اے تو مجموعہٴ خوبی ․․․․․

 

از: مولانا مفتی محمد راشد صاحب اعظمی

استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند

 

وہ نابغہٴ روزگار ہستیاں جن کی حسین یادیں صدیاں گذرجانے کے بعد بھی دلوں سے محو نہیں ہوتیں؛ بلکہ وہ دلوں میں زندہ جاوید رہتی ہیں اور یہ عالم رہتا ہے۔    ع

”رفتید  و لے  نہ  ا ز  د لِ  ما“

بلکہ ان کے ظاہری حجابِ ہستی کے ہٹ جانے کے بعد ان کے باطنی کمالات، خصوصیات اور امتیازات اور نکھر کر سامنے آتے ہیں۔

وہ اپنی زندگی میں حتی الوسع بے نام ونشان رہنا پسند کرتے ہیں، اپنے کو چھپائے اور مٹائے رہتے ہیں؛ لیکن ان کے کمالات کا خالق ان کے کمالات کو ظاہر کردیتا ہے ”مَنْ تَوَاضَعَ لِلہِ رَفَعَہٗ اللہُ“

لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان ظاہروباہر کمالات کا احاطہ ہر کس وناکس کے بس کا بھی نہیں ہے۔

دامانِ نگہ تنگ و گلِ حسن تو بسیار

گلچینِ  بہا ر  تو  ز دا ما ں گلہ دارد

ہمارے محبوب ومحترم استاذ حضرت مولانا ریاست علی صاحب نوراللہ مرقدہ کی ذاتِ گرامی کی بالکل یہی شان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو گوناگوں خصوصیات وکمالات کاایسا جامع بنایا تھا کہ ان بہاروں کا گل چیں اپنی تنگیِ دامن پر نادم ہوتا ہے۔

جس طرح قطرئہ نیساں آغوشِ صدف میں پرورش پاکر گوہرِ آب دار بن جاتا ہے۔ اسی طرح ممتاز اور صالح فطرت افرادجب کیمیا اثر نگاہوں کافیض پاتے ہیں تو آفتاب وماہتاب کی طرح چمک اٹھتے ہیں۔

حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری رحمة اللہ علیہ انتہائی خُرد سالی میں یتیم ہوگئے۔ علی گڈھ میں والد مرحوم اللہ کو پیارے ہوگئے وہ اسی کم سنی میں اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ اپنے بہت ہی شفیق پھوپھا حضرت مولانا سلطان الحق صاحب رحمة اللہ علیہ ناظم کتب خانہ دارالعلوم دیوبند کے یہاں منتقل ہوگئے۔

دیوبند کی روح پرورفضا ان کے لیے آغوشِ صدف ثابت ہوئی، کم سنی ہی سے علما ئے دیوبند کی فیض آگیں صحبتوں کا اثر ان پر نمایاں ہوتا گیا۔ آگے چل کر فخرالمحدثین حضرت مولانا فخرالدین احمد صاحب رحمة اللہ علیہ کی صحبت میں مسلسل حاضری، خدمت اور ان کے علوم ومعارف کے بحرِبیکراں سے بھرپور استفادہ نے مولانا کی شخصیت میں نمایاں شان پیدا کردی۔ استاذ کی فیض گستری اور شاگرد کی طلبِ صادق نے دونوں کو ایک دوسرے پر فداکردیا۔ا ستاذ کا گھر ہی ان کی ساری تگ ودو کا مرکزبن گیا۔

