حضرت الاستاذ

مولانا ریاست علی ظفربجنوری نوراللہ مرقدہ کی یاد

 

تحریر: مولانا مفتی محمدسلمان صاحب منصورپوری

مفتی واُستاذِ حدیث جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد

 

جس وقت دارالعلوم میں صدسالہ عالمی اِجلاس ہوا اور اُس کی افتتاحی نشست میں پوری شان وشوکت کے ساتھ دارالعلوم کا ترانہ:

”یہ  علم  و ہنر  کا  گہو ا رہ ،  تاریخ  کا وہ شہ پارہ ہے

ہر پھول یہاں ایک شعلہ ہے، ہر سرویہاں مینارہ ہے“

پڑھا گیا، تو سننے والا ہر شخص جھوم اُٹھا اور ہر طرف اِس ترانہ کی دھوم مچ گئی، الفاظ کی چست بندش، تاریخ کے تناظر میں معانی کی جامعیت، اَشعار کی صورت میں فکرِ دیوبند کی بھرپورترجمانی اور دارالعلوم سے وابستہ بلند مرتبہ شخصیات کے پاکیزہ اور برمحل تذکرے نے اِس ترانہ کو جو قبولیتِ عامہ عطا کی، اس کی نظیرنہیں ملتی، ہم جیسے کتنے ہی لوگوں کے حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب سے تعارف کا ذریعہ یہی ترانہ بنا۔ وہ ہمارا بے شعوری کا زمانہ تھا اور ہم مدرسہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں زیرتعلیم تھے؛ مگر اسی وقت سے اس ترانہ کے ذریعہ صاحبِ ترانہ سے اُنسیت دل میں پیداہوچکی تھی۔ پھر ۱۴۰۲ھ میں جب دارالعلوم دیوبند کی چہار دیواری میں قدم رکھا تو صدسالہ کے بعد بلاخیز طوفان کے بعد دارالعلوم ترقی کی نئی منزلوں کی طرف گامزن تھا، تعلیم سمیت تمام شعبوں میں اصلاحات کا عمل تیزی سے جاری تھا، گویا اِس تاریخی ورثہ کی تزئین وتحسین کا مشن چل رہا تھا، اندازہ ہوا کہ اس مشن میں جن حضرات کو فعالیت کا درجہ حاصل ہے، اُن میں اور حضرات کے ساتھ حضرت مولانا کا کردار بھی خاصا نمایاں تھا۔

دارالعلوم میں طلبہ کی انجمنیں اُن کی صلاحیتیں نکھارنے میں اہم کردار اَداکرتی ہیں، اُن میں ”مدنی دارالمطالعہ“ اپنی الگ شان رکھتا ہے، دارالعلوم میں اس کی ذمہ داری جب رفیق محترم مولانا معزالدین احمد (حال ناظم امارتِ شرعیہ ہند) اور اِس ناکارہ کے سرآئی، تو اُس کے سرپرستوں میں حضرت الاستاذ بھی شامل تھے، اِس بہانے حضرت کی خدمت میں وقتاً فوقتاً حاضری ہونے لگی، حضرت والا مدنی دارالمطالعہ کی سرگرمیوں میں خوب دلچسپی لیتے اور اُس کے پروگراموں پر دل کھول کر حوصلہ افزائی فرماتے۔

