تہذیب جدید اوراسلامی معاشرہ

 

از: مولانا توحیدعالم قاسمی بجنوری

مدرس دارالعلوم دیوبند

 

موجودہ زمانہ نئی نئی ایجادات، سائنسی تحقیقات واختراعات اور ترقیات کا دور کہلاتا ہے۔ آج کل ماضی کی طرح قدامت پسند افراد کی قدروقیمت گھٹ رہی ہے۔

یہ بات علم وتحقیق کے میدان ہی تک محدود نہیں؛ بلکہ دینِ اسلام اور اس کی روح سے متصادم ہے، لوگوں کا کھانا پینا بدل گیا، گھر کے لذیذکھانوں کی جگہ ہوٹل کے کھانے پسندیدہ ہوگئے، عورتوں سے لے کر مردوں تک اور بچوں سے بڑوں تک سب کی پسند بازاری غیرمفید؛ بلکہ نقصان دہ کھانے ہیں جو بے انتہا مہنگے ہوتے ہیں۔

اسی طرح لباس کے حوالے سے بھی عصر حاضر میں شرعی لباس، سلف صالحین اور اللہ والوں کا لباس، کرتا، پائیجامہ، عمامہ اور ٹوپی کی جگہ انگریزی لباس، کوٹ، پینٹ، ٹائی، ٹی شرٹ اور کیپ پسند کیے جاتے ہیں، مذکورہ غیرمعقول لباس جس طرح نوجوان لڑکوں اور مردوں کی پہلی پسند ہے، اسی طرح عورتیں بھی اسی لباس کی دلدادہ ہیں، لہٰذا جو مردو خواتین اپنے آبا واجداد کے طرز پر اُس پرانے لباس کو اختیار کرتے ہیں وہ دقیانوسی، غیرمہذب، غیرترقی یافتہ؛ بلکہ ترقی کے دشمن اور مخالف سمجھے جاتے ہیں، ان کا استہزاء کیا جاتا ہے اور ان پر فقرے کسے جاتے ہیں؛ جب کہ اسلامی لباس آرام دہ، جسم کو سردی گرمی سے محفوظ رکھنے والا اور مقصد لباس (سترپوشی) کو پورا کرنے والا ہے اور انگریزی لباس جسم کو آرام کے بجائے تکلیف دینے والا، موسم کی نزاکت سے ہم آہنگ نہیں ہوتا، اسی طرح ستر کو چھپانے کے بجائے اعضا کو مزید نمایاں اور ظاہر کرنے والا ہوتا ہے۔

معاشرت

مغربی تہذیب قدیم تہذیب اور اسلامی معاشرے سے بغاوت کادوسرا نام ہے، نظرغائر کے ساتھ اگر دونوں تہذیبوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی؛ اس لیے کہ مغربی تہذیب سلام ومصافحہ میں بھی بے معنی اور مہمل الفاظ کے استعمال کی وکالت کرتا ہے، ایک طرف جدید معاشرے میں والدین کے حقوق، بڑوں کا ادب واحترام، چھوٹوں پر شفقت ورافت، ساتھیوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کی تحسین اور تاکید سے عاری ہی نہیں؛ بلکہ مذکورہ اوصاف کے خلاف ماحول کا استقبال ہوتا ہے، تو دوسری ابلاغ وتشہیر کے نت نئے ذرائع کی کثرت وبہتات کے آلات کے استعمال کو تہذیب جدید کے اہم جز کے طور پر دیکھا جاتا ہے جن کے واسطے سے رات ودن جھوٹ اور حقائق وواقعات کو چھپا کر یا ان کو توڑ مروڑ کر ان کے خلاف کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور لوگوں کے جرائم وعیوب پر پردہ پوشی کے بجائے ان کی تشہیر اور پبلسٹی کو پسند کیا جاتا ہے جس کا کوئی مثبت نتیجہ یا فائدہ برآمد ہونے کی جگہ دوسرے افراد میں ان عیوب اور جرائم کی جرأت وہمت پیدا ہوجاتی ہے، جس کے انجام میں جرائم اور عیوب کا گراف گھٹنے کے بجائے بڑھتا چلا جاتا ہے، اسی طرح جدید تہذیب کے دلدادہ روشن خیال حضرات وخواتین میں ایثار وقربانی، ہمدردی وغم خواری، شرم وحیا، عفت وپاک دامنی اور حسن ظن وغیرہ اوصافِ حمیدہ اور صفاتِ جمیلہ کا فقدان نظر آتا ہے۔

