امام عیسیٰ بن ابانؒ: حیات وخدمات

(۲/۲)

 

از: مولاناعبیداختررحمانی                

نگراں :شعبہٴ تحقیق،المعہد العالی الاسلامی،حیدرآباد

 

تصنیفات وتالیفات

 قضاء کی ذمہ داریوں اوردرس وتدریس کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ انھوں نے تصنیف وتالیف کی خدمات بھی انجام دی ہیں،اوربہ طورخاص اصولِ فقہ میں گراں قدر اضافہ کیاہے،ان کے تقریباًتمام ہی ترجمہ نگاروں نے ان کے نام کے ساتھ ”صاحب التصانیف“ کااضافہ کیاہے،جس سے پتہ چلتاہے کہ وہ تصنیف وتالیف میں بہت مشہور تھے اوران کی تصانیف کی خاصی تعداد رہی ہوگی، اصول فقہ کے مختلف موضوعات پر انھوں نے مستقل کتابیں لکھی ہیں،مختلف مصنّفین جنہوں نے ان کی تصنیفات کی فہرست دی ہے، ہم اس کا ذکر کرتے ہیں۔

۱- کتاب الحجة

۲- کتاب خبر الواحد

۳- کتاب الجامع

۴- کتاب اثبات القیاس

۵- کتاب اجتہاد الرائے (الفہرست لابن الندیم)

امام جصاص رازی درج ذیل کتاب کا اضافہ کیاہے:

۶- الحجج الصغیر (الفصول فی الاصول)

صاحب ہدیة العارفین نے درج ذیل کتابوں کا اضافہ کیاہے۔

۷-الحجة الصغیرة فی الحدیث.(اس کاپتہ نہیں چلاکہ آیا یہ وہی الحجج الصغیر ہے جس کا تذکرہ جصاص رازی نے کیاہے یاپھر الگ سے کوئی اورکتاب ہے)

۸-          کتاب الجامع فی الفقہ.

۹-          کتاب الحج.

۱۰-کتاب الشھادات.

۱۱-کتاب العلل.

۱۲-فی الفقہ.

(ھدیة العارفین أسماء المؤلفین وآثارالمصنفین۱/۸۰۴،دار إحیاء التراث العربی، بیروت-لبنان)

بارہویں نمبرپر موجود کتاب کانام معجم المولفین میں العلل فی الفقہ ہے اور شاید یہی زیادہ صحیح بھی ہے۔ (۸/۱۸،مکتبة المثنی، بیروت)

۱۳-الحجج الکبیر فی الرد علی الشافعی القدیم:اس کتاب کا تذکرہ علامہ زاہد الکوثری نے کیاہے۔اس کے علاوہ علامہ لکھتے ہیں :

اس کے علاوہ عیسیٰ بن ابان نے ایک کتاب حدیث قبول کرنے کی شروط کے سلسلہ میں مریسی اور شافعی کے رد میں بھی لکھی، عیسیٰ بن ابان نے اپنی کتابوں میں وہی اصول بیان کیے امام محمد سے جن کی تعلیم انھوں نے حاصل کی تھی۔(سیرت امام محمد بن الحسن الشیبانی ،اردو ترجمہ بلوغ الامانی فی سیرت الامام محمد بن الحسن الشیبانی،ص۲۰۷)

کتابوں کے نام سے اندازہ ہوتاہے کہ انھوں نے اپنے دور میں محدثین اوراہل فقہ کے درمیان جن مسائل میں شدید اختلافات تھے ان پر قلم اٹھایاہے۔مثلاکتاب اثبات القیاس،بعض شدت پسند ظاہری محدثین کا موقف تھاکہ قیاس کرناصحیح نہیں اوروہ شرعی دلیل نہیں ہے،اس کی تردید میں یہ کتاب لکھی گئی ہوگی،اسی طرح اس زمانے میں محدثین جہاں ایک طرف خبرواحد کو قطعی اوریقینی دلیل مانتے تھے دوسری جانب معتزلہ اوردیگرگمراہ فرقے خبرواحد کی اہمیت کم کررہے تھے، ایسے عالم میں انھوں نے خبرواحدپر قلم اٹھایااوراحناف کا موقف سامنے رکھا۔