ایک مرتبہ ہم لوگوں نے حضرت کی صدارت میں ”ردِمودودیت“ پر دارالحدیث تحتانی میں ایک خصوصی پروگرام منعقد کیا، حضرت ازاوّل تا آخر شریک رہے اور بہت زیادہ پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ اِس ضمن میں ایک واقعہ ہم لوگ کبھی بھول نہیں سکتے؛ ہوا یہ کہ ”مدنی دارالمطالعہ“ کے سالانہ اختتامی اجلاس میں ایک سال کافی تاخیرہوگئی، رجب کا مہینہ شروع ہوچکاتھا اور طلبہ کی توجہ امتحان کی تیاریوں کی طرف ہوگئی تھی، ایسے میں اجلاس کو کامیاب بنانا اور طلبہ کی شرکت کو یقینی بنانا بڑا دشوار تھا، اِس لیے ذہن میں یہ بات آئی کہ مکالمہ کا کوئی ایسا دلچسپ پروگرام رکھا جائے جو طلبہ کی رغبت کا سبب بن سکے؛ چناں چہ ایسے ہی ایک مکالمہ کی تاری کرلی گئی اور اعلان کردیاگیا، مخدوم محترم حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب مہمانِ خصوصی تھے، اجلاس میں دیگر پروگراموں کے ساتھ بڑا دلچسپ مقالمہ بھی پیش ہوا، جو ”مفتی اور مستفتی“ پر مشتمل تھا؛ مگر مکالمہ ختم ہوتے ہی شریک طلبہ جلسہ سے اُٹھ کر چل دیے اور دارالحدیث فوقانی آدھے سے زیادہ خالی ہوگئی اور ایک عجیب وغریب صورتِ حال پیدا ہوگئی۔ اَناؤنسر نے اِسی دوران حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب کے نام کا اعلان کیا، حضرت مائک پر تشریف لائے اور مختصرخطبہ کے بعد بھرپور خطابی اُسلوب میں یہ جملہ فرمایا: ”میں کیا کہوں، جن سے کہنا تھا وہ تو جاچکے“ یہ جملہ کچھ ایسے پراثر انداز میں آپ نے فرمایا کہ باہر نکلنے والے جس طالب علم کے کان میں پڑا وہ فوراً واپس لوٹ آیا اور پھر دارالحدیث بھرگئی، اس کے بعد آپ نے اور آپ کے بعد صدراجلاس حضرت الاستاذ مولانا سیّدارشد مدنی صاحب مدظلہ نے ڈرامائی مکالموں پر سخت تنبیہ فرمائی اور اس طرز کے مفاسد بیان فرمائے۔ اس کے بعد سے مدنی دارالمطالعہ کے پروگراموں میں اس بات کا خاص خیال رکھاگیا کہ کوئی بات اکابر کے طریقہ کے خلاف نہ ہو۔

۱۴۰۹ھ سے ہمیں جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی میں خدمت کا موقع ملا؛ تاہم دیوبند آتے جاتے وقت حضرت الاستاذ سے راہ ورسم برقرار رہی، جب بھی ملاقات ہوتی نہایت مسرت کااظہار فرماتے اور فرماتے کہ: ”تمھیں دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے“۔ ایک مرتبہ مدرسہ شاہی کے آٹھ سالہ اجلاس دستاربندی میں آپ کو دعوت دی گئی، شاہی مسجد میں اجلاس جاری تھا، نظامت احقر کے سپرد تھی، ایک واعظ صاحب نے دورانِ بیان سیرت کا ایک واقعہ بیان کیا، جو بظاہر غیرمستند تھا۔ ایک ساتھی کے توجہ دلانے پر احقر نے اپنی حماقت میں اُن کے بیان کے بعد اس واقعہ کی برملا تردید کردی، جو بہرحال اس انداز میں مناسب نہ تھی۔ (اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں) حضرت والا مجلس میں موجود تھے اور اگلا بیان آپ ہی کا تھا، آپ نے بیان کا آغاز کچھ اس طرح فرمایا کہ: ”میرے لیے اِس ماحول میں تقریر کرنا مستقل امتحان ہے، جہاں تقریر کے ساتھ لگے ہاتھوں تصحیح بھی ہورہی ہو“ پھر آپ نے مشفقانہ انداز میں نصیحت کی کہ کسی بات کی تردید اور تصحیح میں بھی نرم پہلو پیش نظر رہنا چاہیے کہ دوسرے کو ناگوار نہ گذرے۔ حضرت کی اس نصیحت سے احقر مارے شرم کے پانی پانی ہوگیا اور بعد میں مذکورہ واعظ صاحب سے ندامت کے ساتھ بہت معذرت کی اور موصوف نے بھی بڑائی کا ثبوت دیتے ہوئے دل سے معاف کردیا، اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر سے نوازیں!