جب کہ قدیم تہذیب ومعاشرہ اور اسلامی سماج میں ہر نوع کی خوبی ملے گی اور ہر برائی سے دوری اور اجتناب کی پذیرائی نظر آئے گی۔ مثلاً باہم ملاقات کے وقت سلام ومصافحہ کی اہمیت وافادیت ہے، ارشاد نبوی ہے: اَفْشُوْ السَّلاَمَ بَیْنَکُمْ(۱) آپس میں سلام کو رواج دو۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: السلامُ قبلَ الکلام(۲)۔ گفتگو سے پہلے سلام ہے۔

لوگوں کے ساتھ رہنے سہنے اور ملنے جلنے کی وکالت کرتے ہوئے خلاصہٴ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اِنّ المسلمَ اذا کان یُخالِطُ الناسَ ویَصبِرُ علی أذاھُمْ خَیْرٌ مِنَ المسلم الّذِي لا یُخالِطُ الناسَ ولا یَصْبِرُ علی أذاھم(۳) جو مسلمان لوگوں سے میل جول رکھے اور ان کی طرف سے ہونے والی تکلیف دہ باتوں پر صبر اختیار کرے تو یہ ایسے مسلمان سے بہتر اور افضل ہے جو الگ تھلگ رہ کر زندگی بسر کرے اور لوگوں کی تکالیف پر صبر اختیار نہ کرے۔ پھر اسی معاشرتی اور تمدنی زندگی کے گذارنے کے سنہرے اصول کے طور پر ارشاد فرمایا: خَالِقِ الناسَ بخُلْقٍ حَسَنٍ(۴) لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔

دوسری جگہ ارشاد نبوی ہے: تَبَسُّمُکَ في وَجْہ أخیک لَکَ صَدَقَة(۵) اپنے مسلمان بھائی کے سامنے تمہارا خندہ روئی سے پیش آنا تمہارے لیے صدقہ ہے۔

معاشرت میں والدین کے ساتھ برتاؤ کی بڑی اہمیت ہے حتیٰ کہ باری تعالیٰ جو کائنات کا خالق و مالک ہے، اس کے حقوق کے بعد اگر کسی غیرخدا کا درجہ اور حق بنتا ہے تو والدین کا بنتا ہے اور کیوں نہ بنے جب کہ وہ اس کے دنیا میں آنے کے ظاہری اسباب ہیں؛ اسی لیے اسلامی تعلیمات اور قدیم تہذیب میں والدین کی اہمیت کو واشگاف کرنے کے لیے ایک طرف قرآن مقدس کہتا ہے: وَوَصَّیْنَا الانسانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسَانًا(۶) ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔ تو دوسری جانب شارح قرآن صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اَلْوَالدُ أوسطُ أبوابِ الْجَنَّةِ(۷) باپ جنت کے دروازوں میں سے درمیانی دروازہ ہے، اور ارشاد ہے: رِضَا الرَّبِ في رِضَا الْوَالِدِ وَسَخَطُ الرَّبِّ في سَخَطِ الْوَالِدِ(۸) باپ کی رضا میں خدا کی رضا ہے اور باپ کی ناراضگی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے۔