الحجج الصغیر:عیسیٰ ٰ بن ابان کی دیگر کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی ناپید ہے؛ لیکن خوش قسمتی سے اب امام جصاص رازی کی الفصول فی الاصول طبع ہوکر آگئی ہے، اس کے مطالعہ سے ایسامحسوس ہوتاہے کہ گویا امام جصاص کی یہ کتاب الحجج الصغیرکی شرح یااس کا بہتر خلاصہ ہے۔تقریباتمام مباحث میں انھوں نے الحجج الصغیر سے استفادہ کیاہے اورالاماشاء اللہ ایک دومقامات کو چھوڑکر ہرجگہ وہ عیسیٰ بن ابان کے ہی موقف کے حامل نظرآتے ہیں،گویااس کتاب کے واسطہ سے براہ راست نہ سہی؛ لیکن بہت قریب سے ہم عیسیٰ بن ابان کے نظریات وخیالات سے واقف ہوسکتے ہیں۔ صاحب کشف الظنون حاجی خلیفہ اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:

وحجج عیسیٰ بن أبان أدق علماً، وأحسن ترتیباً من کتابی المزنی. (کشف الظنون۶۳۲، مکتبة المثنی،بغداد)

اورعیسیٰ بن ابان کی حجج(شاید الصغیر مراد ہو) علم کی باریکی اور ترتیب کے حسن کے لحاظ سے مزنی کی دونوں کتابوں سے بہتر ہے۔اسی کتاب میں عیسیٰ بن ابان نے اپناوہ مشہور نظریہ دوہرایاہے جس کی بنیاد پر احناف آج تک مخالفین کے طعن وتشنیع کے شکار ہیں کہ حضرت ابوہریرہ فقیہ نہیں تھے اور ان کی وہ روایت جو قیاس کے خلاف ہوگی رد کردی جائے، راقم الحروف نے اس پر ایک طویل مضمون لکھاہے، جس میں عیسیٰ بن ابان اور بعد کے علماء جنہوں نے عیسیٰ بن ابان کی رائے اختیار کی ہے، ان کے حوالوں سے بتایاہے کہ عیسیٰ بن ابان کی یہ رائے مطلق نہیں ہے؛ بلکہ تین یاچارشرطوں کے ساتھ مقیدہے اوراگران شرائط کالحاظ وخیال رکھاجائے توپھر عیسیٰ بن ابان اوردوسروں کے نظریہ میں اختلاف حقیقی نہیں؛ بلکہ محض لفظی بن کر رہ جاتاہے۔

کتاب الحجج کی تصنیف:اس کی تصنیف کا ایک دلچسپ پس منظر ہے،وہ یہ کہ مامون الرشید کے قریبی رشتہ دار عیسیٰ بن ہارون ہاشمی نے کچھ احادیث جمع کیں اوران کومامون الرشید کے سامنے پیش کیا اورکہاکہ احناف جوآپ کے دربار میں اعلیٰ مناصب اور عہدوں پر مامور ہیں ،ان کا عمل اورمسلک وموقف ان احادیث کے خلاف ہے اوریہ وہ حدیثیں ہیں، جن کو ہم دونوں نے اپنے عہد تعلیم میں محدثین کرام سے سناہے ، یہ بات سن کر عیسیٰ بن ابان نے اپنے دربار کے حنفی علماء کو اس کا جواب لکھنے کے لیے کہا؛لیکن انھوں نے جوکچھ لکھا وہ مامون کو پسند نہ آیا، یہ دیکھ کرعیسیٰ بن ابان نے کتاب الحجج تصنیف کی جس میں انھوں بتایاکہ کسی روایت کو قبول کرنے اورنہ کرنے کا معیار کیاہوناچاہیے اوراس میں انھوں نے امام ابوحنیفہ کے مسلک کے دلائل بھی بیان کیے۔ جب مامون الرشید نے یہ کتاب پڑھی توبہت متاثرہوئے اورفی البدیہہ فرمایا:

