تعلیمی معیار کے لیے عملی اقدام کی ضرورت

 

از: مولانامیرزاہد قاسمی مکھیالوی

جامعہ فلاح دارین الاسلامیہ بلاس پور

 

نظام تعلیم اور نظام تربیت دینی مدرسوں کے دو ایسے بنیادی عنصر ہیں جن کو معیاری اورمستحکم بنانے کے لیے جلسوں، میٹنگوں اور منصوبوں سے زیادہ ضروری عملی اقدامات ہیں، مدارس عربیہ کے مہتمم وذمہ دار حضرات کا مزاج عموماً یہ بن چکا ہے کہ مدرسہ کے ظاہری وجود (تعمیرات) بڑھانے اور حصولِ مالیات پر ان کی توجہ زیادہ رہتی ہے، مدرسہ کے تعلیمی نظام ومعیار پر توجہ برائے نام اور دوسرے نمبر پر ہوتی ہے اور تربیتی ماحول سازی اور اس کے لیے عملی کوششوں یا اساتذہٴ کرام سے طلبہ کی تربیت کے موضوع پر گفتگو یا مشاورت کا کبھی نمبر نہیں آتا اور یہ شعبہ ہمیشہ بے توجہی کا شکار رہتے ہوئے تعلیمی سال پورا ہوجاتاہے، اس کا منفی اثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ طلبہ کا نہ تو نمازوں کا مزاج بنتا، نہ اخلاق وکردار قابل اطمینان ہوتے ہیں اور نہ وضع قطع پورے طور پر شریعت وسنت کے مطابق ہوپاتی۔ تربیت سے کورے ایسے طلبہ معاشرہ میں کیا اثرات چھوڑتے ہیں، ہر ذی شعور آدمی اس کا نہ صرف اندازہ لگاسکتا ہے؛ بلکہ تربیتی ماحول سے عاری مدرسوں کے ایسے غیرتربیت یافتہ طلبہ کا بخوبی مشاہدہ کرسکتا ہے۔

اس وقت ہماری ان معروضات کا اصل مقصد اپنے ہم مشرب اہل مدارس کو تعلیم وتربیت کے معیار اور استحکام کے لیے عملی اقدامات کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ اگر واقعی ہم مخلصانہ طور پر ادارہ چلانا چاہتے ہیں تو ہمیں درجِ ذیل اُمور کو سنجیدگی سے اپنانا ہوگا۔

(۱)        لائق اور باصلاحیت مدرسین کا انتخاب کریں، گرانی کے مدنظر اور یہ سوچتے ہوئے کہ مدرس بھی ہماری طرح ایک انسان ہے، اس کے بھی بشری تقاضے ہیں، بہت زیادہ نہیں تو اچھی مناسب تنخواہ اس کے لیے تجویز کریں۔ نیز کوشش کریں کہ اس کے لیے فیملی کواٹر (رہائشی مکانات) کا نظم بھی مدرسہ کی جانب سے ہوجائے، یقینا اس کا فائدہ ادارہ کی طرف لوٹے گا۔

(۲)       ہفتہ میں نہیں تو پندرہ روز میں ضرور اپنے مدرسین کو بیٹھا کر کتاب ”مثالی استاذ“ میں سے کچھ مضمون سنائیں اور بچوں کی تعلیم وتربیت کے متعلق مذاکرہ کریں۔

(۳)       ہرماہ تعلیمی جائزہ کا نظام بنائیں، عربی درجات نہ ہوں تو حفظ وناظرہ اور تجوید وغیرہ کے درجات میں آپ خود یا اپنے معتمد سے تعلیمی تحریری جانچ کرائیں جانچ کا پرچہ اس طرح مرتب ہو کہ ہر بچہ کی ہر ماہ کی تعلیمی کیفیت اورایام حاضری محفوظ ہوجائیں؛ تاکہ اگلے ماہ جائزہ میں فرق سامنے آجائے، کمزوری بدستور رہنے کی صورت میں استاذ سے بازپرس ہو۔