والدین کی نافرمانی سے متعلق ارشاد ہے: ألا أُنَبئکُمْ بأکْبَرِ الکَبَائِرِ؟ قُلنَا: بَلٰی یا رَسُوْلَ اللہِ! قال: الاشراکُ باللہِ وعُقُوْقُ الوَالِدَیْنِ(۹) کیا تم لوگوں کو سب سے بڑے گناہوں کی خبر دوں؟ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا؛ کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! یعنی ضرور بتائیے۔ حضرت نے فرمایا: اللہ رب العزت کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا ، بڑے بزرگوں کے ادب واحترام کا پاس ولحاظ رکھنا اسلامی تہذیب کا اہم جز ہے۔

ایک جگہ ارشاد ہے: مَا أَکْرَمَ شَابٌّ شَیْخًا مِنْ أجَلِ سِنِّہ الا قَیَّضَ اللہُ لَہ مَنْ یُکْرِمُہ عِنْدَ سِنِّہ (۱۰) جو نوجوان بھی کسی بوڑھے شخص کا اس کی عمر کی وجہ سے ادب واحترام کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑھاپے کے وقت ایسا شخص مقدر فرمائے گا جو اُس کا ادب واحترام کرے گا۔

دوسری جگہ ارشاد نبوی ہے لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَم یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَلَمْ یُوَقِّرْ کَبِیْرَنَا (۱۱) جو شخص ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پڑوسیوں اور محلہ داروں کا خیال رکھنا اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا بھی قدیم معاشرے اور اسلامی تہذیب کی دین ہے۔ ارشاد ہے: وہ موٴمن ہی نہیں ہے جو خود پیٹ بھرکر کھائے اوراس کے پہلو میں اس کا پڑوسی بھوکا ہو(۱۲)۔

ایک اور جگہ ارشاد ہے: خَیْرُ الْجِیْرَانِ عِنْدَ اللہِ خَیْرُھُمْ لِجَارِہ (۱۳) اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہتر اور اچھا پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے سب سے اچھا ہو۔ عزیز وقریب، احباب ورشتے داروں سے تعلق بناکے رکھنا معاشرت ہے اور تعلق ختم کرلینا معاشرت کے خلاف ہے، اسی لیے قطع تعلق کرنے والے کی حوصلہ شکنی کے لیے سخت وعید ہے۔ ارشاد نبوی ہے: لاَیَدْخُلُ الجَنَّةَ قَاطِعٌ(۱۴) رشتہ توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ معاشرت محبت سے قائم رہتی ہے اگرمحبت کا عنصر مفقود ہوجائے تو معاشرت میں سگاف پڑجاتا ہے اور محبت کے اسباب میں قوی سبب ایثار وقربانی ہے؛ اسی لیے قرآن مقدس میں ایثار کو قابلِ تعریف وصف قرار دیا گیا ہے ارشاد باری ہے: وَیُوٴْثِرُوْنَ عَلٰی أنْفُسھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَة(۱۵) وہ حضرات اپنے سے مقدم رکھتے ہیں گو ان کو فاقہ ہی کیوں نہ ہو۔ وغیرہ․․․․ یہ قدیم تہذیب اور اسلامی سماج ومعاشرے کی ان خوبیوں کی ادنیٰ سی جھلک تھی جو معاشرت سے تعلق رکھتی ہیں۔