 حسدوا الفتی إذا لم ینالوا سعیہ                   فالنّاس أعداء ٌ لہ وخصوم

کضرائر الحسناء قلن لوجہہا                     حسداً وبغیاً إنّہ لذمیم

کسی بھی باصلاحیت ادمی کا جب مقابلہ نہیں کیاجاسکتاتولوگ اس سے حسد کرنے لگتے ہیں اور اس کے دشمن بن جاتے ہیں جیساکہ خوبصورت عورت کی سوتنیں محض جلن میں کہتی ہیں کہ وہ تو بدصورت ہے (بحوالہ تاج التراجم۲۲۷/تاریخ الاسلام للذہبی۱۶/۳۲۰)اس واقعہ کو سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ صیمری نے ”اخبارابی حنیفة واصحابہ“ میں بیان کیا ہے۱/۱۴۷)

تصنیفات کے باب میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ عیسیٰ بن ابان نے ایک کتاب بہ طور خاص امام شافعی کے رد میں لکھی تھی(۱)، اس کتاب کے بارے میں تاریخ بغداد کی روایت کے مطابق داؤد ظاہری اور اخبارالقضاة کے مصنف قاضی کا الزام ہے کہ انھوں نے اس کتاب کی تصنیف میں سفیان بن سحبان(۲) سے احادیث کے سلسلے میں مدد لی تھی، قاضی وکیع لکھتے ہیں:وقیل لی إن الأحادیث التی ردھا علی الشافعی أخذھا من کتاب سُفْیَان بْن سحبان(اخبارالقضاة لوکیع: ۲/۱۷۱) ”مجھ سے کہاگیاہے کہ وہ احادیث جو عیسیٰ بن ابان نے امام شافعی کے رد میں اپنی کتاب میں لکھی ہیں، سفیان بن سحبان کی کتاب سے ماخوذ ہے“۔اورداؤد ظاہری سے جب عیسیٰ بن ابان کی کتاب کا جواب دینے کے لیے کہاگیاتوانھوں نے کہاکہ عیسیٰ بن ابان کی اس کتاب کی تصنیف میں ابن سختان(۳) نے مدد کی ہے۔(تاریخ بغداد۶/۲۱،دارالکتب العلمیة)

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عیسیٰ بن ابان پر اس سلسلے میں ابن سحبان سے مدد لینے کا الزام ایک غلط الزام ہے اوراس کی تردید خود عیسیٰ بن ابان نے کی ہے،ایسامحسوس ہوتاہے کہ ان کی زندگی میں ہی یہ چہ می گوئیاں ہونے لگی تھیں کہ ان کی فلاں تصنیف ابن سحبان کی اعانت کا نتیجہ ہے، کسی نے جاکر پوچھ لیاتوانھوں نے بات واضح کردی اوریہ بات بھی واضح ہوگئی کہ وہ کون سی کتاب ہے:

قال أبو خازم: فسمعت الصریفینی شعیب بن أیوب یقول: قلت لعیسیٰ ابن أبان: ھل أعانک علی کتابک ھذا أحدٌ؟ قال: لا، غیر أنی کنت أضع المسألة وأناظر فیھا سفیان بن سختیان (فضائل أبی حنیفة وأخبارہ ومناقبہ ۱/۳۶۰، الناشر: المکتبة الإمدادیة - مکة المکرمة)

ابوخازم کہتے ہیں ،میں نے شعیب بن ایوب کو یہ کہتے سناکہ میں نے عیسیٰ بن ابان سے پوچھاکہ اس کتاب (کتاب الحجج)کی تصنیف میں کیاکسی نے آپ کی مدد کی ہے، فرمایاکہ نہیں،ہاں اتنی سی بات تھی کہ میں اولا ًمسئلہ کو لکھ لیتاتھا پھر اس کے بعد اس بارے میں سفیان بن سختیان(۴) سے مناظرہ (بحث) کرتاتھا۔