نَسِیْتُ کُلَّ طَرِیْقٍ کُنتُ أعْرِفُہٗ

ا لّا  طَرِ یقاً  یُوٴَدِّیْنِیْ  ا لی  ر بعکم

شاگرد کی فداکاری کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ مولانا حضرت الاستاذ کی خدمت میں تھے ۔ اسی دوران زلزلہ کے جھٹکے محسوس ہوئے۔ دیگر حاضرین اپنے بچاؤ کے لیے محفوظ جگہوں کی طرف دوڑ پڑے۔ مولانا نے فی الفور استاذ محترم کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ اپنی حفاظت کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ انھیں فداکاریوں کا صلہ تھا کہ وہ اپنے استاذ کے علوم ومعارف کے سب سے بڑے امین اور شارح بنے۔ ایضاح البخاری کے صفحات اس کے شاہد عدل ہیں۔ استاذ محترم کے درس بخاری کو اس جامعیت اور حسن وخوبی کے ساتھ مرتب کیا کہ وہ مولانا کا بھی بہت بڑا علمی کارنامہ ثابت ہوا۔ حضرت مولانا کے بے نظیر درس کی محدثانہ شان اور فقہی نکتہ سنجیوں، علوم واسرار شریعت کے بحربیکراں کو اس شان کے ساتھ سمیٹا ہے کہ خود مولانا ہی کایہ شعر سامنے آجاتا ہے۔#

روشن ہے جمالِ انور سے پیمانہٴ فخرالدین یہاں

مولانا نے ابتداء ہی سے دیوبند اور علمائے دیوبند کو بہت قریب سے اور بڑی عقیدت سے دیکھاتھا؛ اس لیے دارالعلوم کی نسیمِ جانفزا ان کی رگ رگ میں سما گئی تھی۔ وہ علمائے دیوبند کے مسلک ومزاج اوران کی روایات کے حامل اور قدر آشنا تھے اور یہی مسلک ومزاج ان کی متاعِ گرانمایہ تھا اوراس سے ذرا سا بھی انحراف انھیں گوارہ نہ تھا، وہ اپنے شاگردوں اور طلبائے دارالعلوم کو بھی انھیں راہوں پر گامزن دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ طلبائے مدارسِ عربیہ جو دورانِ تعلیم یونیورسٹیوں اور کالجوں کے امتحانات دیتے تھے یا انگریزی اور کمپیوٹر وغیرہ سیکھتے تھے مولاناکو ان کا یہ عمل بالکل پسند نہیں تھا۔ وہ اس کو طالبانِ علوم نبوت کی شانِ بلند سے فروتر سمجھنے کے ساتھ حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کے اس اصول کے بھی خلاف سمجھتے کہ علومِ عربیہ کی تحصیل کے زمانے میں ان چیزوں میں انہماک علوم میں گہرائی وگیرائی پیدا ہونے سے مانع بن جاتی ہے۔ ہاں ان علوم سے پہلے یا بعد میں سیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔  ع

شرکتِ غیر نہیں چاہتی غیرت میری

دارالعلوم دیوبند کا ترانہ جس وارفتگی اور کیف و شوق کے عالم میں لکھا، ترانوں کی دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے، وہ ایک ادبی شہ پارہ بھی ہے۔ دارالعلوم کا حسین تعارف بھی اوراس کی ڈیڑھ سو سالہ خدمات کا بہترین اورجامع مرقع بھی ہے۔ اس ترانے کے سامنے کسی ترانے کا رنگ جما ہی نہیں۔

نہ  ہوا  پر نہ ہوا میر  کا  ا ند ا ز  نصیب

ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

مولانا کی عظمتِ کردار کے مختلف جلوؤں پر نظر ڈالیں تو جلوؤں کی کشش سے حیرت ہوتی ہے کہ بات کہاں سے شروع کی جائے۔

کائنات کی سب سے عظیم ہستی جناب سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وشمائل کے سلسلہ میں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے خادمِ خاص حضرت انس فرماتے ہیں: انَّ رَسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ اذَا صَافَحَ الرَّجُلَ لَمْ یَنْزَعْ یَدَہ مِنْ یَدِہ حَتّٰی یَکُوْنَ ھُوْ الَّذِيْ یَنْزَعُ یَدَہ وَلَا یُصْرِفُ وَجْھَہ عَنْ وَجْھِہ حَتّٰی یَکُونَ ھُوَ الَّذِيْ یُصْرِفُ وَجْھَہ عَنْ وَجْھِہ وَلَمْ یُرَ مُقَدِّمًا رُکْبَتَیْہِ بَیْنَ یَدَیْ جَلِیْسٍ لہ(رواہ الترمذی بحوالہ مشکوٰة شریف ج۲، ص۵۲۰)