(۴)       عربی درجات اگر قائم ہیں تو ماہانہ اور سالانہ نصاب تعلیم کی مقدار ضرور متعین فرمائیں، نیز ہر ماہ مدرسین سے ہر کتاب کی مقدار خواندگی لکھ کر اپنے پاس جمع کریں؛ تاکہ ہر مہینہ کی تدریسی مقدار سامنے رہے۔

(۵)       ایک ادارہ کے ذمہ دارو مہتمم کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنا ایک گھنٹہ تدریس کے لیے ضرور رکھیں؛ تاکہ اپنے اسلاف واکابر کی پاکیزہ روایت کی اتباع کے ساتھ اپنا ذاتی نفع بھی ہو، اگر فارسی وعربی کی جماعتیں نہ ہوں تو شعبہٴ تحفیظ القرآن کے بچوں کا اُردو نصاب وغیرہ کا ہی گھنٹہ اپنے لیے لازم کرلیں۔

(۶)       تعلیمی اُمور سے متعلق اگر کوئی مدرس مشورہ پیش کرے تو اس کو یکسر نظر انداز نہ کریں؛ بلکہ اس کو سنجیدگی سے سن کر ادارہ کے مفاد میں مناسب اقدام کریں اور مدرسین سے چندہ ہرگز نہ کرائیں۔

(۷)       ششماہی وسالانہ امتحان کا انعقاد باقاعدگی کے ساتھ ہو عجلت اور خانہ پُری کے پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے فراغت واطمینان کے ساتھ تقریری وتحریری امتحان کا نظم کیا جائے۔ اچھے باذوق مدرسین کو مدعوکریں اور بہ وقت امتحان ان سے واضح طور پر بتادیں کہ امتحان کا رسمی تاثر نہ لکھ کر طلبہ کی انفرادی یا اجتماعی خامی، کمزوری کی نشاندہی کریں؛ تاکہ اس کے ازالہ کی مثبت کوشش بآسانی اساتذہٴ کرام انجام دے سکیں۔ نیز ممتحن حضرات کی نشان زدہ خامیوں اور غلطیوں پر کبیدہ خاطر نہ ہوں؛ بلکہ خوش دلی کے ساتھ ان کو قبول کریں اور مہمان ممتحن حضرات کو اپنا خیرخواہ ومحسن تصور کرتے ہوئے اپنے ادارہ میں انھیں بلانے کا سلسلہ متواتر جاری رکھیں۔ خامیاں سامنے آنے پر مدرسین کو اصلاح کا موقع دیں، ان سے بدظن نہ ہوں اور نہ ان کو معزول کرنے کا خیال کریں۔

(۸)       طلبہ کی تعطیل پر قابوپانے کے لیے مناسب ضابطہ تجویز کرنا ضروری خیال کریں، علاقائی طلبہ کے لیے بھی اور دوسرے صوبوں و اضلاع کے طلبہ کے لیے بھی ان کے حسب حال غور وفکر کے بعد ایسا اُصول بن جائے کہ طلبہ چھٹیاں کم لیں اور اپنے اوقات کی پابندی کریں۔

(۹)       موبائل کے تعلق سے چشم پوشی قطعاً نہ کی جائے، خاص طور پر چپ والا موبائل اگر کسی طالب علم کے پاس سے برآمد ہو، اس کو منع کریں اور نہ ماننے کی صورت میں اس کو ادارہ میں ہرگز نہ رکھیں۔ گاہ بگاہ طلبہ کی نگرانی کے لیے چند اساتذہ کو مقرر کردیں؛ تاکہ چند فاسد مزاج طلبہ کی وجہ سے پورے مدرسہ کا تعلیمی ماحول متاثر نہ ہو۔

(۱۰)      مدرسہ کے منتظم ومہتمم کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا زیادہ وقت مدرسہ میں گذرے شدید تقاضے ہی میں سفر ہو، بعض مدرسوں کے ذمہ دار حضرات کئی کئی ماہ چندہ کے لیے سفر میں رہتے ہیں، حتیٰ کہ بعض حضرات تو ششماہی یا سالانہ امتحان میں بھی موجود نہیں رہ پاتے، اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ تعلیم چوپٹ ہوجاتی ہے۔