عیسیٰ بن ابان کے ناقدین

ہرصاحب تصنیف جو مجتہدانہ فکر ونظر کا مالک ہو،ہرمسئلہ میں جمہور کے ساتھ نہیں چلتا؛بلکہ بسااوقات وہ اپنی راہ الگ بناتاہے بقول غالب ”ہرکہ شد صاحبِ نظر دین بزرگاں خوش نکرد“ امام عیسیٰ بن ابان کے بھی بعض نظریات وخیالات ایسے ہیں جن سے جمہور اتفاق نہیں کرتے اور جن پر ان کے معاصرین اوربعد والوں نے تنقید کی ہے۔ان پر جن لوگوں نے تنقید کی ہے، ان کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔

امام طحاوی:”آپ کے سوانح نگاروں نے آپ کی تصنیفات کے ضمن مین ایک کتاب کا ذکرکیاہے جس کا نام ”خطاالکتب“ ہے،اس میں شاید ایک باب یاکوئی خاص فصل عیسیٰ بن ابان کے رد میں ہے“۔(الجواہر المضئیة فی طبقات الحنفیة۱/۱۰۴)

ابن سیریج :مشہور شافعی فقیہ ہیں، ان کے حالات میں ترجمہ نگاروں نے لکھاہے کہ انھوں نے ایک کتاب عیسیٰ بن ابان کے فقہی آراء کے رد میں لکھی ہے ولہ رد علی عیسیٰ بن أبان العراقی فی الفقہ (موسوعة أقوال أبی الحسن الدارقطنی فی رجال الحدیث وعللہ ۱/۷۶، عالم الکتب للنشر والتوزیع)

اسماعیل بن علی بن اسحاق:آپ نے بھی ایک کتاب عیسیٰ بن ابان کے رد میں لکھی ہے،جس کا نام ہے ”النقض علی مسألة عیسیٰ بن أبان فی الاجتھاد“، مصنف کا تعلق شیعہ فرقہ سے ہے ۔ (لسان المیزان۱/۴۲۴)کتاب کے نام سے ایسامحسوس ہوتاہے کہ عیسیٰ بن ابان علیہ الرحمہ کی جوکتاب الاجتہادفی الرائے ہے، یہ کتاب اسی کی تردید میں لکھی گئی ہے۔

خلق قرآن کے موقف کاالزام اور حقیقت

امام عیسیٰ بن ابان پر سب سے بڑااورسنگین الزام خلق قران کے عقیدہ کے حامل ہونے کاہے، یہ الزام مشہور شافعی محدث حافظ ابن حجرنے لگایاہے،(اگرچہ حافظ ابن حجر سے پہلے بھی کچھ لوگوں نے خلق قرآن کے موقف کا الزام لگایاہے؛ لیکن انھوں نے قیل کے ساتھ یہ بات کہی ہے یادیگرصیغہ تمریض کے ساتھ) حافظ ابن حجر کے تعلق سے اگرچہ متعدد احناف کو شکایت رہی ہے کہ وہ احناف کے ترجمہ میں اس فیاضی اور دریادلی کا مظاہرہ نہیں کرتے جو شوافع کے ساتھ کرتے ہیں، ان شکوہ وشکایات سے قطع نظر خلق قرآن یادوسری کسی بھی جرح کے ثبوت کے لیے کچھ پیمانے ہیں، پہلا پیمانہ یہ ہے کہ جو امام جرح وتعدیل کسی راوی پر کوئی جرح کررہاہے، اس علم جرح وتعدیل کے ماہر تک صحیح سند سے یہ جرح ثابت ہو ،دوسراپیمانہ یامعیار یہ ہے کہ یہ جرح بادلیل ہو، تیسرا معیار یہ ہے کہ جس پر الزام لگایاجارہاہے،اس کا موقف اسی کے الفاظ میں ثابت ہو۔

سب سے پہلے یہ الزام تاریخ بغداد میں خطیب بغداد نے لگایاہے؛چنانچہ خطیب بغدادی تاریخ بغداد میں لکھتے ہیں۔