فضول سمجھ کر بجھا دیا جن کو

وہی چراغ جلاؤ تو روشنی ہوگی

حاصل کلام

خلاصہ یہ ہے کہ تہذیبِ جدید اور مغربی معاشرہ جرائم کے روک تھام کے بجائے ان کو فروغ دینے میں موٴثر کردار ادا کرتا ہے؛ کیوں کہ یہ تہذیب وتمدن اگر شرم وحیا سے خالی ہے تو ساتھ ساتھ انسانوں میں مخالف جنس کے جسم کو نہ صرف یہ کہ دیکھنے کی اجازت دیتا ہے؛ بلکہ صنف مخالف کے لیے ہر صنف میں نوع بہ نوع کی جاذبیت پیدا کرکے دعوت نظارہ دیتا ہے، ایک طرف اگربلاروک، ٹوک ہر شخص کو جنسی تسکین کی اجازت دیتا ہے تو دوسری طرف ہم جنس پرستی کی وکالت کرتا ہے، اگر بے حیائی اور بے غیرتی کو رواج دینے اور عام کرنے کے لیے خواتین کو آزادیِ نسواں اور مساوات کا دل فریب نعرہ دے کر خوش گمانی میں مبتلا کرتا ہے اور ان کو بازاروں، نائٹ کلبوں، کالجوں، کھیل کے میدانوں، پارکوں اور ہوٹلوں وآفسوں کی زینت بناکر بے وقوف بناتا ہے، مرد وعورت کے نکاح اور شادی کے بندھن میں بندھنے کی تعریف وتوصیف کرنے کی بہ جائے ایسا کرنے والے حضرات وخواتین کو ابلہ اور بے وقوف خیال کیا جاتا ہے، اولاد کی تعلیم وتربیت کی وکالت کرنا تو دُور، ان کی تعلیم گاہوں میں ایسا ماحول پیدا کرتا ہے جہاں اچھی تربیت ناممکن ہے؛ جب کہ صالح معاشرہ اور اچھے سماج کا جوہراچھی تعلیم اور بھلی تربیت ہی ہے وغیرہ۔

اس کے بالمقابل قدیم تہذیب اور اسلامی معاشرہ گناہوں اور جرائم کے سدباب کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے، لہٰذا سلف صالحین سے ورثے میں ملنے والا معاشرہ اور قرآن وسنت سے ماخوذ تہذیب میں بڑی اصولی راہیں ملتی ہیں، مثلاً معاشرہ شرم وحیا سے آراستہ ہو، حدیث نبوی ہے: اَلْحَیَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْاِیْمَانِ(۱۶) حیا ایمان کا ایک اہم شعبہ ہے۔ دوسری جگہ ارشاد نبوی ہے: اَلْحَیَاءُ لَا یَأْتِي الَّا بِخَیْرٍ(۱۷) حیا سے خیر ہی وجود میں آتا ہے۔ نگاہوں اور شرم گاہوں کی حفاظت کے حوالے سے ارشاد ربانی ہے: قُلْ لِلْموٴمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ أبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُم(۱۸) ایمان والوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ زنا اور حرام کاری جیسے مکروہ اورقبیح عمل کی ممانعت کے لیے قرآن پاک کی تعلیم ہے: لاَ تَقْرَبُوْا الزّنَا انَّہٗ کَانَ فَاحِشَةً(۱۹) زناکاری کے قریب بھی نہ جاؤ وہ بڑی بے حیائی ہے۔ مردوزن کے اختلاط اور ان کے باہمی آزادانہ میل جول کے باب کو بند کرنے کے لیے خواتین کا دائرئہ کار گھر کی چہاردیواری تک محدود کرنے کے لیے قرآنی فرمان ہے: وَقَرْنَ فِي بُیُوْتِکُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْحَاھِلِیّةِ الْأُوْلیٰ(۲۰) اور اپنے گھروں میں قرار پکڑو اور زمانہٴ جاہلیت کے دکھلاوے کی طرح دکھلاتی نہ پھرو۔ پھر انسانی فطری ضرورت کی تکمیل کے لیے نکاح کی بابرکت سنت بڑی اہمیت رکھتی ہے پھر اس کو آسان سے آسان بنانے کی ترغیب پر توجہ دی گئی، ارشاد نبوی ہے: أَعْظَمُ النّکَاحِ بَرَکَةً أیْسَرُہٗ مَوٴُنَةً(۲۱) سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہے جس میں اخراجات سب سے کم ہوں۔ نیز صالح معاشرے اور مہذب سماج کی تشکیل میں کلیدی حیثیت اور نہایت اہم رول تربیتِ اولاد کا ہے، اسی پر توجہ دیتے ہوئے ہدایت دی گئی ہے: مَا نَخَلَ وَالِدٌ وَلَدًا أفْضَلَ مِنْ اَدَبٍ حَسَنٍ(۲۲) اچھے ادب (اچھی تربیت) سے بہتر عطیہ اور ہدیہ کسی باپ نے اپنی اولاد کو نہیں دیا۔ وغیرہ