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سے مصافحہ فرماتے تو آپ اپنا ہاتھ نہیں کھینچتے تھے؛ جب تک کہ وہی آدمی اپنا ہاتھ نہ کھینچے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا چہرہ نہیں پھیرتے تھے؛ جب تک کہ وہی آدمی اپنا چہرہ نہ پھیرے۔ اپنے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کے سامنے اپنے گھٹنے نہیں پھیلاتے تھے۔ حضرت انس نے ان چند جملوں میں دوسرے انسانوں کے ساتھ معاملہ کے سلسلہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاجِ مبارک کی پوری کیفیت بیان کردی ہے۔

کسی عظیم ترین ہستی کی طرف سے ہرطرح کے انسانوں کی عظمتِ نفس کی رعایت ان کی دل داری اور قدر افزائی کی اس سے بہتر کوئی مثال نہیں پیش کی جاسکتی۔

حضرت مولانا ریاست علی رحمة اللہ علیہ کے مزاج وطبیعت کو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ادائے مبارک سے ہم بہت قریب پاتے ہیں۔

وہ آنے جانے والوں کی کثرت، حاجت مندوں کی بار بار اور وقت بے وقت آمد سے کبھی چیں بہ چیں نہیں ہوتے تھے؛ ہر ایک ساتھ شفقت وعنایت، غایت اپنائیت کامعاملہ ، پرسشِ احوال اور حاجت مندوں کی خندہ پیشانی کے ساتھ حاجت برآری ان کا مزاج تھا۔ ان کی مجلس میں ہرفرد برابر کا شریک تھا، کہہ و مہ کا کوئی امتیاز نہیں تھا۔ ہر شریکِ بزم اپنی بات کہنے کا پورا حق رکھتا تھا اور حضرت کی توجہات وعنایات کا مکمل حق دار ہوتا تھا۔ درمیان درمیان میں حضرت کی نکتہ سنجیاں مجلس کو زعفران زار بناتی رہتی تھیں۔

بہت سے وہ حضرات جن کا مولانا سے تعلق دارالعلوم دیوبند کی تدریس اور مختلف اہم ذمہ داریوں سے وابستگی سے پہلے تھا، مولانا نے آخر تک اپنے ان احباب سے تعلق اور ان سے بے تکلفی میں کوئی فرق واقع نہیں ہونے دیا، ان سے پہلے ہی جیسا اعزاز واکرام اور برتاؤ کا معاملہ رہا۔

دوپہر کا قیلولہ سنت ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھنے پڑھانے والوں کی ایک ضرورت بھی ہے، اس کی وجہ سے دوسرے وقت میں کام کرنے کی ہمت اور بشاشت پیدا ہوتی ہے۔ عام زندگی گذارنے والوں کے نزدیک قیلولہ کی چنداں اہمیت نہیں ہے۔ بہت سے لوگ عین اس وقت حضرت مولانا کی خدمت میں آجاتے، جب مولانا صبح کے گھنٹوں کی سرگرم محنت کے بعد دوپہر میں تھوڑی دیر کے لیے لیٹ جاتے تھے۔ وہ دروازہ کھٹکھٹاتے مولانافوراً بیدار ہوکر ان کو اندر بلالیتے۔ ان سے بات کرتے، کسی طرح کی کبیدگی اور بے کیفی کا قطعاً کوئی اظہار نہ فرماتے ، گھر کے لوگ کہتے آپ اندر مکان میں آرام فرمالیا کریں؛ تاکہ کچھ سکون حاصل ہوجائے۔ حضرت منع فرماتے اور باہری کمرے میں رہنا پسند فرماتے۔ مقصد یہی تھا کہ آنے جانے والے یا اپنی حاجتیں لانے والے پریشان نہ ہوں، اپنی راحت کو دوسروں کی راحت پر قربان کردینا انھیں بزرگوں کا حصہ تھا۔