ویُحکی عن عیسیٰ انہ کان یذھب الی القول بخلق القران (تاریخ بغداد جلد12صفحہ 482،) عیسیٰ بن ابان سے نقل کیاجاتاہے کہ وہ خلق قران کا عقیدہ رکھتے تھے۔

یہی بات حافظ ذہبی نے بھی تاریخ الاسلام میں دہرائی ہے:

ویُحکی عنہ القول بخلق القرآن، أجارنا اللہ، وھو معدودٌ من الأذکباء (تاریخ الاسلام للذہبی، صفحہ312، جلد16) ان سے خلق قران کا قول نقل کیاگیاہے اللہ ہمیں اس سے بچائے،اور وہ ذہین ترین لوگوں میں سے ایک تھے۔

یہی بات ابن جوزی نے بھی کہی ہے:

ویذکر عنہ أنہ کَانَ یذھب إِلَی القول بخلق القرآن.(المنتظم فی تاریخ الأمم والملوک۱۱/۶۷، دارالکتب العلمیة، بیروت) اوران کے بارے مین ذکر کیاجاتاہے کہ ان کا موقف خلق قرآن کا تھا۔

واضح رہے کہ خطیب بغدادی نے جس سند سے اس حدیث کی روایت کی ہے، اس میں بعض مجہول اور بعض ضعیف راوی ہیں ،جس کی وجہ سے یہ سند اس قابل نہیں کہ اس کی وجہ سے کسی پر خلق قرآن کا سنگین الزام عائد کیاجائے،علاوہ ازیں خطیب نے اس روایت کو نقل کرنے کے باوجود خلق قرآن کے الزام کو صیغہٴ تمریض کے ساتھ بیان کیاہے،اگریہ سند ان کے نزدیک صحیح ہوتی تو وہ اس کو ضرور بالضرور جزم اورقطعیت کے ساتھ نقل کرتے اوریہی بات حافظ ذہبی کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے جن کے رجال کی معرفت اور علم جرح وتعدیل میں گہرائی وگیرائی پر اتفاق ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ دو مورخ یعنی خطیب بغدادی اورحافظ ذہبی اس قول کو تمریض کے صیغہ کے ساتھ نقل کرتے ہیں ،جواس بات کی نشاندہی ہے کہ ان کا خلق قران کے عقیدہ کا حامل ہونا کمزور بات ہے،کوئی پکی بات نہیں ہے؛چنانچہ خود حافظ ذہبی نے جب سیر اعلام النبلاء میں ان کا ترجمہ نقل کیا تو عقیدہ خلق قران کے حامل ہونے کی بات نقل نہیں کی ؛کیونکہ وہ پکی بات نہ تھی؛چنانچہ سیراعلام النبلاء میں حافظ ذہبی عیسیٰ بن ابان کے ترجمہ میں محض اتنا ہی نقل کرتے ہیں۔

فَقِیْہُ العِرَاقِ، تِلْمِیْذُ مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ، وَقَاضِی البَصْرَةِ.حَدَّثَ عَنْ: إِسْمَاعِیْلَ بنِ جَعْفَرٍ، وَھُشَیْمٍ، وَیَحْیَی بنِ أَبِی زَائِدَةَ.وَعَنْہُ: الحَسَنُ بنُ سَلاَّمٍ السَّوَّاقُ، وَغَیْرُہُ.وَلَہُ تَصَانِیْفُ وَذَکَاء ٌ مُفْرِطٌ، وَفِیْہِ سَخَاء ٌ وَجُودٌ زَائِدُ.تُوُفِّیَ: سَنَةَ إِحْدَی وَعِشْرِیْنَ وَمائَتَیْنِ.أَخَذَ عَنْہُ: بَکَّارُ بنُ قُتَیْبَةَ. (سیراعلام النبلاء للذہبی۱۰/۴۴۱)