افسوس صد افسوس ان روشن خیال اور تہذیب جدید کے متوالوں پر کہ وہ دونوں تہذیبوں میں جب تقابل کرتے ہیں تو جدید تہذیب اور ماڈرن معاشرے کی تباہ کاریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی نام نہاد خوبیوں کو اجاگر کرتے ہیں؛ جب کہ اسلامی معاشرے اور قدیم تہذیب کی بے شمار اچھائیوں اور خوبیوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے صرف اور صرف بہ زعم خود اس کی کمیاں اور کوتاہیاں ہی سامنے لاتے اور گناتے ہیں؛ حالاں کہ ہر بابصیرت اور انصاف کی نگاہ رکھنے والا انسان جب دونوں تہذیبوں کا غائرانہ مطالعہ کرے گا تو مجبور ہوگا کہ اسلامی معاشرے اور قدیم تہذیب کے مقابلے میں آنے والے سماج اور سوسائٹی کو نکاردے۔ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو اور بالخصوص مسلمانوں کو عقل وسمجھ عطا فرمائے اور مغربیت سے بچ کر اپنے پروردگار اور آقائے نامدار تاجدار مدینہ سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصول پر زندگی گذارنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین یا رب العالمین۔

$$$

حواشی

(۱) صحیح مسلم، رقم الحدیث۹۳ وسنن ترمذی رقم الحدیث ۲۴۸۵۔

(۲)            سنن ترمذی رقم الحدیث ۲۶۹۹۔

(۳)            سنن ترمذی رقم الحدیث ۲۵۰۷۔

(۴)            المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث ۲۹۸۔

(۵)            سنن ترمذی، رقم الحدیث ۱۹۵۶۔

(۷)            المستدرک علی الصحیحین، رقم الحدیث ۲۷۹۹، وسنن ترمذی، رقم الحدیث ۱۹۰۰۔

(۸)            سنن ترمذی، رقم الحدیث ۱۸۹۹۔

(۹)            صحیح البخاری، رقم الحدیث ۵۹۷۶، وسنن ترمذی، رقم الحدیث ۱۹۰۱۔

(۱۰)           سنن ترمذی، رقم الحدیث ۲۰۲۲۔

(۱۱)            سنن ترمذی، رقم الحدیث ۱۹۱۹۔

(۱۲)           المستدرک علی الصحیحین، رقم الحدیث ۷۳۰۷۔

(۱۳)           صحیح ابن حبان، رقم الحدیث ۵۱۸۔

(۱۴)           صحیح البخاری، رقم الحدیث ۵۹۸۴۔

(۱۵)           سورة حشر:۹۔

(۱۶)           سنن نسائی، رقم الحدیث ۵۰۰۶۔

(۱۷)           صحیح البخاری، رقم الحدیث ۶۱۱۷۔

(۱۸)           سورة النور:۳۰۔

(۱۹)           سورة بنی اسرائیل:۳۲۔

(۲۰)          سورة الاحزاب:۳۳۔

(۲۱)           شعب الایمان للبیہقی، رقم الحدیث ۶۱۴۶۔

(۲۲)          سنن ترمذی، رقم الحدیث ۱۹۵۲۔

$$$

 

--------------------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5-6، جلد:101 ‏،شعبان۔رمضان 1438 ہجری مطابق مئی۔جون 2017ء