یہ بھی درخواست کی گئی کہ ملاقات کے لیے کوئی وقت متعین فرمادیں۔ برجستہ فرمایا: کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ملنے کا کوئی وقت متعین فرمایا تھا؟

حضرت کی ذہانت ، فطانت، نکتہ رسی، حاضرجوابی نوادرِ روزگار میں سے تھی، بذلہ سنجی اور مزاح لطیف سے بھی اللہ نے انھیں خوب نوازا تھا، اگر ان کو جمع کیاجائے تو ”کتاب الاذکیاء“ جیسا بہترین مجموعہ مرتب ہوجائے۔

وہ لوگوں کے بہت ہمدرد، بے حد خیرخواہ تھے۔ ان کی زندگی دوسروں کی بھلائی کے لیے وقف تھی؛ مگر دوسروں کا احسان مند ہونا انھیں پسند نہیں تھا۔

تمام عمر  ا سی  احتیا ط  میں گذ ری

کہ آشیاں کسی شاخِ چمن پہ بار  نہ ہو

وہ امتِ مسلمہ اور عالمِ اسلام کے سلسلہ میں دلِ درمند رکھتے تھے، قومی اور ملی مسائل کی انھیں بہت فکر رہتی تھی۔ اس سلسلہ میں جمعیة علمائے ہند اوراس کے اکابر سے وہ ہمیشہ وابستہ رہے اور اس وابستگی پر انھیں فخر تھا۔ وہ طویل عرصہ تک جمعیة علمائے ہند کی مجلسِ عاملہ کے اہم رکن اور نائب صدر رہے؛ جب تک ہمت وتوانائی رہی اس کے اجلاس اور میٹنگوں میں اہمیت کے ساتھ شرکت فرماتے۔ اپنے اعذار کی وجہ سے اگر کسی اجلاس میں نہ شریک ہوتے تواس اجلاس کی تمام تفصیلات جاننے کااہتمام فرماتے، جمعیة کے عاملہ کے اجلاسوں میں ان کی رائے اور مشوروں کی بڑی اہمیت تھی۔ ان کی رائے ہرایک کے لیے قابل لحاظ تھی۔ جمعیة کے بڑے بڑے اجلاس میں ان کی تقاریر بڑی پُرمغز اوراکابر کی روایات اور روح کے مطابق اور ہم جیسے نوواردوں کے لیے گرہ کشا ہوتی تھیں۔

تواضع اور فروتنی ان کی خاصہٴ طبیعت تھی؛ لیکن سرگرانوں کے سامنے وہ سبک سر بھی نہیں تھے۔ کلمہٴ حق کے اظہار میں وہ بہت جری تھے، اس سلسلہ میں کسی بڑے سے بڑے کا رُعب وجلال انھیں مرعوب نہیں کرسکتا تھا۔

زہد واستغناء میں بھی وہ اپنے اکابر واسلاف کے ہم رنگ تھے، وہ بعض دفعہ مقروض بھی رہے؛ لیکن اہلِ ثروت ودولت کی طرف نگاہ اٹھاکر بھی نہیں دیکھا۔ وہ دینی غیرت وحمیت میں بھی بے نظیر تھے۔آخر میں اس مصرع پر اپنی بات ختم کرتاہوں۔  ع

اے تو مجموعہ خوبی بچہ نامت خوانم

 

$$$

 

-----------------------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ8-9، جلد:101 ‏،ذی قعدہ-محرم 1438 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2017ء