عراق کے فقیہ ہیں۔محمد بن الحسن کے شاگرد ہیں اوربصرہ کے قاضی تھے۔انھوں نے اسماعیل بن جعفر،ہشیم، یحییٰ بن ابی زائدہ سے روایت بیان کی ہے اوران سے حسن بن سلام السواق اوردیگر نے روایت بیان کی ہے۔ان کی متعدد تصانیف ہیں وہ بہت زیادہ ذہین تھے اسی کے ساتھ وہ بہت سخی بھی تھے۔221میں ان کا انتقال ہوا۔

اگرخلق قران کے عقیدہ کی بات پکی ہوتی توکیایہ مناسب تھاکہ حافظ ذہبی اس کا یہاں ذکر نہ کرتے، ضرورکرتے جیساکہ سیراعلام النبلاء میں انھوں نے دوسرے خلق قران کے عقیدہ کے حاملین کا ذکر کیاہے،پھردیکھیے حافظ ذہبی ”میزان الاعتدال“ میں ان کا صرف ایک سطری جملہ لکھتے ہیں اوراس میں بھی خلقِ قران کے عقیدہ کا کوئی تذکرہ نہیں کرتے؛ بلکہ صاف صاف یہ کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے ان کی توثیق یاتضعیف کی ہے۔

عیسیٰ بن أبان، الفقیہ صاحب محمد بن الحسن ما عَلِمْتُ أحدًا ضَعَّفَہ ولاوثقہ (میزان الاعتدال : ج۵، ص۳۷۴)

خلق قران کاعقیدہ کا حامل ہونابجائے خود ایک جرح ہے اوراس کے حاملین مجروح رواة میں شمارہوتے ہیں اورکسی کے مجروح یاضعیف راوی ہونے کے لیے اس کاخلق قران کے عقیدہ کا حامل ہونابھی کافی ہے، اس کے باوجود حافظ ذہبی صاف صاف کہہ رہے کہ مَا عَلِمْتُ أحدًا ضَعَّفَہ وَلاَوَثَّقَہ کیایہ اس کی بات بالواسطہ صراحت نہیں ہے کہ عیسیٰ بن ابان کی جانب خلق قران کا جوعقیدہ منسوب کیاگیاہے ،وہ غلط اوربے بنیاد اورانتہائی کمزور ولچربات ہے، ان سب کے برخلاف حافظ ابن حجر لسان المیزان میں لکھتے ہیں:

لکنہ کان یقول بخلق القرآن ویدعو الناس إلیہ (لسان المیزان: ابن حجر: ۴/۳۹۰)

عیسیٰ بن ابان نہ صرف خلق قرآن کے قائل تھے بلکہ وہ اس کے داعی بھی تھے۔

حافظ ابن حجر کے علاوہ کسی بھی دوسرے ترجمہ نگارنے جس میں شوافع اوراحناف سبھی شامل ہیں، عیسیٰ بن ابان پر خلق قرآن کے عقیدہ کا الزام نہیں لگایاہے،چاہے وہ مشہور شافعی فقیہ ابواسحاق شیرازی صاحب طبقات الفقہاء ہوں یا حافظ عبدالقادر قرشی ہوں یا حافظ قاسم بن قطلوبغاہوں۔

اس تفصیل سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ خلق قرآن کا الزام لگانے کے سلسلے میں حافظ ابن حجر منفرد ہیں اور انھوں نے اپنے دعویٰ کی کوئی دلیل بیان نہیں کی ہے،اور دعویٰ کی جب تک کوئی دلیل نہ ہو ،اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔

حافظ ابن حجر نے خلق قران کی بات ضرور نقل کی ہے اوراس کاداعی بھی بتایاہے؛ لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایاکہ ان کے سامنے ایسی کونسی نئی بات اورنئی دلیل تھی کہ جو چیز خطیب بغدادی اور ذہبی کے یہاں صیغہٴ تمریض کے ساتھ اداکی جارہی تھی ، وہ یہاں آکر صیغہ جزم میں بدل گئی ،اورجس میں وہ محض ایک عقیدہ کے حامل نظرآتے ہیں ،وہ یہاں آکر داعی میں بدل جاتے ہیں،جتنے ماخذ اس وقت تک ہمارے سامنے ہیں، اس میں سے کسی سے بھی حافظ ابن حجر کے قول کی تائید نہیں ہوتی۔

