، بدگو، چلانے والا اور تیزمزاج غصہ ور ہو۔

اللہ رب العزت ہمیں یہ شان اور یہ صفات اپنی زندگی میں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

-----------------------------

 

رمضان المبارک کی آمد

 

یہ شمارہ ماہ شعبان ورمضان کا مشترکہ شمارہ ہے اور جس وقت یہ قارئین کے ہاتھ میں پہنچے گا، ماہ رمضان کی آمد آمد ہوگی۔ اللہ رب العزت اس ماہ مبارک کے ایک ایک لمحہ کی قدر نصیب فرمائے۔

رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندوں کے لیے خاص تحفہ ہے، جس میں ان کو دینی پہلو سے اپنی زندگی کو بہتر بنانے کا موقع ملتا ہے۔ بہتر زندگی کا معیار، شریعت کی زبان میں تقویٰ ہے، جس کے حصول کا ایک اہم ذریعہ روزہ ہے کہ جب ایک انسان ایک مہینے تک دن بھر،اللہ کے حکم کی وجہ سے حلال چیزوں سے بھی پرہیز کرتا ہے تو اس کو اس بات کی مشق ہوجانی چاہیے کہ وہ تمام زندگی، اللہ کے حکم کے احترام میں اس کی حرام کی ہوئی چیزوں اور ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرے۔ اس چیز کے حصول کے لیے ظاہر ہے کہ رمضان کو پوری احتیاط اور پرہیز کے ساتھ گذارنا ضروری ہوگا کہ ہر قسم کے گناہ اور فضول کاموں سے اجتناب کیاجائے اور اپنی ہمت کے مطابق زیادہ اوقات کو طاعت وعبادت اور تلاوت میں صرف کیا جائے۔ بالخصوص اس لیے بھی کہ بہ قول امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ، رمضان پورے سال کے لیے معیار ہے، جیسا رمضان گذرتا ہے اس کے اثرات سارے سال پر پڑتے ہیں؛ اس لیے ہم سب کو پوری ہمت کے ساتھ رمضان المبارک کے ہر لمحہ کی بھرپور قدر کرنی چاہیے۔ اللہ رب العزت اس ماہ مبارک کو پوری امت کے لیے خیر وبرکت اور عافیت کا سبب بنائے، آمین!

 

$$$

 

------------------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5-6، جلد:101 ‏،شعبان۔رمضان 1438 ہجری مطابق مئی۔جون 2017ء