آپ ”ندائے شاہی“ کے مستقل قارئین میں شامل تھے؛ بلکہ پابندی سے اس کا زرِسالانہ بھی باصرار ادا فرماتے تھے۔ احقر اپنی کوئی تالیف پیش کرتا تو اس کی بھی بڑی قدر فرماتے اور اس کا مطالعہ بھی فرمایا کرتے تھے، کئی تالیفات پر آپ نے گراں قدر تقریظ بھی لکھ کر مرحمت فرمائی، جو احقر کے لیے باعثِ فخروسعادت ہے۔

حضرت والا گوناگوں اَوصاف وخصوصیات سے متصف تھے، بالخصوص سادگی، اِنسانی ہمدردی، حلم وبردباری، وقار وخودداری میں اپنے ہم عصروں میں خاص امتیاز کے حامل تھے اور تواضع تو آپ کی طبیعت میں ایسی رچ بس گئی تھی کہ آپ سے ملنے والا آپ سے پہلی ہی ملاقات میں بآسانی محسوس کرلیتا تھا، کسی بھی معاملہ میں اپنا امتیاز آپ کو طبعاً پسند نہ تھا؛ بلکہ اس سے بڑی کوفت ہوتی تھی، قادرالکلام خطیب ہونے کے باوجود آپ وعظ وخطابت سے حتی الامکان گریز فرماتے تھے۔ کوئی شاگرد بہت ہی تقاضا کرتا تو اُس کی دل داری کی خاطر پروگرام میں شرکت منظور فرمالیتے تھے؛ لیکن گفتگو مختصر، پرمغز اورجامع فرماتے تھے، جو حشووزوائد سے پاک ہوتی تھی۔

یہی حال آپ کے درس کا بھی تھا، آپ جو بھی کتاب پڑھاتے، اُس کا پورا حق اَدا کرنے کی کوشش فرماتے تھے اور درس کا انداز ایسا پیارا اور دل موہ لینے والا ہوتا تھا کہ ہر طالب علم آپ سے قریب اور مانوس ہوجاتا اور آپ کی گفتگو سے محظوظ ہوتا تھا۔

عصر کے بعد آپ کے یہاں عام مجلس لگتی تھی، جس میں ہر شخص کو شرکت کی اجازت تھی، حاضرین کی چائے سے تواضع کی جاتی، ہلکی پھلکی ظرافت سے آپ کی مجلس زعفران زار بنی رہتی تھی، حالاتِ حاضرہ پر آپ کے برمحل اور بروقت بے تکلف تبصروں سے حاضرین خوب لطف اندوز ہوتے۔

فہم وفراست اور ذکاوت آپ کے چہرے بشرے سے عیاں تھی، اِصابتِ رائے اور فکر کی پختگی ایسی تھی کہ کوئی شخص کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، وہ آپ کو مرعوب نہ کرسکتاتھا۔ مردم شناسی بھی بلاکی تھی، کسی آدمی کے صرف ظاہر کو دیکھ کر آپ کبھی متاثر نہ ہوتے، خوشامد اور چاپلوسی کا آپ کی زندگی میں گذر نہ تھا، محض مال کی وجہ سے بڑے سے بڑے سرمایہ دار کا خاص اکرام کرتے ہوئے آپ کو نہیں دیکھا گیا۔ اس کے برخلاف اہلِ صلاح اور اہلِ علم کی تعظیم اور قدردانی میں کوئی کمی نہ فرماتے؛ بلکہ اُن کی خدمت میں نیازمندانہ حاضر ہوتے تھے۔

حضرت والا کا خاص کر اپنے چھوٹوں اور شاگردوں کے ساتھ عجیب وغریب شفقت کا معاملہ تھا، اُن کی دینی خدمات اور سرگرمیوں پر دل کھول کر شاباشی دیتے اور بالکل ایک حقیقی باپ کی طرح مسرت کا اظہار فرماتے تھے۔ اکثر آپ کے شاگرد اپنی تالیفات پر آپ سے تقریظ لکھوانے کے متمنی رہتے تھے؛ چناں چہ آپ حوصلہ افزائی کی خاطر کسی شاگرد کی درخواست کو رد نہ فرماتے اور نہایت نپے تلے انداز میں تقریظ تحریر فرماکر ہمت افزائی کرتے تھے۔ بلاشبہ سیکڑوں کتابوں اور رسائل میں آپ کی تقریظات شائع شدہ ہیں۔

اجتماعی معاملات میں آپ ہمیشہ اِدارے کا مفاد مقدم رکھ کر مشورے دیا کرتے تھے؛ چناں چہ حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب بجنوری نوراللہ مرقدہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند اہم معاملات میں آپ سے مشورے لیتے تھے اور آپ کی رائے کو وقعت دیتے تھے۔ موجودہ انتظامیہ کے ساتھ بھی آپ کا رویہ ناصحانہ اور خیرخواہانہ تھا۔