علم جرح وتعدیل کی رو سے بھی حافظ ابن حجر کی یہ بات اس لیے غیرمعتبر ہے کہ حافظ ابن حجر عیسیٰ بن ابان کے معاصر نہیں، بہت بعد کے ہیں، لازماً ان کی یہ بات کسی اور واسطہ اورسند سے منقول ہونی چاہیے،اورسند یاکسی معاصر شخصیت کی شہادت کا اہتمام خود حافظ ابن حجر نے نہیں کیاہے، اس لیے کہاجاسکتاہے کہ علم جرح وتعدیل کی رو سے ان کی یہ بات ناقابلِ قبول ہے۔

اگرکوئی یہ کہے کہ لسان المیزان میں حافظ ابن حجر کے ذہبی پر بہت سارے تعقبات اوراضافے ہیں، اس میں سے ایک یہ بھی ہے، اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ جہاں بھی حافظ ابن حجر نے ذہبی کے کسی قول پر اعتراض کیاہے، باحوالہ کیاہے،محض اپنے قول کے طورپر ذکر نہیں کیاہے۔

ہاں جن لوگوں کواصرار ہے کہ وہ خلق قران کے عقیدہ کے حامل اورداعی تھے توانھیں چاہیے کہ وہ ان کی معاصرکسی شخصیت کا کوئی قول یاکوئی سند پیش کریں۔

دوسری بات یہ ہے کہ خلق قرآن کے الزام کی حقیقت پر غورکرنے کے لیے چند باتیں ذہن میں رکھنی ضروری ہیں،ایک تویہ کہ یہ عقیدہ خلقِ قران ایک مبہم لفظ ہے،محض کسی کا یہ کہہ دینا کہ فلاں خلق قرآن کا قائل تھا،کافی نہیں ہے، یہ واضح ہوناچاہیے کہ وہ کن الفاظ میں خلق قرآن کا قائل تھا، ورنہ تو خلق قرآن کا الزام یا دیگر سنگین الزامات مشہور محدثین پر بھی لگے ہیں؛لیکن جب ان کے ہی الفاظ میں ان کے موقف کو جاناگیاتو حقیقت واضح ہوگئی ۔

اس کی واضح مثال خود امام بخاری کا واقعہ ہے جب امام ذہلی سے وابستہ ایک شخص نے امام بخاری سے اس مسئلہ میں پوچھاتوانھوں نے اس مسئلہ کی حقیقت کوصاف اورواضح کرتے ہوئے کہاتھاکہ جس قران کی تلاوت ہم کرتے ہیں، وہ افعال مخلوق ہونے کے لحاظ سے مخلوق ہے ورنہ قران کلام اللہ ہونے کے لحاظ سے غیر مخلوق ہے۔ ان کے الفاظ ہیں، القران کلام اللہ غیرمخلوق، وأفعال العباد مخلوقة والامتحان بدعة (ہدی الساری494) اگر خلق قرآن کے سلسلے میں ہمارے سامنے امام بخاری کی عبارت نہ ہو محض ذہلی کا بیان اور ابوحاتم وابوزرعہ کی تنقید ہو توکوئی بھی امام بخاری کو خلق قرآن کے عقیدہ کا قائل قراردے دے گا۔دوسری بات یہ بھی ہے خلق قرآن کے معاملہ میں امام احمد بن حنبل کی آزمائش کے بعد امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ اوردیگر محدثین انتہائی شدید ذکی الحس ہوگئے اوراس تعلق سے اگرکوئی ان کے الفاظ سے ہٹ کر کچھ کہتاتو وہ اسے برداشت نہ کرتے اورفوراً اس کے متروک اورضعیف ہونے یاخلقِ قرآن کے قائل ہونے کی بات کہہ دیتے تھے۔ تفصیل کے لیے شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کی تصنیف لطیف وقیم "مسألة خلق القرآن وأثرُھا فی صفوفِ الرواة والمحدثین وکتبِ الجرح والتعدیل"کی جانب رجوع کریں۔اس میں انھوں نے تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے اورحوالوں کے ساتھ بتایاہے کہ آگے چل کر اس مسئلہ میں محدثین کے درمیان کس قدر غلو ہوگیا تھا۔