(۱۱)       ایک ادارہ کے سربراہ و ذمہ دار کے لیے جس طرح ادارہ کے تعلیمی وانتظامی اُمور میں سرپرست حضرات سے مشاورت لازم ہے، اسی طرح اپنی نگرانی واصلاحِ نفس کے لیے بھی اپنا بڑا کسی کو مقرر کرنا ضروری ہے۔ صلحاء ومشائخ، مرشدین کاملین ہر زمانہ میں موجود رہتے ہیں، مہتمم صاحب جب اپنی اصلاحی وابستگی کسی بزرگ سے رکھیں گے تو عملہ کے افراد پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

(۱۲)      تعلیمی سال کے آغاز میں اگر ہوسکے تو اپنے ادارہ میں زیرتعلیم بچوں کے سرپرست حضرات کی ایک میٹنگ ضرور منعقد ہوجائے۔ اس میں تعلیمی امور سے متعلق چند ضروری باتیں سرپرستوں سے زبانی ہو کہ بچہ کی تعلیم میں اہل خانہ مزید اعانت کس طرح کریں، گھر جانے پر بچہ کی نگرانی، خرچ کے لیے زیادہ رقم اس کے ہاتھ میں نہ دینا، غلط مصاحبت سے بچہ کو کیسے بچایا جائے وغیرہ ان باتوں کو تحریری طور پر مرتب کرکے سرپرستوں کے حوالہ بھی کردیں؛ تاکہ وہ ان کو سامنے رکھیں اور مدرسین کی کوششوں کے ساتھ اہل خانہ بھی بچہ کی اخلاقیات سنوارنے میں معاون ثابت ہوسکیں۔

(۱۳)      مہتمم و ذمہ دار حضرات اکثر نمازیں اپنے ادارہ کی مسجد میں ادا کرنے کا التزام کریں؛ تاکہ طلبہ کی نمازوں کے تعلق سے صحیح صورت حال سامنے آتی رہے۔ ذمہ دار کی موجودگی یقینا مدرسین وملازمین کو فکرمند رکھتی ہے اور کام صحیح ہوتا رہتا ہے۔

اس تفصیل کے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مہتمم وناظم بحیثیت اہتمام وانتظام اپنی توجہ مدرسہ کے تعلیمی وداخلی اُمور پر متواتر رکھیں، طلبہ ومدرسین کے متعلق جو معروضات پیش کی گئیں ان کو عمل میں لائیں۔ تو ان شاء اللہ تعلیم و تربیت میں بہتری آئے گی اور رفتہ رفتہ تعلیمی معیار میں ترقی کے آثار شروع ہوں گے۔ تعطیل اور موبائل فون کے تعلق سے یا ہر ماہ تعلیمی جانچ کی وجہ سے ہوسکتا ہے کچھ طلبہ مدرسہ سے چلے جائیں اس سے پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں، ہماری نظر کمیّت کے بجائے کیفیت پر رہے، طلبہ سو کی بجائے پچاس رہ جائیں؛ لیکن مال فریش اور صاف ستھرا تیار ہو، اس سے مدرسہ کا معیار بنے گا۔ رہا مسئلہ چندہ کا کہ طلبہ کی تعداد کم ہونے سے چندہ کم ہوگا، ایسا بھی نہیں؛ بلکہ کام کی قدر کرنے والے اللہ کے نیک بندے ضرور متوجہ ہوں گے۔ مدرسہ چلانے اور اس کے معیارِ تعلیم وتربیت کو اچھا بنانے کے لیے ہم اپنے اسلاف کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے کا سلسلہ شروع کریں، متقدمین حضرات تابعین وصحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور پیارے معلم ومربی محسن انسانیت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی معلمی کے پاکیزہ دور کو اسوہ بنانے کی فکرکریں اور ہمارے مدارس کی جڑیں ہمیشہ صفہٴ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مربوط ومستحکم رہیں دراصل یہی ہمارا اوّلین مقصد ہے اور اسی میں فلاحِ دارین مضمر ہے۔ اللّٰہم وفقنا لما تحب وترضٰی․

$$$

 

----------------------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5-6، جلد:101 ‏،شعبان۔رمضان 1438 ہجری مطابق مئی۔جون 2017ء