حضرت ظفربجنوری  کا

حضرت کاشف الہاشمی سے کسبِ فیض

 

از: مولانا خورشید حسن قاسمی

دارالعلوم دیوبند

 

تاریخ، ادب، صحافت، انشاء پردازی، مقالہ نویسی اور مضمون نگاری کے حوالہ سے مولانا ریاست علی ظفر صاحب بجنوری کی گرامی قدر شخصیت دراصل حضرت کے خصوصی مربی ومشفق استاذ جناب مولانا کاشف الہاشمی راجوپوری کی مرہون منت ہے۔

مولانا کاشف الہاشمی صاحب دیوبند کے قریب واقع خاندانِ سادات وشیوخ کی قدیم بستی راجوپور کے باشندہ تھے اور جن کا شمار علمائے دین نامور دانشورانِ دیوبند میں ہوتا ہے اور جنھوں نے تقریباً نصف صدی قبل رواں دواں سلیس اردو میں سب سے پہلے لغات اور فرہنگ کے اعتبار سے آسان تفسیر قرآن کریم ”تفسیر ہدایت القرآن“ کا آغاز فرمایا جو اردو تفاسیر میں ایک یادگار شاہکار کی حیثیت سے متعارف ہے، اس کے علاوہ اردو میں ”تفسیر طنطاوی“ و ”تفسیر مظہری“ کے ابتدائی حصے کا ترجمہ فرمایا جو عرصہ سے بازار میں نایاب ہے، البتہ کتب خانہ دارالعلوم دیوبند میں اس کے نسخے موجود ہیں۔ مولانا بجنوری کا خصوصی تعلق زمانہٴ طالب علمی میں خاص طور سے مولانا کاشف الہاشمی سے رہا۔ آخرالذکر مولانا موصوف راقم الحروف کے تاریخی آبائی مکان ”نبیہ منزل“ میں طویل عرصہ قیام پذیر رہے، ”نبیہ منزل“ یہ دیوبند کا وہی تاریخی قدیم مکان ہے، جو ایک دانش گاہ کی حیثیت رکھتا ہے، جس میں دورِ طالب علمی میں منتسب شیخ الہند مولانا نبیہ حسن صاحب سابق استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند کے تلامذہ کی حیثیت سے حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب، حضرت مولانا مفتی محمود صاحب گنگوہی، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب، مولانا مرغوب الرحمن صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند جیسی برگزیدہ شخصیات کی آمد ورفت رہتی تھی، تقسیمِ ہند کے موقع پر دانشورانِ دیوبند کا یہی مکان ”دارالمشورہ“ بھی رہا۔ مذکورہ تاریخی ”دانش گاہ“ اور راقم الحروف کے جدّی مکان میں دارالعلوم کے جیدالاستعداد طلباء کا ہمہ وقت اجتماع رہتا تھا، جو کہ حضرت مولانا کاشف الہاشمی صاحب سے خوب خوب کسب فیض فرماتے، ان طلباء میں حضرت مولانا ریاست علی ظفر بجنوری، مولانا عبدالجلیل راغبی آسامی، مولانا ابوالحسن صاحب بارہ بنکوی، مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی وعالی جناب مولانا حسیب صدیقی وبرادرِ مکرم حضرت مولانا شاہدحسن صاحب قاسمی سابق استاذ دارالعلوم دیوبند جیسے ممتاز فضلائے دارالعلوم تھے۔

آبائی مکان ہونے کی وجہ سے بچپن میں راقم الحروف کی مذکورہ مکان میں ہر وقت حاضری رہتی اور مذکورہ حضرات سے خانگی نوعیت کا رابطہ رہتا اور ان حضرات کے والد ماجد حضرت مولانا سیّدحسن صاحب سابق استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند کے مخصوص تلامذہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ حضرات کی والد صاحب کی خدمت میں بکثرت حاضری رہتی اور زیادہ تر مولانا ریاست علی صاحب کا خارجی وقت احقر کے اسی جدّی مکان میں گزرتا، اس کے علاوہ حضرت کے برادرِ نسبتی جناب مولانا برہان الحق صاحب قاسمی بجنوری استاذ شعبہٴ فارسی دارالعلوم دیوبند کی راقم الحروف کے ساتھ تقریباً پانچ سال تک شعبہٴ فارسی میں رفاقت رہی اور جماعتِ فارسی کی اہم کتب میں ساتھ رہا، اس وجہ سے بھی راقم کی حضرت کے سسرالی مکان میں مستقل آمد ورفت رہتی جس کی وجہ سے حضرت سے احقر کا تعلق گھرجیسا رہا؛ چنانچہ اسی مشفقانہ تعلق کا مولانا اکثر اظہار بھی فرماتے، ماضی میں راقم الحروف کو خانگی مسائل میں مختلف النوع دشوار کن مراحل کا سامنا ہوا اور مختلف حوادث سے گزرنا ہوا، جن کی تفصیل کا اس جگہ موقع نہیں۔

بہرحال ذاتی وخانگی نوعیت کے پیچیدہ مسائل میں مولانا کی احقر کے ساتھ پوری معاونت رہی اور حضرت نے ہرموقع پر راقم الحروف کی سرپرستی فرمائی، آج حضرت کی شفقتیں رہ رہ کر یاد آرہی ہیں، حضرت مولانا درحقیقت اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، ایک تاریخ اورایک تحریک تھے، حضرت کی وفات حسر آیات سے آج اہل خانہ کے علاوہ تمام ہی علمی حلقے آہ بلب اوراشکبار ہیں، نصف صدی سے زائد مولانا کی تدریسی، تصنیفی، ادبی، صحافتی وسماجی خدمات کا تقاضہ ہے کہ حضرت کی شخصیت پر سمینار منعقد کیے جائیں اور حضرت کے سانحہ وفات کی وجہ سے جو علمی خدمات درمیان میں رہ گئی ہیں اُن کی تکمیل کاانتظام قائم کیا جائے اور یہ کام حضرت کے صاحبزادگان کے ذریعے زیادہ آسان ہیں اوراحقر کی ذاتی رائے میں اس یادگاروتاریخی اقدام کے لیے حضرت کے صاحبزدگان وحضرت کے علوم کے حقیقی امین اور ترجمان عزیزم مفتی محمد سعدان قاسمی سلّمہ سے بظاہر زیادہ توقع کی جاسکتی ہے۔ خداوندقدوس حضرت کی مغفرت فرمائیں اور اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے، آمین!

$$$

 

---------------------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ8-9، جلد:101 ‏،ذی قعدہ-محرم 1438 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2017ء