انتقال:آپ تادم واپسیں بصرہ کے قاضی رہے،آپ کو معزول کرنے کی بعض حضرات نے کوشش کی؛ لیکن قاضی القضاة یحییٰ بن اکثم اور ابن ابی داؤد تک کو آپ کو معزول کرنے کی ہمت نہیں ہوئی،محمد بن عبداللہ کلبی کہتے ہیں کہ میں انتقال کے وقت ان کے پاس موجود تھا، انھوں نے مجھ سے کہاکہ ذرا میرے مال ودولت کا شمار توکردو،میں نے گنا تو بہت زیادہ مال نکلا، پھر انھوں نے فرمایا کہ اب مجھ پر جو قرضے ہیں، ان کو جوڑ کر بتاؤکہ کل قرضہ کتنا ہے؟جب میں نے ان کے قرضوں کو جوڑا توپایاکہ یہ ان کی کل مالیت کے قریب ہے، اس پر عیسیٰ بن ابان کہنے لگے ،اسلاف کہاکرتے تھے کہ زندگی مال داروں کی سی جیو اور موت فقیروں کی سی ہونی چاہیے۔(اخبارابی حنیفة واصحابہ ۱/۱۴۹)

بالآخر وہ گھڑی آہی گئی جس سے ہرایک کو دوچار ہونا ہے، اورجونہ ٹل سکتی ہے، نہ آگے پیچھے ہوسکتی ہے، ماہ صفر کی ابتدائی تاریخ اور سنہ۲۲۱ ہجری میں علم کا یہ آفتاب غروب ہوگیا۔

امام عیسیٰ بن ابان کاانتقال کب ہوا، اس بارے میں مورخین کے اقوال مختلف ہیں،بعض نے 220ہجری قراردیاہے؛جب کہ بعض نے 221ہجری بتایاہے؛لیکن 221کاقول زیادہ معتبرہے؛ کیونکہ خلیفہ بن خیاط جن کا انتقال عیسیٰ بن ابان کے محض۱۹-۲۰سال بعد ہوا ہے،انھوں نے عیسیٰ بن ابان کی تاریخ وفات۲۲۱ ہجری ہی بتائی ہے،علاوہ ازیں خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں سند کے ساتھ نقل کیاہے کہ ماہ صفر کی ابتداء 221ہجری میں ان کاانتقال ہوگیا۔اسی طرح حافظ ذہبی نے تاریخ الاسلام اورسیر اعلام النبلاء میں بھی تاریخ وفات 221ہجری ہی ذکرکیاہے اورحافظ ذہبی چونکہ انتقال کی تاریخ وغیرہ بتانے میں کافی محتاط ہیں اوراس سلسلے میں بہت احتیاط اورتحقیق سے کام لیتے ہیں؛ لہٰذا ان مورخین کی بات زیادہ معتبر ہے۔

$$$

حواشی:

(۱)             یہ شاید وہی کتاب ہے جس کا نام شیخ زاہد الکوثری نے الحجج الکبیر فی الرد علی الشافعی القدیم نے لکھا ہے۔

(۲)         یہ سفیان بن سحبان حنفی ہیں اور امام محمد کے شاگرد ہیں (تاج التراجم لابن قطلوبغا ۱/۱۷۱)

(۳)         تاریخ بغداد میں ایسا ہی ہے؛ لیکن صحیح ابن سحبان ہے جیسا کہ الفہرست لابن الندیم اورتاج التراجم لابن قطلوبغا میں ہے۔

(۴)         صحیح سفیان بن سحبان ہے، جیساکہ ماقبل میں وضاحت کی جاچکی ہے۔

$$$

 

----------------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10 ، جلد:101‏، محرم-صفر 1439 ہجری مطابق اکتوبر 2017ء