اکابر واسلاف کے فکرپر آپ مضبوطی سے قائم تھے اور جادئہ حق سے معمولی انحراف بھی آپ کو پسند نہ تھا۔

جمعیة علماء ہند اور اُس کی فکر سے آپ بچپن سے وابستہ رہے؛ تاآں کہ عمر کے آخری دس سالوں میں جمعیة علماء ہند کے مرکزی نائب صدر کے منصب پر بھی فائز رہے۔ اور جب ”مباحث فقہیہ جمعیة علماء ہند“ کے فقہی اجتماعات کا سلسلہ شروع ہوا، تو جب تک صحت رہی اُن کی نظامت کی ذمہ داری آپ کے سپرد ہوتی تھی، جسے آپ پوری کامیابی سے انجام دیتے تھے۔

آپ کو شعرواَدب کا اصاف ستھرا ذوق بھی عطا ہوا تھا، جو آپ کی فطری ذہانت وذکاوت سے ہم آہنگ تھا، جس کو اُستاذ الشعراء حضرت مولانا محمدعثمان کاشف الہاشمی کی رفاقت نے دوآتشہ بنادیا تھا؛ چنانچہ آپ کے قلم سے ایسے بلندپایہ پاکیزہ اَشعار صادر ہوئے جو زبان زدِ خاص وعام ہوگئے۔ بالخصوص دارالعلوم دیوبند اور جمعیة علماء ہند کا بہترین ترانہ آپ کی یادگار ہے، اُن کے علاوہ آپ نے جو نعتیں یا غزلیں لکھیں، اُن سے آپ کی فکری لطافت اور حسن ذوق کا بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ سب تخلیقات ”نغمہٴ سحر“ کے نام سے ۱۴۴/صفحات پر مشتمل کتاب میں شائع کردی گئی ہیں۔ باذوق حضرات اُس سے محظوظ ہوسکتے ہیں۔

زندگی میں عام طور پر آپ صحت مند رہے، گٹھے ہوئے بدن اور چست اور جفاکش طبیعت کے مالک تھے؛ لیکن اخیر میں شوگر کے عارضہ نے جسم کو گھلاکر رکھ دیا تھا، اِسی کے ساتھ قلب اور گردے بھی شدید متأثر ہوگئے تھے۔ بالآخر یہی بیماری جان لیواثابت ہوئی اور آپ نے ۲۳/شعبان المعظم ۱۴۳۸ھ مطابق ۲۰/مئی ۲۰۱۷/ بروز ہفتہ بوقت سحرداعیٴ اجل کو لبیک کہا اور اپنی حسنات لے کر بارگاہِ رب العالمین میں حاضرہوگئے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اُسی دن بعد نماز ظہر امیرالہند حضرت مولانا قاری سیدمحمد عثمان صاحب منصورپوری مدظلہ صدرجمعیة علماء ہند واُستاذ حدیث دارالعلوم دیوبند کی اقتداء میں احاطہٴ مولسری میں آپ کی نماز جنازہ پڑھی گئی اور مزارقاسمی میں نم آنکھوں سے آپ کو سپرد خاک کیاگیا، عوام وخواص کا بڑا مجمع شریک جنازہ تھا اور زبانِ حال سے یہ کہہ رہا تھا کہ:

جان کر من جملہٴ خاصانِ مے خانہ تجھے

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے

آپ کے تین صاحب زادے ہیں: مولانا محمدسفیان صاحب قاسمی، مولانا قاری محمدعدنان صاحب قاسمی مقیم حال شکاگو، امریکہ اور مولانا مفتی محمدسعدان صاحب قاسمی اُستاذ معہداَنور دیوبند۔ ماشاء اللہ تینوں دارالعلوم سے فارغ ہیں اور خدمات میں لگے ہوئے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت الاستاذ کے درجات بلند فرمائیں، متعلقین کو صبرجمیل سے نوازیں اور ہم سب کو آپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین!

 

$$$

 

---------------------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ8-9، جلد:101 ‏،ذی قعدہ-محرم 1438 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2017ء